عالمگیر نفرت

آج سے14سال پہلے یمن کے وزیرِاعظم عبدالقادرنے بڑی حسرت سے کہاتھا”کاش!امریکادنیاکے نقشے سے مٹ جائے۔ “اس آرزو میں کتنی گہرائی پوشیدہ ہے اوریہ بات صرف عبدالقادرہی نہیں بلکہ اس وقت دنیابھرکے چھ ارب سے زائد انسانوں کی اکثریت کی زبان پریہی ہے کہ “کاش ! امریکادنیاکے نقشے سے مٹ جائے۔”یہ امریکاہی ہے جس کے باعث آج دنیازخموں سے چورچورہے۔یہ امریکاہی ہے جس کے باعث انسانیت کا لاشہ آج چوراہے پربے گوروکفن پڑاہے اوریہ امریکاہی ہے جس نے دنیا بھرکے کروڑوں انسانوں کومحض اپنی”اناکی تسکین”کیلئے صفحۂ ہستی سے مٹا دیاہے۔

اگرآج دنیاکے نقشے پرامریکاکاوجودنہ ہوتاتوکروڑہاانسان جاپان،فلسطین،ویت نام،افغانستان،عراق اورپاکستان میں اپنی ٹانگوں اورہاتھوں سے محروم رہ کرزندگی نہ گزاررہے ہوتے۔امریکاکی فطرت ہی میں بدمعاشی اورتھانیداری گھسی ہوئی ہے اس لئے اسے یہ پرامن دنیا،یہ معصوم پھول جیسے بچے اوریہ کمزورناتواں سی عورتیں ہرگزاپیل نہ کرتیں۔اس کی فطرت ہے کہ دنیاصرف تخت وتاراج رہے اوراقوامِ عالم اس کے اشارۂ ابرو پر حرکت کریں۔یہ ہراس ملک میں مداخلت کرتاہے جوپرامن ہوں اورمعاملات خودسلجھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔اس کے چھوٹے چھوٹے بے حیثیت کارندے بھی آزادسرزمینوں کواپنے ناپاک قدموں سے روندتے پھرتے رہتے ہیں۔یہ امریکاہے جوہرملک میں اپنے ایجنٹوں کومقرر کرتا ہےاوراگرکوئی حکمران اس کی منشاءومرضی کے مطابق کام کرنے سے انکارکردے توپراسرارطریقے سے یاتواسے قتل کروادیتاہے یافضامیں اس کے طیارے کواس سمیت آگ اورشعلوں کی نذرکردیتاہے چاہے اس میں اس کے اپنے سرکاری اہلکارہی کیوں نہ ہوں۔اسی کانام اس نے”نیو ورلڈ آرڈر”رکھاہے جس کامطلب مشہوردانشوریہودی نوم چومسکی مطابق”ہوگاوہی جوہم چاہیں گے۔”

“نیوورلڈآرڈر”کی اس سے زیادہ خوبصورت تعریف اورکوئی ممکن ہی نہیں ہے یعنی”ہوگاوہی جوہم چاہیں گے۔”اقوامِ متحدہ کاادارہ جسے دنیامیں دوبڑی جنگوں کے بعداس تمناسے قائم کیاگیاتھاکہ اس کے ذریعے سے دنیامیں امن ومحبت کاراج ہوگا، وہ بھی آج امریکاکی چودھراہٹ کے باعث کٹھ پتلی بناہواہے۔اقوامِ متحدہ کادوسرانام آج”امریکا”کے سواکچھ اورنہیں ہے۔اس خطہ ارض پروہ کون ساملک ہے جس میں اس نے اپنے ہزاروں فوجی اوربمبارطیارے نہ اتارے ہوں اورپھربھی وہ وہاں سے کبھی کامیاب وفتح مندلوٹاہو؟ویت نام،ایران،افغانستان اورعراق،ہرجگہ ذلت و رسوائی اس کامقدررہی ہے۔

