یہ کیسا آزادی مارچ تھا ۔۔۔؟

یہ کیساآزادی مارچ تھا کہ جو چپکے سے ختم ہوگیا حکومت سے کچھ لیادیانہیں ،کوئی ماردھاڑنہیں کی ،کوئی مقدمہ بازی نہیں کی ورنہ2014میں عمران خان اورطاہرالقادری جب دھرنا دینے آئے تھے توواپسی پران کے گلے میں ایک درجن سے زائدمقدمات کی مالابھی تھی ،یہ کیساشریفانہ اورشرعی آزادی مارچ تھا کہ جس میں ناچ گانا تھا نہ رقص وسرورکی محفلیں تھیں ،سرکاری اداروں پرحملے تھے اورنہ ہی سرکاری اہلکاروں کے سرپھاڑنے کے مناظر ،یہ کیسامہذب مارچ تھا جواستقامات سے وہیں تک محدود رہاجہاں تک ضلعی انتظامیہ نے ان سے معاہدہ کیاتھا ،یہ کیساآزادی مارچ تھا کہ مولاناخالی ہاتھ واپس گیا مگرحکومت کے ہاتھ باندھ گیایہ کیساآزادی مارچ تھا کہ اس نے مسئلہ کشمیرپس منظرمیں دھکیل دیا حالانکہ حکومت مقبوضہ کشمیرفتح کرنے کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی مگربراہوآزادی مارچ والوں کاکہ انہوں نے تین ہفتے تک یہ فتح روکے رکھی ۔

چلیں جونقصان ہوناتھا وہ ہوگیااب آزادی مارچ ختم ہوگیاہے، حکومت کومسئلہ کشمیراجاگرکرنے کا پھرموقع مل گیا ہے ،آزادی مارچ کی وجہ سے جومسئلہ کشمیرپس منظرمیں چلاگیاتھا اب حکومت ایسی جارحانہ پالیسی اپنائے گی کہ کشمیرایک مرتبہ پھرسے فلیش پوائنٹ بن جائے گا کیوں کہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیرکے حوالے سے جواقدامات اٹھائے تھے وہ بدستوربرقرارہیں ،بلکہ اب بھارتی حکومت نے لداخ اورجموں کی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے بھارت کاحصہ بنادیاہے حکومت کے پاس اب بہترین موقع ہے کہ وہ مودی سے سارے حساب بے باق کردے ،

تین ہفتے تک مولانافضل الرحمن اوران کاآزادی مارچ مفت میں ٹی وی چینلزکی ہیڈلائن بنارہا، لیکن اب یہ چینلزبھی مولاناکے آزادی مارچ سے آزادہوگئے ہیں ، حکومت کے پاس شاندارموقع ہے کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں سے کم ازکم بارہ گھنٹے کشمیرکے لیے وقف کروادے، ایسے اقدامات کرے کہ چینلزپرصرف کشمیرہی کشمیرہو،اب آدھاگھنٹہ کی بجائے پانچ گھنٹے کااحتجاج شروع کیاجائے، اب اگرانڈیانے سیزفائرلائن کی خلاف ورزی کرے توایسامنہ توڑجواب دیاجائے کہ بھارتی فوج دوبارہ ایسی غلطی کاسوچ کربھی کانپ جائیں ،کشمیرکمیٹی کے چیئرمین نہ جانے کہاں گم ہیں حکومت انہیں ڈھونڈکرسامنے لائے تاکہ وہ قوم کوبتائیں کہ حکومت سری نگرپرفتح کاعلم بلندکرنے والی ہے ، ان کے خصوصی انٹرویوزشائع کیے جائیں اورکشمیرکی آزادی کے لیے حکومت نے جومنصوبہ بندی کررکھی ہے وہ قوم کوبتائی جائے ،
براہواس آزادی مارچ کااس نے قوم کوبتادیاکہ ایساکچھ نہیں ہوگا کیوں کہ تقسیم کشمیرکے اس عالمی منصوبے میں ہم شامل ہیں ہم کشمیریوں کوجھوٹی تسلیاں د ے رہے ہیں اب بھی کچھ بے وقوف حکومت سے مسئلہ کشمیرحل کرانے کی امیدلگائے بیٹھے ہیں ایسے لوگوں کی عقل پرماتم ہی کیاجاسکتاہے ،اس حکومت کواگرکشمیرکی اتنی ہی فکرہوتی جتنی اسے کرتارپورہ کی تھی تواب تک کشمیرسے کرفیوختم ہوچکاہوتامعمولات زندگی بحال ہوچکے ہوتے ،بھارت مقبوضہ کشمیرپراپنے قبضے کومستحکم کرنے کے حوالے سے جواقدامات کررہاہے انہیں روک لگ چکاہوتامقبوضہ کشمیرکی آزادی کے لیے ایک تقریرسے شروع ہونے والاسفرٹویٹ پرجاکرختم ہوچکاہے ،علی گیلانی ہزارں خط لکھ لیں ان حکمرانوں کے کان پرجوں تک نہیں رینگے گی ۔

