ہاں ہاں ابھی بچگانہ ذہن تھا ۔گھر والوں کا پیٹ پالنے
کےلیے محنت مزدوری کا فکر بھی نہ تھا، اباّ جی صاحب کاروبار تھے۔
گھریلوضروریات کو پورا کرنے کے لیے رات دیر تک دوکان پر کام کرتے تھے۔مزید
یہ کہ والدین پڑھے لکھے نہیں ہیں، سوچتے چلواولاد ہی پڑھ لکھ جائے۔ بس اسی
لیےان کی طرف سےپنجابی میں صرف ایک ہی بات سننے کواکثر ملتی تھی۔"پُتر پڑھ
لویں گا تے ایش کریں گا،کل نُوں وڈّا افسر لگ جائیں گا،ہتھ پیر وی کالے نئی
ہون گے، لوک کہن گے ویکھیا ای فلانے دا منڈّا پڑھ گیا اے تے اج ایش پیا
کردا اےـ"۔کھانے اور پہننے کےلیے عموماً ہر فرمائش پوری ہو جاتی اور کچھ
چیزیںرو کر ابھی حاصل کر لی جاتی تھیں۔ روز مرّہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے
حوالے سے کچھ خاص علم نہ تھا۔ظاہر ہے ہر چیز پکی پکائی مل جاتی تھی ۔اسی
معصومانہ عمر کی بات ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے جب حکومتی اقتدار
سنبھالا توابّا جی کے ہمراہ اس فوجی لیڈر کا قوم سے خطاب سننے قریبی ہوٹل
میں گیا کیونکہ گھر میں ٹی وی نہ تھا اور ذہن میں بس خوشی سے لبریز ایک ہی
خیال تھا کہ اب پولیس کی بجائے جگہ جگہ فوجی کھڑے ہوں گے۔
یقیناًنظام قدرت کے سانچے میں ڈھلا ہوں ۔جیسے جیسے بڑا ہو تا گیاگھر کے
ماحول ، سکول کے سلیبس میںلگائی گئیں کتابوں اور اساتذہ کے کہے جانے والے
خوبصورت جملوں سے زندگی کے اتارچڑھاؤ سے کچھ واقفیت ہونے لگی ۔ابّا جی کی
انتھک محنت کا احساس ہونے لگا ،سکول کےلیے جاتا تو ویگن یا بس میںسوار لوگ
دہشت گردی سے روزانہ کی بنیاد پر گرتے لاشے، مہنگائی ، ناانصافی یعنی غریب
اور امیر کےلیے قانونی امتیاز ، پی سی او ججز کی تعیناتی ،غربت جیسے دیگر
معاشرتی مسائل کا روناروتے نظر آتےاورحکومت مخالف نعرے بلند کرتے مختصریہ
کہ لوگوں کی آہ وبکا کی آوازیں کانوں تک رسائی حاصل کرنے لگیں ۔بہرحال
سوچنے پر مجبور ہوا کہ شاید یہ سارے مسائل او ریہ ظلم کی گھٹا اس لیےچھائی
ہوئی ہے کہ اقتداراعلٰی کی کرسی پر وہ شخصیت ہے جس کا عوام نے انتخابات کے
وقت چناؤ نہیں کیا بلکہ اس نے جمہوریت پر شب خون ماراہے۔
یہ معاملہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ رو پذیر نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل
بھی کئی دفعہ جمہوریت کو آڑے ہاتھ لیا گیا ہے اور جمہوریت پسند اس فعل کے
خلاف سراپا احتجاج ہوئے ہیں ۔ شاعر کے الفاظ میں
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب جنرل ضیا الحق مارشل لاء لگا کر حکومت پر قابض
ہوچکے تھے ۔اس وقت مرکزی جمعیت اہلحدیث کے رہنماء علامہ احسان الہی ظہیر
رحمتہ اللہ علیہ نے فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میںسیاسی جلسہ کیاجس
میں جمعیت علمائےا سلام (ف)کے سربراہ فضل الرحمن بھی شامل تھے۔ علامہ احسان
الہی ظہیررحمتہ اللہ علیہ نے اس موقع پر کہا کہ آج اس اسٹیج پر دو مولوی
موجود ہیں اور یہ مولوی دو موقعوں پر ہی آتے ہیں ۔مولانا فضل الرحمان
جہوریت کے بچے کے کان میں آذان دینے کےلیے اور میں ضیاالحق کی آمریت کا
