پیدائشی رئیس کو جب ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘کا دھبہ لگایا گیا،
جب عالم ِ دین کو ’’ڈیزل کے پرمٹ‘‘ کے ساتھ جوڑدیا گیا اور جب محب وطن نواز
شریف کو دولت غیر قانونی طریقہ سے باہر لے جانے والا کہہ کر ڈھنڈورچی تھک
چکے تو ’’ریاست ِ مدینہ‘‘والے آگے لائے گئے۔ یارو 70 سالوں سے جس وطن ِ
عزیز کو کھایا جارہا تھا۔ وہ ایک سال میں نہ کھانے والوں نے صومالیہ سے بھی
بدتر بنایا جارہا ہے۔ قوم یوتھیہ ہے کہ ابھی تک اپنا تھوکا چاٹنے سے رَجی
نہیں۔ میرا حرف حرف محترم سابق صدر اور پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کیلئے ہے مگر تمہید میں اِس
مسلمان حکومت کی جانب سے تخنہ مشق بنائے جانے والے نوازشریف اور ہر چوک
چوراہے میں سوسالہ پرانی جماعت جمعیت علماء اسلام کے امیر کی تضحیک کا ذکر
بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ اِس ملک میں باہم دست و گریبان ہونے کی روایت ختم
کرانے اور پاکستان کی خوشحالی کیلئے مفاہمتی سیاست کے امین محترم آصف علی
زرداری جو ماضی میں کم و بیش 11 سال کی قید کاٹ چکے ہیں۔دوران اسیری ان کی
زبان مبارک کاٹ دینے کی بھی ناکام کوشش کی گئی تھی مگر محفوظ رہے۔ آج بھی
وہ سابق صدرِ مملکت ہونے کے باوجود جیل میں ہیں وہ بیمار ہیں ناکردہ گناہوں
کی سزا بھگت رہے ہیں۔ الزام کی سیاست اَزل سے جاری ہے۔جنرل (ر) پرویز مشرف
کو آزادی ہے مگر وطن کا رونا رونے والے اندر ہیں۔ دوہرا معیار ہے کہ خت
ہونے کو نہیں آرہا۔اِن کے بچے انہیں جیلوں میں دیکھ دیکھ کر جوان ہوچکے ہیں۔
یہاں نہ بیٹی کو دیکھا جاتا ہے نہ داماد کو۔۔۔ بس جو بھی اپوزیشن میں ہے وہ
چور ہے، غدار ہے۔ سب کیے کا وہی ذمہ دار ہے۔ آصف زرداری کی مفاہمتی سیاست
کو جہاں ملک بھر میں نیک شگون قرار دیا گیا تھا وہاں عالمی سطح پر بھی اِس
طرزِ سیاست کو پذیرائی ملی اور اِسی پذیرائی کی بدولت چین کی بھاری سرمایہ
کاری ہوئی اور سی پیک زبان زدِ عام ہوا۔ آج بغلیں بجانے والے کل تو سخت
مخالف تھے۔اِس سرمایہ کاری کے انہوں نے تو اُس وقت چینی صدر کے دورے تک کو
سبوتاژ کردیا تھا۔ آج پیڑ لگانے والے کو چور قرار دے کر خود پھل کھانے کو
منہ للچائے بیٹھے ہیں۔ میں ہزارہ موٹروے کا افتتاح کرنے والوں کی زبان سے
نوازشریف کا نام سننے کو بے تاب ہوں مگر ایسا ہوگا نہیں۔ یہاں اخلاقی خیرات
ناپید ہوچکی ہے۔ یہاں ہر کوئی ثمر مبارک بن کر دوسروں کی کردار کشی پر تلا
ہوا ہے۔ کیا ہی بھلا ہو کہ وزیراعظم عمران خان ہزارہ موٹر وے کے افتتاح پر