حکومت ابھی آزادی مارچ کے چنگل سے پوری طرح نہیں نکلی تھی تھی کہ میاں نوازشریف کے باہرجانے کامسئلہ ان کے سرپڑگیا حالانکہ حکومت اعلا ن کرچکی تھی کہ وہ کسی کواین آراونہیں دے گی کوئی مرتاہے مرجائے مگرہرصورت لوٹاہواپیسہ نکالیں گے ،مگرنہ جانے آزادی مارچ والوں نے ایساکون سامنترپھونکاکہ حکومت میاں نوازشریف کوباہرجانے سے نہ روک سکی ،عدالتیں بھی وہی ہیں جوپہلے تھیں مگرفیصلے دیگرقسم کے آرہے ہیں ،جولوگ کل تک یہ کہہ رہے تھے کہ مولاناپچاس ہزاروالاقالین پانچ ہزارمیں بیچ کرچلے گئے ہیں آج ان کے ہاتھ سات ارب کی بجائے پچاس روپے کاسٹام پیپرہے جوحکومت سنبھال سنبھال کررکھ رہی ہے ۔

وزیراعظم نے یکسوئی سے حالات کاجائزہ لینے کے لیے دودن کی چھٹی کی ہے ،وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ اب کیاہوگا، کل کلاں اگرانہیں احتجاج کرناپڑگیاتووہ کیاکریں گے کیوں کہ آزادی مارچ نے جلاؤ گھیراؤوالااحتجاج بھی ختم کرواکرنئے مہذب طریقے کی بنیادرکھ لی ہے اس طریقے سے احتجاج توایک مشکل کام ہے اس احتجاج کاکیافائدہ جس سے کوئی گملاتک نہ ٹوٹے ،کسی ادارے پرحملہ نہ ہو ،اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم نے دودن یہ سوچنے میں بھی گزاردیئے کہ انہوں نے بہت سے یوٹرن لیے ہیں بلکہ ہربات پریوٹرن لیاہے لیکن یہ این آراووالے بیان سے یوٹرن لیناسب سے مشکل ہے مگریہ کڑوی گولی ہضم کرناپڑے گی عوام کوبتاناپڑے گا کہ ہمارے پاس ایک سٹام پیپرہے جومحفوظ ہاتھوں میں ہے اس کے مطابق نوازشریف کوواپس آناہوگا ۔

یہ کیساآزادی مارچ پرتھا کہ جس کے شروع ہونے پربھارتی میڈیاخوش تھا مگرکرتارپورہ راہداری کھولنے پرمودی ہمارے وزیراعظم کومبارک باددے رہاتھا ۔بھلاایسابھی کوئی مارچ ہوتاہے جوحکومت کوکام کرنے سے نہ روک سکے ؟حکومت نے کم مدت میں کرتارپورہ راہداری کھولنے کے لیے ریکارڈ قائم کیا اورایسے وقت میں اس کاافتتاح کیا جب مارچ والے اسلام آبادمیں دھرنادے کربیٹھے تھے ،آرپارخوشیوں کی جھپیاں ڈالی جارہی تھیں ہم کرتارپورہ راہداری کھولنے پرخوشی بنارہے تھے توہندو بابری مسجدکی جگہ رام مندرکی تعمیرکی اجازت ملنے پرخوش ہورہے تھے ،ہماری حکومت سکھوں کوخوش کرنے میں مصروف تھی جبکہ مودی ہندوں کوخوش کرنے میں مصروف تھا دونوں طرف پریشان تھا توصرف مسلمان پریشان تھا ۔