جنازہ پڑھانے کےلیے آیا ہوں۔ بہرکیف پرویز مشرف کےآمرانہ دور میں بھی
مایوسی کے عالم میں عوام اس امید کے ساتھ ہمہ وقت وابستہ رہتے کہ ایک دن یہ
صاحب اقتدار صدارت کی کرسی سے دست بردار ہوجائیں گے اور ان کی پسند کا حاکم
دوبارہ مل جائے گا۔چونکہ نظام قدرت ہے کہ دنیا تغیّرات کا نام ہے ۔ ہر دن
کے بعدرات اور ہر رات کے بعد دن ضرور آتاہے۔بس پھر اسی اصول کے تحت پرویز
مشرف 2008کو اپنی نشست سے مستعفی ہوگئےاور جمہوریت غالب آنے کی امیدیں
قائم ہونے لگیں۔
جنرل ریٹائرڈ پر ویز مشرف کے استعفی کے بعد 2008 اور 2013میں پھر عوام کو
الیکشن کے ذریعے اپنی رائے کے اظہار کا حق ملا۔جس میں متعد د جماعتوں نے
اپنی شمولیت کو یقینی بنایا ۔ہر کسی نے بھرپور طریقے سے سوشل میڈیا،
الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر کمپین چلائی ۔کسی نے روٹی ، کپڑا اور
مکان دینے کا نعرہ لگایاتو کسی نے طرح طرح کے سبز باغ دکھائے ۔مگر عوام
بیچارے انھی ادوار میں نڈھال دکھائی دئیے۔ چو ر چوری کرتے رہے، قتل و غارت
گری جیسی واردات سے اخبارات بھرتے رہے، غریب غربت کے ہاتھوںمرتے رہےمگر
مہنگائی روز بروز پروان چڑھتی رہی۔کسی کے پاس سر چھپانے کے لیے چھت نہیں تو
کسی کے پاس علاج کےلیے پیسہ ۔انصاف مہنگے سے مہنگا ہوتا چلا گیا ہائے ہائے
اتنا مہنگا کہ غریب کی پہنچ سےویسے ہی دو ر کر دیا گیا نتیجتاً غریب ایڑیاں
رگڑتے رگڑتے دنیا فانی سے کوچ کرگیا۔بجلی کی لوڈشیڈنگ سے سے فیکڑیاں بند
اورمزدور بیروزگار ہوئے مگر بھاری ٹیکسوں کے ساتھ بجلی کے جان لیوا بل وصول
ہوتے رہے۔ سچی بات ہے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھا وزیراعظم ، صدارت کے
عہدے پر جلوہ افروز صدر ، قومی و صوبائی اسمبلی میں بیٹھے وزرا ء اور مشیر
بڑی بڑی گاڑیوں اور لمبے چوڑے پروٹوکول کے ساتھ عیش و عشرت کی زندگی بسر
کرتے رہے۔شاعر کے الفاظ میں
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو
حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا
ماضی قریب میںایک دفعہ پھر یعنی 2018 میں عوام کوجمہوریت کالولی پوپ دے کر
اعتماد میں لیا گیا۔مگر ا س دفعہ سابقہ حکومتوں میں سے کوئی خاطر خواہ
اکثریت حاصل نہ کرسکا۔بہرحال میدان مارنے میں پاکستان تحریک انصاف کامیاب
ہوئی ۔جس نے پچھلی حکومتوں پر بھرپور تنقید کی تھی۔مہنگائی ،بیروزگاری کے
خاتمے ،سستے انصاف کی فراہمی،صحت اور تعلیم جیسے دیگربنیادی معاملات زندگی
کے حوالےسے بلند و بالا دعوے کیے تھے۔ہاں ہاں کہیں بھول نہ جاؤ ایک کروڑ
نوکری اور بے گھر افراد کے لیے 50لاکھ گھروں کاوعدہ بھی کیا گیا(اللہ کرے
یہ سب کچھ ہوجائے)۔
اقتدار میں آئے تواپنی ہی کی گئی اکثر باتوں سے انحراف کی بناپر لفظ یوٹرن
سوشل میڈیا اور ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر مشہور ہوچکا ہے،شاید ہوسکتا ہے کہ
عمل درآمد کا جن بوتل سے باہر نکل آئےاور عوام کی سُنی جائے۔حکومتی وزیر
نے ایک کروڑ نوکری سے تویہ کہہ کر صاف صاف انکار کر دیاکہ حکومت کا کام