سابق حکومت کے اِس سنہرے اقدام کی تعریف کردیں یقین جانیں اِسے یوٹرن کی
بجائے مثبت اقدام کہا جائے گا۔ حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا اور نہ
اُنگلی سے سورج کو چھپایا جاسکتا ہے۔ ایک ہی قوت ہے جو چاہتی ہے کہ باقی
کوئی قوت سے نہ رہے۔ نیب سے لے کر حکومتی ایوانوں تک بس حزب مخالف کو تُن
کے رکھ دینے کیلئے جاسوسی کہانیاں گھڑنے والے سامنے لائے جاتے ہیں۔ ان کے
اپنے ایف بی آر والے اقرار کرچکے کہ رقم باہر غیر قانونی طریقہ سے نہیں
گئی۔اربوں ڈالر باہر بھیجنے کی کہانیاں ، افسانے ثابت ہوچکے مگر اربابِ
اقتدار بضد ہیں کہ یہی الزاماتی چلن روا رہے۔ خدارا یہ چلن بدل لیجئے ساری
قیادت جیلوں میں ڈال کر بھی آپ آئی ایم ایف کے پاس گئے، ساری قیادت کو چور
چور کہہ کر آپ قرض لینے والوں میں سر فہرست ہوگئے۔ مہنگائی آپ سے کنٹرول
نہیں ہو رہی، سارے اعلانات جھوٹ نکلے ہیں۔ آپ اپنا تھوکا چاٹ چاٹ کر ہلکان
ہوئے جارہے ہیں۔ محترمہ آصفہ بھٹو زرداری نے جرأت مندانہ انداز سے کہہ دیا
ہے کہ ہم حکومت وقت سے کوئی درخواست نہیں کریں گے اور مردِ حُر آصف زرداری
کہہ چکے ہیں کہ الزام ثابت کرو یا معافی مانگو، ضمانت کیلئے کوئی درخواست
نہیں دی جائے گی۔ ایسے بہادر قیدی کو آپ اور کتنا قید میں رکھیں گے۔ یاد
رکھیں الزام جب تک ثابت نہ ہو کسی کو بھی قید میں نہ ڈالا جائے۔ عدالتی
فیصلوں سے کئی بے گناہ قیدی رہائی پا چکے ہیں مگر ان کے برسوں جیل میں گزرے
لٹائے نہیں جا سکے۔ زرداری پاکستان کے سابق صدر اور سب سے بڑی جماعت کے
سربراہ ہیں۔اِن کی بہن فریال تالپور کی قید بھی انہیں جھکا نہیں سکی۔ بہنوں
کی عزت ہر معاشرے میں ہے اور یہاں بہنوں کو بھائیوں کو جھکانے کیلئے جیلوں
میں ڈالنے کی روایت بھیانک نتائج دے گی۔ حکومتِ وقت دوسروں کو دیوار سے
لگاتے لگاتے خود دیوار سے لگ چکی ہے اور ماں یہ بات بتاتا چلوں کہ وقت
بتائے گااور زمانہ کہے گا کہ اکبر ایس بابر ’’تینوں ربّ دیاں رکھاں‘‘زرداری
کی استقامت، حوصلہ اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ اِن الزامات سے چھٹکارا
چاہتے ہیں اب انہیں ریلیف کی بجائے باعزت بری کا سرٹیفکیٹ چاہیے جو کسی نہ
کسی طور ارباب بے اختیار کو دینا ہی پڑے گا۔ مفاہمت کے امین آصف زرداری کا
یہی قصور ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالف جماعت کے شریک چیئرمین،شہید بھٹو کے
داماد،دختر مشرق شہید بی بی کے شوہر نامدار ہیں اور کسی بھی وقت اینٹ سے
اینٹ بجا دینے والے ہیں۔ایمپائر کی انگلی کا مزہ لے لیا گیا ہو تو مفاہمت
کی جانب آ جائیے یہی بہتر راستہ ہے۔
|