اس آزادی مارچ نے ایساکیاجادو کیاہے کہ اب وزیراعظم ہاؤ س اوروزاراء کے ایسے بیانات نہیں آرہے ہیں کہ فوج اورحکومت ایک پیج پرہیں ،ان کی زبانوں کوکیوں تالے لگ گئے ہیں ۔یہ آزادی مارچ کاہی نتیجہ تھا کہ حکومت نے پارلیمنٹ کوبائی پاس کرکے جاری کیے گئے آرڈیننس واپس لے کرڈپٹی سپیکرکوبچایاہے اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماداس مرتبہ کامیاب ہوتی نظرآرہی تھی کیوں کہ اتحادی بھی حکومت کوآنکھیں دکھارہے تھے اوران اداروں کی بھی پشت پناہی نہیں تھی جن کی قوت کی وجہ سے چیئرمین سینٹ بچ پائے تھے یاحکومت قائم ہوئی تھی ،اس تحریک عدم اعتمادکی وجہ سے حکومت لڑکھڑاگئی تھی اورفوادچوہدری جیسابانکاوزیربھی اپوزیشن کی منتیں کررہاتھا کہ تحریک عدم اعتمادواپس لیں ،

براہواس آزادی مارچ کاکہ جس نے چوہدری براداران کومتحرک کردیاحالانکہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے حکومت نے انہیں ڈمپ کرکے رکھاہواتھاچوہدری شجاعت حسین نے تو یہ بیان دے کر بہت سوں کو چونکا دیا کہ (معاشی بدحالی کی وجہ سے حالات اتنے خراب ہو رہے ہیں کہ)آئندہ تین ماہ یا زیادہ سے زیادہ چھ ماہ بعد کوئی شخص بھی وزیراعظم بننے کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ وہ ایم کیوایم بھی حکومت کے خلاف بول پڑی ہے جس کولاڈلے بچے کی طرح رکھا ہواتھا حکومت کے دیگراتحادی کہیں خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ،حدتویہ ہے کہ ٹماٹراورمٹرنے بھی آنکھیں دکھاناشروع کردی ہیں اوروہ عوام کی پہنچ سے باہرہوگئے ہیں اگرچہ حفیظ شیخ اورفردوس عاشق کواب بھی ٹماٹرسترہ اورمٹرپانچ روپے کلومل رہے ہیں۔

آزادی مارچ کاپلان بی سامنے آچکاہے اگرچہ اپوزیشن کی دیگرجماعتیں اس پلان سے متفق نہیں ہیں مگرحکومت کے خاتمے ،نئے الیکشن کے حوالے سے تمام جماعتوں کااتفاق ہے ہرگزرتادن حکومت کے لیے مشکل ترہوتاجارہاہے اندرکی خبریں جوں جوں باہرآرہی ہیں حکومت کے لیے پریشانی کاباعث بن رہی ہیں مولانافضل الرحمن کی وقتی پسپائی سے حکومت خوش ہے مگر
سحر کی خوشیاں منانے والو۔۔
سحر کے تیور بتا رہے ہیں۔۔۔
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی،،
کہ سانس لینا عذاب ہو گا۔۔۔
وہ دن گیا جب کہ ہر ستم کو،،
ادائے محبوب سمجھ کے چپ تھے،،
اٹھے گی ہم پر جو اینٹ کوئی۔۔۔
تو پتھر اسکا جواب ہو گا۔۔۔۔
سکون صحرا میں بسنے والو۔۔
ذرا رتوں کا مزاج سمجھو۔۔
جو آج کا دن سکوں سے گزرا۔۔
تو کل کا موسم خراب ہو گا
 

Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 129 Articles with 81809 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.