کرپشن کرنے اور پکڑنے والے آمنے سامنے

کرپشن کرنے والے اور کرپشن پکڑنے والے ایک دوسرے کے خلاف مدمقابل ہیں۔دیکھتے ہیں کہ ملک عزیز میں ہوئے اِس کھیل کا کیا انجام ہوتا ہے۔اقتداربھی کیاچیزہے کہ آدمی سمجھتاہے کہ اب شایدمیں ہی سب کچھ ہوں دوسراکوئی نہیں ہے۔اقتدارکے نشے میں دھت ہوئے اُسے کچھ نظر نہیں آتا ہے۔وہ اپنی رعونت وتکبر میں ہرچیزکو انتہائی حقارت سے رُوندتاچلاجاتاہے اور پیچھے مُڑکرنہیں دیکھتا ہے کہ وہ کیاکر رہاہے۔کو ن سے فعل سرانجام دے رہاہے۔اقتدارپاکر ایک وقت اُس پر ایسا آتاہے کہ ملک وقوم کے خزانے پر اپنا حق سمجھتے اُسے ناحق کھانے لگتاہے۔لوٹ مار اور مارڈھار کی انتہاء کرتے خودبھی اِس خزانے پر بُری طرح پل پڑتاہے اوراپنے ساتھیوں کو بھی اِس میں سے برابرنوازتاہے۔خود اور اپنے ساتھیوں کو نوازے باہم شیروشکرہوئے سمجھتاہے کہ اب وہ اِس جنگل کابادشاہ ہے ۔کون ہے جو اُس کے خلاف پربھی مارے۔اُس کی طرف اُٹھتی نگاہوں سے دیکھے،وہ ایسے میں سمجھتاہے کہ ملک کا حکمران وہ ہے جیسے چاہے اِس کا خزانہ لوٹے،کھائے ،نوچے ،کوئی کون ہوتاہے اُسے پوچھنے والا۔وہ اقتدار واختیار پاکر کرپشن کی تمام حدوں کو پارکرجاتاہے اور وہ کچھ کرجاتاہے جو اُسے نہیں کرنا چاہیئے تھاوہ ملک وقوم کا خزانہ لوٹ لیتاہے اور خزانے کی تجوری خالی کردیتاہے بعدازاں اقتدارپربھی فائز رہتاہے اور ملک کا خزانہ خالی کے نام پر انٹرنیشنل اداروں اور آئی ایم ایف سے قرض لیتاہے اور ملک کااصل خزانہ انتہائی مہارت اور صفائی سے ہڑپ کیے قرض کی مد میں ادھار لیے پیسوں سے اپنی قوم کو بہلانے لگتاہے۔اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر ملک کو قرضوں کی دلدل میں بُر ی طرح دھنسا دیتاہے۔ملک وقو م کے ساتھ ساتھ اِس ملک کی آنے والی نسلوں کو بھی مقروض بنادیتاہے۔ملک کا سب کچھ ہوتے ہوئے اِس ارض وطن کی تقدیر اور سلامتی سے بھی کھیلنے لگتاہے۔غیروں پرکرم اور اپنوں پرستم ڈھانے لگتاہے۔آخر کیا ہوتاہے ۔مکافات عمل ہے کہ جو بیجوگے اُسے ہی کاٹنا پڑتاہے۔اپنے اعمالوں کے نتیجے میں اﷲ کی پکڑ میں آئے اقتدار واختیار سے محروم ہوجاتا ہے۔ساری عزت جاتی رہتی ہے۔ملک کو بیدردی سے لوٹنے کے جرم میں سزاپاتاہے۔وہ جواپنے وقت میں اپنے آپ کو زمین کا خدا سمجھتاتھا اپنی باتوں اور دعووں سے سمجھتاتھاکہ شاید سورج زمین پر اُس کی مرضی سے نکلتاہے۔وہ جو زمینی خدابنے اپنے آپ کو نجانے کیا کیا سمجھتاتھااپنی ’’میں‘‘اور اُس کے غرور کے ہاتھوں مارا کسی کام کانہ رہاتھااقتدارگیا،اختیار گیااور اب صحت بھی جواب دینے لگی تھی۔ خداایسی صورتحال سے کسی دشمن کوبھی دوچار نہ کرے جوعلاج علاج چلارہا اور عالم بے بسی میں منہ میں انگلی ڈال کر نجانے کیا سوچتا ہے۔