وارثانِ قلم وقرطاس

کاش امریکاکاشہنشاہِ عالی مقام جان پاتاکہ ہم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں صرف اپنی زمین،اپنی فضائیں اوراپنے پانی ہی نذرنہیں کئے،ہماری وفاکشی واطاعت گزاری کااصل پہلویہ ہے کہ ہمارے نومولود فقیہ،اہل قلم اورارباب دانش نے بھی اپنا سب کچھ ہدیہ جاناں کردیاہے اورامریکی مہم کے بے ننگ ونام خاکے میں ایسے ایسے دلائل کی میناکاری کررہے ہیں کہ خود دانش بھی انگشت بدنداں ہے اورقلم کی آنکھیں بھی اپنی کم نصیبی پر اشکبار ہیں کہ ہمارے مقدرمیں کیسے ہاتھوں کی چاکری لکھ دی گئی ہے۔وہ کہ جن کے ذہنوں میں سرِشام کنکھورے رینگنے لگتے ہیں،جن کے افکارمیں رات بھرچمگادڑیں پھڑ پھڑاتی رہتی ہیں،جن کے دلوں میں چھچھوندروں نے گھربنارکھے ہیں اورجن کی روح میں مکڑیوں نے جالے تان رکھے ہیں ، وہ بھی سحر دم مروان صفاکی طرح سفیلہ ارشادپربیٹھ کروعظ وتلقین کی پوٹلیاں کھول لیتے ہیں ۔

برسوں بعدایک ایسے ہی افلاطونی قلمکارکے قلم اورسیاسی فقیہ نے تازہ ابکائی کی ہے کہ”کروسیڈ”کے وہ معنی نہیں جو پاکستان کے احمق لوگ نے سمجھا ۔ کاش!قصرسفید سے رخصت ہونے والے فرعون جارج بش کوخبرہوتی کہ ان کے جانے کے بعد پاکستان میں انگریزی ادب کےکیسےکیسے ماہر،شارح اورمفسرآن پہنچے ہیں۔اگروہ ان سے رجوع کرلیتاتواسے”کروسیڈ”کا لفظ واپس لینے کی ضرورت پیش نہ آتی اوروہ اپنے ہونٹوں پر مخصوص رعونت آمیزمسکراہٹ سجاتے ہوئے کہہ دیتا کہ”کم سمجھ لوگو!تمہیں کروسیڈکامطلب ہی نہیں آتا۔”اسی بش نے ٹی وی پراسامہ بن لادن کے بارے میں کہے گئے جملے”ہم اسے پکڑکررہیں گے،زندہ یامردہ”پربھی معذرت کرلی تھی،حالانکہ اندازِسخن زیادہ شائستہ نہیں تھا”۔میں جونہی گھرپہنچا،میری بیوی لارانے بھی اس پرناپسندیدگی کااظہارکیاتھا”بش کوکیامعلوم کہ اب توارضِ پاکستان میں ایسے صاحبانِ قلم وقرطاس بھی بستے ہیں جن کے دلوں میں اس کیلئے”لارا”سے بھی زیادہ محبت وفریفتگی پائی جاتی ہے۔اگربش کوخبرہوتی کہ کرۂ ارض کے اس حصے میں اب بھی ایسے وفادارموجود ہیں تووہ الفاظ واپس لینے کی رسوائی سے بچ جاتااورٹرمپ کومزیدکھلامیدان مل جاتا۔

برسوں بعدایسے ہی وفاشعارکاارشاد یہ ہے کہ”عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیارنہ ملنے کااعلان دراصل امریکی چہرے کا روشن ترین رخ ہے اوراس رخ سے اندازہ ہوتاہے کہ وہاں نہ جھوٹ کارواج ہے نہ منافقت کا”خوئے غلامی کاسب سے ہولناک پہلویہی ہے کہ وہ ہرقطرۂ خوں میں گھر کرلیتی اورعشق کاایسارنگ اختیارکرلیتی ہے کہ محبوب کاچیچک زدہ چہرہ بھی چودھویں کے چاندجیساروشن،اس کی یرقان زدہ آنکھیں بھی مۓ کے چھلکتے پیمانےاوراس کے سوکھے سڑے ہونٹ بھی گلاب کی پنکھڑیاں دکھائی دیتی ہیں۔امریکی چوکھٹ پرسجدہ ریزان نورتنوں کوکون بتائے کہ امریکا اتنامعصوم نہیں۔اسے بہت پہلے سے معلوم تھاکہ عراق کے پاس ایساکوئی ہلاکت آفریں ہتھیارموجودنہیں۔ایک ہزارجاسوس بھیجنے اورڈیڑھ کھرب ڈالر پھونکنے سے قبل بھی وہ جانتاتھاکہ اسے کس روزکوئی سااعلان کرکے اپنے عشاق کواپنے چہرے کے روشن عارض و رخسار دکھانے ہیں۔ پچھلےسترسالوں کی تاریخ پرہی نظرڈال لی جائے توامریکادنیاکے سب سے بڑے جھوٹے،منافق اورسب سے مکروہ ملک کی حیثیت سے سامنے آتا ہے جوہرآن جمہوریت،انسانیت اورانسانی حقوق کے معنی تبدیل کرتارہتاہے۔ابو غریب جیل سے گوانتاناموبے تک”شرفِ انسانیت”کی نئی تاریخ رقم کرنے والے عفریت کوایسی سندِفضیلت توامریکایابرطانیہ کی کسی دانش گاہ سے بھی نہیں ملیں۔اقبال نے کیا الہامی بات کہی تھی:
ترے دین وادب سے آ رہی ہےبوئےرہبانی
یہی ہےمرنے والی امتوں کاعالمِ پیری
شیاطین ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو
کہ خودنخچیرکے دل میں ہوپیداذوقَ نخچیری