عالمی تھانیداری اس کی فطرت بن چکی ہے۔اس کے تحت نہ ماضی کے صدررولسن اورٹرومین اورنہ جدیددورکے نکسن، کلنٹن، بش اوراوباماکی منصوبہ بندی میں کوئی تغیرواقع ہواہے۔امریکی حکومتیں اپنی فطرت کے باعث بالآخراپنی قوم کوبھی تباہی کے اندھیرے غارمیں دھکیلنے جارہی ہیں۔اگریہ سوال کیاجائے کہ دنیاکاوہ واحدملک کون ساہے جس کی عمارتوں، تنصیبات اورعام افرادپردنیاکے ہرخطے،انڈونیشیا،چلی،لیبیا،سعودی عرب،مصر،پاکستان،عراق،افغانستان،لیبیااوردیگرافریقی ممالک وغیرہ میں خطرناک ترین تابڑتوڑحملے کئے جاتے ہوں توجواب ملے گا، امریکا۔ اگریہ سوال کیاجائے کہ وہ کون سا ملک ایسا ہے جوہرجگہ ذلت ورسوائی کے ساتھ بھاری جانی اورمالی نقصان کے ساتھ واپس لوٹتاہےتوپھربھی جواب ملے گا امریکا۔اگریہ سول کیاجائے کہ وہ کون ساملک ہے جس کی حکومتیں ہرآئے دن اپنے شہریوں کودنیاکے ہرخطے میں محتاط رہنے اورزیادہ نقل وحرکت نہ کرنے کی باربارہدایات جاری کرتی ہے تواس کاجواب بھی وہی آئے گاکہ امریکا!

امریکاسے اس وسیع وعالمگیرنفرت،دنیاکی قوموں میں امریکاسے آزادی حاصل کرنے کاولولہ،صہیونی قوتوں کی امریکاکے خلاف درپردہ سازشیں ، امریکاکابدترین اخلاقی زوال،ہرملک میں اس کی جنگ کرنے کی حرص، قومی معیشت کی اس بھیانک بربادی اوراصول وضوابط سے اس کی حددرجہ بیزاری بالآخرامریکاکوغرق کرکے چھوڑے گی۔دس پندرہ سال کے بعد ہماری نوجوان نسل کوپھروہ امریکانظرنہیں آئے گاجوآج تھانیدار،ظالم سامراج،عالمی دہشتگردہےاورجودنیاکے ہرخطے میں اپنی پٹھو حکومتیں بناکے رکھتاہے۔اس وقت نہ توامریکااس پوزیشن میں ہوگاکہ ایک فون کال پردھمکی دیکرپوری قوم کو غلام اور سارے ملک کو اپنی چراگاہ بنالے،نہ ہی این آراوکے تحت کوئی زرداری ایوانِ صدر میں امریکاکی چاکری کرتاہوا ملے گا۔ پندرہ سالوں کے بعدنہ صرف امریکاانشاءاللہ ایک کمزور،ٹوٹاپھوٹااور غربت کاماراہواملک نظرآئے گا۔اگلے چندبرس کے بعدلوگوں کو مارکیٹ میں امریکاکے بھی کٹے پھٹے نقشے فروخت ہوتے ہوئے اسی طرح نظرآئیں گے جیسے امریکا نے دنیابھرمیں پاکستان کے کٹے پھٹے نقشے جاری کئے تھے۔

امریکاکی شکست وریخت اب دیوارپرلکھی ہوئی نظرآرہی ہے۔میں یہ کوئی جذباتی گفتگو نہیں کررہابلکہ یہ صدائیں اب امریکی اورمغربی صحافی اور اسکالر خودبلندکررہے ہیں۔پال کینیڈی،نوم چومسکی، ڈیوڈ ہلکرز،سیموئل ہیمنگٹن،جے بکارنن اورفرید ذکریا(ایڈیٹرنیوزویک لندن)کاشمارایسی ہی شخصیات میں ہے۔امریکاکی فطرت کوسامنے رکھتے ہوئے یہ بات بالکل واضح نظرآرہی ہے کہ امریکانہ تومندرجہ بالااسکالروں کی آوازوں کو خاطر میں لا ئے گااورنہ ہی اپنے خلاف عالمی نفرتوں سے کوئی سبق سیکھے گااورنہ اپنی حد درجہ زوال پذیرمعیشت سے کوئی نصیحت حاصل کرے گا۔وہ توبس تباہی کے راستے پر اندھادھند بھاگتاچلا جا رہاہے۔اگرکل بھارت،روس اور برطانیہ ٹوٹ سکتے ہیں توآج عالمی سپرطاقت امریکاکیوں ٹوٹ نہیں سکتا۔

رہے نام میرے رب کاجس کے “کن”کہنے سے دنیا کاظہورہوااور”کن”کہنے سے دنیافناہوجائے گی!

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 315627 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.