اپنے دور حکومت میں مشرف اور بہت سی شخصیات کی بیماریوں پر سمیت اپنے چیلوں کے مذاق بنانے والے ٹولے کاسردار اب اپنی بیماری پر سب سے زیادہ ’’انوکھا لاڈلہ‘‘ بنے کبھی جیل ،کبھی ہسپتال ،کبھی گھر میں اپنے علاج اور فرار کے لیے بمع اہل وعیال ’’حال دیایاں‘‘ مچارہا ہے۔ چاہتاہے کہ اب علاج کے لئے بیرون ملک جائے۔حکومت نے اجازت تو دے دی مگر ساتھ ایڈیمنٹی بانڈ کی شرط لگادی جسے ماننے سے انکاری ہوئے چاہتا تھاکہ پاکستان کاسب لوٹ کر بھی خیرات میں بیرون ملک چلاجائے،دینا کچھ نہ پڑے،چمڑی جائے ڈمڑی نہ جائے کے ہمیشگی اصول پر قائم دائم ہوئے قریب المرگ ہوئے پڑے بھی خرابی صحت کے عالم میں بھی اُسے بس یہی فکر کھائے جارہی تھی کہ کہیں پیسہ نہ چلا جائے۔بعض چمچوں کڑچھوں نے بڑازور لگایااور کہاکہ نوازشریف کے علاج کے لیے ایڈیمنٹی بانڈ کی شرط زیادتی ہے۔ملک کے تین بار کے وزیراعظم کو جانے دیا جائے۔اِن کی بات بھی ٹھیک ہے اپنی جگہ مگر اُس پیسہ کاکیابنے گا جو قوم کی امانت تھااور انہوں نے لوٹ کھایا۔علاج کے لیے بیرون ملک جانابنتاتھا تو ملک کاکھایا پیسہ جاتے وقت واپس کرنے میں کیا مضائقہ تھاپھریہ کہ یہ لوگ کون سا ملک سے فرار چاہتے، چار ہفتوں کی ہی تو بات تھی،ایڈیمنٹی بانڈ دینے میں کیاہرج تھا ،بیرون ملک سے واپس آکر لے لیناتھا،حکومت نے کون سا اِن کی غیرموجودگی میں اُسے چاٹناتھا۔حکومت نوازشریف کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنا چاہتی تھی مگر کیا کرے ڈرتی تھی کہ کہیں یہ باہرجاکر واپس نہ آئے تو کیابنے گا،اِس لیے ایڈیمنٹی باند مانگ رہی تھی۔جب آدمی اعتبار ویقین کھودیتاہے تو پھر اُس کے ساتھ ایسا ہی ہوتاہے اور پھرعالم بھی یہ ہے کہ شریف فیملی کاجوبھی فرد باہرگیا، واپس نہیں آیاتوحکومت کیسے یقین کرلے کہ یہ بھگوڑوں کے سردار بھی جاکر واپس آئیں گے۔جن کی اولادیں بھی باہر،کاروبار بھی باہر ،جائیدادیں بھی باہر ۔نواز شریف فیملی سے ایڈیمنٹی بانڈ مانگنے کی اصل وجہ بھی حکومت کا اِن سے اُڑتا ہوااعتمادویقین تھاحکومت چاہتی تھی کہ اِن سے اتنی رقم لے لی جائے جتنا جرمانہ بنتا،یہ آئیں یانہ آئیں بعد میں دیکھاجائے گا،حکومت کا اصل مقصد اِن سے قوم کی لوٹی ہوئی دولت وصول کرناتھااور کوئی نہیں تھاوگرنہ ملک وقوم نے اِن کو حالت بیماری میں وطن عزیز میں رکھ کر کون سا اِن کا اچار ڈالنایا اِن کی سجی تیار کرنے تھی ،حکومت چاہتی تھی کہ یہ قوم کاپیسہ