نوکری دینا نہیںبلکہ ماحول بنا نا ہے،مختصر یہ کہ مہنگائی آسمان کی
بلندیوں کو چھونے لگی ہے، بیروزگاری میں بھرپورآضافہ ہواہے، ادوایات کی
قیمتوں میں کئی گُنا آضافہ دیکھنے کو ملاہے،تھانہ کلچر غریب کےلیے سانپ کے
روپ میںدکھنےلگاہے،ڈالرکی قیمت کہ اللہ کی پناہ۔تھر پارکر میں بسنے والے
لوگ آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔حال ہی میں ٹماٹر وں کا ذکر زیر
بحث ہے جس کی قیمت لگ بھگ 300روپے کلو تک جا پہنچی ہےمگرایک حکومتی نمائندے
نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ مارکیٹ میں 17 روپے فی کلو ٹماٹر فروخت ہورہاہے
۔افسوس بننے والی ریاست مدینہ میں عوام سے مذاق کھیلا جارہا ہے یا صاحب
اقتدارعوامی مسائل سے مکمل طور پر ناآشنا ہیں۔ ان حالات کے باعث طرح طرح
کے سوالات جنم لیتے ہیںاگر وعدوں پر پورانہیں کرنا ہوتا تو اقتدار سےپہلے
بڑے بڑے وعدے کیوں کیے جاتے ہیں؟ ۔ عوام کے ٹیکس کا پیسہ کس جگہ خرچ ہورہا
ہے،جبکہ حکمران امیر سے امیر مگر عوام غریب سے غریب ہوتے جارہے ہیں؟۔کسی نے
حکومتی ایوانوں میں بیٹھنے والوں پر طنز کرتے ہوئے خوب کہا ہے۔
کھانے کا ادب سے کوئی تعلق نہیں ہے
مگر لوگوں کو کھانے کا ادب آنا چاہیے
پاکستان میں کھانے کا اد ب صرف سربراہوں کو، وزیروں کو آتاہے
وہ خاموشی سے کھاتےہیں، کیا کھایا ؟ یہ لوگوں کو اخباروں کے زریعے معلوم
ہوتا ہے
سچی بات ہے آمریت کوکیا رونا ہے یہاں توجمہوریت بھی عوام دشمن ہے۔حالات
بہتر ہوسکتے ہیںاگر انسانی ہمدردی رکھنے والے لوگ بر سر اقتدار آجائیں۔
شاہ معین الدین احمد ندوی نے اپنی کتاب تاریخ اسلام حصہ دوم کے صٖفحہ 517
پر لکھا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ اپنی خلافت کی ذمہ
داریوں اور امت کے حقوق کے خوف سے لرزہ براندم رہتے تھے۔ایک مرتبہ آپ کی
بیوی نے آپ کے شبینہ مشغلہ کو دیکھ کر اس کا سبب پوچھا۔آپ نے ٹالا مگر
انھوں نے اصرار کیا کہ میں اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہتی ہوں۔اس وقت آپ نے
فرمایا کہ جب میں نےاپنے بارے میںغور کیا تو معلوم ہوا کہ میں اس امت کے
چھوٹے بڑے ، سیاہ و سپیدجملہ امور کا ذمہ دار ہوں۔اس لیے جب میں بے کس ،
غریب، محتاج،فقیر ، گم شدہ اور اپنے قبیل کے دوسرے آدمیوںکو یاد کرتا
ہوں،جو سارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیںاور جن کی ذمہ داری مجھ پر ہےاوراللہ
تعالٰی ان کے بارے میں مجھ سے سوال کرے گااور رسول اللہﷺ اس کے مدعی ہوں
گے۔ایسی حالت میں اگر میں اللہ کے ہاں کوئی عذر اور دلیل پیش نہ کرسکا تو
مجھ پر خوف طاری ہوجاتا ہے اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتےہیں۔
جتنا میں ان چیزوں کو یاد کرتا ہوںاتنا ہی میرا دل خوفزدہ ہوتاہے۔مزید یہ
کہ اسی کتاب میں لکھا ہےجب لوگ آپ کے گریہ وبکا کے متعلق کچھ کہتےتو آپ
فرماتےکہ تم لوگ رونے پر مجھے ملامت نہ کروکیونکہ اگر فرات کے کنارےبکری کا
ایک بچہ بھی ہلاک ہو جائےتو ا س کے بدلے میں عمر پکڑا جائے گا۔
|