جاتے ہوئے واپس کرتے جائیں،اِن کو بغیر شرط چھوڑنا بے اعتباروں پر اعتبار کرنے والی بات ہے۔جس کی حکومت ہرگز متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔مجھے حیرت ہے ن لیگ ٹولے پر کہ بجائے اِس کے کہ نوازشریف کوعلاج کے لیے فوری لندن لے جاتی ،اُن کے علاج کے لیے ایڈیمنٹی بانڈمسئلے کو انا کا مسئلہ بنائے ہوئے اپنے قائد کی جان سے کھیل رہی ہے۔کیا شریف فیملی کو پیسہ نوازشریف کی جان سے زیادہ عزیزہے جو سیکیورٹی بانڈ نہیں دے رہی تھی یا معاملہ کوئی اور تھا۔کہیں نوازشریف طویل عرصے کے لیے لندن سے واپس نہ آنے کے لیے تو نہیں جارہے جو ایڈیمنٹی بانڈ دینے میں اتنی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے تھے کہ معاملہ عدالت تک لے گئے۔جہاں تک کچھ صحافی وسیاسی شخصیات کی بات ہے جو کہہ رہے تھے کہ نوازشریف کو بغیر شرط جانے دیا جائے تو اُن لوگوں کی بات کوئی ٹھیک بات نہ تھی ۔اُن میں کچھ صحافی لوگ وہ ہیں جو بدلتے حالات وموسم اوربدلتی حکمرانیوں میں اپنے مفادات کے لیے اپنے سوچ وچار کے دھارے آناًفاناًبدل لیتے ہیں اور کچھ سیاسی لوگ وہ ہیں جن کی ساری سیاست ہی ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں چھلانگ لگانے میں ہی گزرگئی،ایک جگہ سے دوسری جگہ مقام بنانے میں لگے ہوئے ہیں تاکہ بدلتے حالات میں آسانی سے اُس میں ایڈجسٹ ہوسکیں،جو خود کو کھلاڑی اور دوسروں کو اناڑی سمجھتے ہیں ۔اگر ایسے لوگوں کی سمجھ کا گراف مسلسل یہی رہاتو بہت جلد سب کچھ سے جاتے ہوئے بہت زیادہ ہولے ہوجائے گے۔ ایسے لوگوں کی رائے کی کیا اہمیت ،باتوں میں کہاں کادم،بن بلائے ہی اوروں کے مسئلے میں پڑے خوامخواہ کی فضول میں پھلجڑیاں چھوڑے ہوئے ہیں فقط اپنے مفادات کے لیے ،وزیراعظم عمران خان کا ایک بھی بھلا نہ کیے ہوئے ،عمران خان کے اصل ساتھی وہی ہیں جو اُن کے ساتھ بائیس سال سے اٹیچ ہوئے چلے آرہے ہیں۔comitted ، ٹھیک اورکھری بات کرنے والے،جن میں فواد چوہدری سب سے نمایاں ہیں۔باقی سب وقت کی مجبوری ،حالات سے سمجھوتہ اور موجودہ حالات میں ایک سراب ہی سراب ہے کب دھوکا دے جائے ،کچھ پتا نہیں ،ایسے فصلی بٹیرے جو آج کل بڑے ہی خوبصورت بھاشن دے رہے ہیں کچھ حکومتی وزراء کو اناڑی قراردیتے ہوئے وزیر اعظم کو سمجھانے پر لگے ہوئے ہیں۔ جب چُوگا پوراچگ لیتے ہیں توپھر کسی اور جگہ اُڑنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے ہیں۔ایک جگہ سے دوسری جگہ ایڈجسٹ ہونے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ملکی سیاست کے ساتھ ساتھ سیاسی حرکیات سے واقف یہ لوگ بڑے کمال کے ہوتے ہیں۔ہر ایک سے الگ بھی ہوتے ہیں اور جڑے بھی پائے جاتے ہیں۔مفادات ایسے لوگوں کا اُوڑھنا بچھونا ہوتا،جہاں تھوڑی سی بھی جگہ ملے ،پوراجسم پھیلالیتے ہیں۔کمال کی حدوں کو چھوتی ’’اداکاری‘‘کے ساتھ تمام تر اختلافات کے باوجود ذاتی فائدے اور اقتدار کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹ ہوجاتے ہیں۔ایسے لوگوں کی ناراضگی بھی کمال کی ہوتی ہے اکثر وزارتیں کم ملنے پر خفاء سے ہوجاتے ہیں اور اچانک وزارت مل جانے پر ہم ساتھ ساتھ ہوجاتے ہیں۔بے اعتباروں سے بھی زیادہ بے اعتبار ہوتے ہیں ایسے لوگ۔اپنا آپ دکھانے اور منوانے کے لیے اکثر جھوٹ ولغو باتوں سے کام لیتے ہیں۔جس کام کو صحیح طریقے سے انجام بھی نہیں دیاہوتااُس کابھی کریڈٹ لینے لگتے ہیں۔جیسے سمجھتے ہیں کہ عوام تو بے وقوف ہے سمجھتے ہی نہیں ہیں۔منہ پر رام رام ،بغل میں چھری کاکردار اداکرتے ہیں۔ایسے لوگوں کاکردار ہر حکومت میں ہوتاہے اور یہ حکومتوں کی مجبوری ہوتی ہے۔ایسے لوگوں کے ساتھ چلنا یا اِن کو اپنے ساتھ لے کرچلانا،ملک و حکومت کو ایسے لوگ بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں جو سڑکوں پر خوب اُدھم مچاتے ہیں ۔صرف اور صرف اپنے لیے وزارت مانگتے ہیں۔بات ہورہی تھی نوازشریف کی تو بات یہ ہے کہ نوازشریف علاج کے لیے لندن جاسکتے تھے کوئی رکاوٹ مانع نہ تھی۔ جہاں تک رہی بات ایڈیمنٹی بانڈ دینے کی شرط کی تو یہ زنجیریں اور بیڑیاں بھی تو نوازشریف کی اپنی ہی ڈالی ہوئی ہیں۔سیاسی انتقام کے روح رواں بھی تو وہی تھے۔یہ مخالفین کومختلف کیسوں میں دبانا بھی تو انہی کے ’’اعلیٰ ظرف‘‘ذہن کی پیداوار تھا۔یہ پانامہ عمران خان تو نہیں لائے تھے وہ الگ بات ہے کہ اِسے انجام تک پہنچانے کا سہرہ عمران خان کوجاتاہے۔ نوازشریف نے جو گھڑا دوسروں کے لیے کھودا ،سب سے پہلے اُس میں خود ہی گرگئے ،گرہی نہیں گئے پوری طرح نہاگئے،یہ اور کچھ نہیں ،مکافات عمل ہے آج جو بیجوگے ،کل اُسے ہی کاٹنا ہے اور یہ کہ اپنے آپ کو ’’امیرالمومنین ‘‘اور’’ زمین کے خدا‘‘ کہلوانے والوں کا انجام ایساہی ہوتاہے۔ رعونت وتکبر کے ساتھ رعایا کو اپنے پیروں اور گاڑیوں کے ٹائروں تلے روندے اور نجانے پس پردہ کیاکیا۔۔۔۔والوں کا حشر خداایسا ہی کرتاہے۔جوسب پر مہربان ہے ۔وہ ظالموں سے رعائت نہیں کرتا،اُن کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے مگر وہ شعور نہیں رکھتے۔اوریہ جولوگ فرمارہے ہیں کہ تکبر اور عزیمیت آمنے سامنے ۔ایسے افراد سے صرف یہی کہناہے کہ اپنا قبلہ وکعبہ بندوں کی بجائے اﷲ کے گھر کو سمجھو ،وہ بہتر سمجھتاہے کہ کس کے ساتھ کس لمحات میں کیا سلوک روارکھناہے اور یہ کہ نافرمانیوں سے اٹے ہوئے حالات میں کون جابر حاکم بناکراِن بے ایمان وکرپٹ ٹولے پر مسلط کرنا ۔اگر خدا عرب کے کرپٹ اور بے شمار قبیح معاملات سے بری طرح لتھڑے ہوئے حکمران سے خانہ کعبہ مدینہ منورہ ودیگر مقدس مقامات میں دین کا کام لے سکتاہے تو وزیراعظم عمران میں کون سی کمی ہے کہ وہ پاکستان کی بہتری واستحکام کے لیے عمران خان سے کام نہ لے سکے،اِس سے بڑا اور کیاکام ہوسکتاہے کہ ملک کے کرپٹ وبے ایمان اپنی’’ کرپشن کہانی‘‘میں پھنسے اب اپنی جان کو لالے پڑنے والی صورتحال میں بیماری کا اراگ الاپ کر بغرض علاج کی آڑ ملک سے بھاگنا چاہتے ہیں۔جنہیں حکومت کے بعد معزز عدلیہ نے قانون کی پاسداری کاسبق پڑھاکراور یاد دلاکربغیر ایڈیمنٹی بانڈ کی شرط ای سی ایل سے نام نکالنے کا حکم دیتے ہوئے علاج کے لیے لندن جانے کی اجازت دے دی ہے وہ جو اپنی بڑی بڑی باتوں اور دعووں سے یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ’’یہ کردیں گے وہ کردیں گے‘‘آج زمانے میں نمونہ عبرت بنے حال بے حال ہوئے پڑے علاج کی دہائیاں ہائے مرے جارہے دیتے ویل چیئروں،سٹیچروں پر ہسپتالوں کی راہداریوں میں رواں دواں ہیں۔ملک کے کبھی سیاہ وسفید کے مالک اِن افراد کی حالت دیکھنے اورعبرت حاصل کرنے والی،خدا کسی کوبھی ایسی حالت میں نہ پہنچائے،جیسی حالت میں یہ ہیں۔لاچارگی اور کسمپرسی کی سی حالت سے دوچار ہیں۔نجانے وہ کون سے گناہ تھے ،جس کی پاداش میں آج اِس حال تک جاپہنچے ہیں۔

ایسے لوگوں کے ساتھ آج کل صرف ’’ووٹ کوعزت دو‘‘ہی ساتھ ہے اور کوئی نہیں،اپنے محسنوں پرہی چھری چلادینے والے یہ لوگ ایک ایسے وقت میں پڑے ہوئے ہیں کہ بہت تدبیرکی نہ دواکام آرہی ہے اور نہ دعا،یہ جو اِس وقت نوازشریف کے علاج کے لیے باہر جانے کوجس طرح سے ایڈیمنٹی بانڈ سے مشروط کیا جارہاتھا اِس کی وجہ عمران خان کا تکبر نہیں ،اِن کے واپس نہ آنے کا خدشہ تھا ۔جولوگ کہتے ہیں کہ عمران خان تکبرمیں ہیں ایسے لوگوں سے کہناہے کہ جہاں عمران خان تکبر والے آدمی نہیں ہیں وہیں نوازشریف ’’صاحب عزیمیت‘‘شخص بھی نہیں ہیں۔جن کا خیال ہے کہ نوازشریف نے مشروط علاج سے انکار کردیاتھا ایسے لوگوں سے کہناہے کہ نوازشریف نے بغرض علاج لندن جانے سے انکار نہیں کیاتھا بلکہ ایڈیمنٹی بانڈ دینے سے انکار کیاتھا ،وجہ اُن کی عزیمیت نہیں، ذہن میں موجود فتور تھا،جسے بچہ بچہ جانتاہے کہ کیا ہے۔ بتانے کی ضرورت نہیں،حکومت سے لے کر ہر شہری تک جانتاہے ۔نہیں جانتے تو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نہیں جانتے یا مانتے وگرنہ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو ساراہی جانے ہوکہ شریف فیملی کے ایڈیمنٹی بانڈ نہ دینے کے پیچھے کیا رازچھپا ہوا ہے۔میں عمران خان کا ساتھی نہیں ہوں اور نہ ہی تحریک انصاف سے تعلق رکھتا ہوں مگر اِن کے مقابلے میں عمران خان پر تنقید کرنے والوں اور نوزا شریف کو ’’صاحب عزیمیت‘‘کہنے والوں سے اختلاف رکھتا ہوں اور عمران خان کو ملک وقوم کی بہتری کے حوالے سے ایک امید کے طور پر دیکھتاہوں ۔ورنہ نوازشریف احمدبن حنبل ہیں اور نہ عمران خان معتصم با اﷲ۔

 

A R Tariq
About the Author: A R Tariq Read More Articles by A R Tariq: 65 Articles with 47423 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.