شکاری کاکام توشکارکرناہی ہے لیکن ایسابھی ہوتاہے کہ خودشکارکے دل میں بھی تیرکھانے کی آرزوانگڑائیاں لینے لگتی ہے ۔اپنی تاریخ و روایات کو”نسیم حجازیت”کانام دیکر”نشانہ تمسخر”بنانااورمکروہ تریں نامہ اعمال رکھنے والوں کے گلے میں ہارڈالنا،مری ہوئی قوموں کے مرے ہوئے دانشوروں کاشیوہ رہاہے۔

فرماتے ہیں کہ”دوراوّل کے مسلماں ظلم وستم سہتے رہے لیکن اف تک نہ کی،وہ تیاری کرتے رہےاورپھر313جانباز پہلے معرکے کیلئے میدان بدر میں اترے”یہ تاریخ سے بے خبری ہے۔313جانبازکسی جنگ کیلئے نہیں،ابوسفیان کے تجارتی قافلے کاراستہ روکنے نکلے تھے،پھرانہیں قریش مکہ کے ایک آراستہ پیراستہ لشکرکامقابلہ کرناپڑا۔دشمن کی تعدادایک ہزارتھی جن میں ہرایک کے پاس سازوسامان جنگ کی فراوانی تھی۔یہ313تھے جن میں سے70کے پاس اونٹ تھے اوردوکے پاس گھوڑے اورجن کے ہاتھوں میں تیزدھار تلواریں بھی نہ تھیں۔جانبازوں کی اس سپاہ کوسیاہ رنگ پرچم کیلئے حضرت عائشہ صدیقہ کی چادر استعمال کرناپڑی۔تب ان کی صفوں میں زمینی حقائق اورعسکری قوت کے اسرارورموزسمجھانے والا کوئی عالی دماغ نہ تھا جونعرہ لگاتاکہ”پہلے تیاری کرو”313میں سے کسی کے ذہن میں یہ خیال نہ آیاکہ جب تک ہم ایک ہزارنہیں ہوجاتے،جب تک ہمارے پاس طرارگھوڑے،طرحداراونٹ اورآبدارتلواریں نہیں آجاتیں،ہمیں مزاحمت نہیں کرنی چاہئے اورابو جہل کے سامنے سرجھکا دیناچاہئے۔

کوئی نہیں کہتاامریکاسے ٹکراجاؤلیکن خدا کیلئے ایسی دلیلیں نہ تراشوجس سے گھن آتی ہے اورایسے بیارفلسفے کاپرچارنہ کروجس کی بساندھ سے متلی آنے لگتی ہے۔”تیاری”ضرورکرولیکن جب آنے والے پچاس برسوں میں تمہاری تیاری مکمل ہو گی توکیاامریکاکی تیاریوں کاپہیہ جام رہے گا؟کیاوہ بھی پچاس سال لمبی جست نہیں لگائے گا؟ان فکری بالشتیوں اور سامراجی فقیہوں کوکون سمجھائے کہ اس نوع کی”تیاری”کی نہیں،غیرت و حمیت کی ضرورت ہوتی ہے۔اگریہ جوہر موجود ہوتووہ اپنی پرانی بندوقوں،اپنی زنگ آلود تلواروں،اپنی لاٹھیوں،اپنے ناخنوں،اپنے دانتوں اوراپنی جانوں کے بل پرجنگ آزما ہوتے ہیں اور اگریہ جوہرمرچکاہوتوان کے ایٹم بم بھی ان کی مردہ رگوں میں مزاحمت کی چنگاری نہیں سلگاسکتے،نہ ان کے صاحبانِ دانش اوروارثانِ قلم وقرطاس پرکپکپی کامداواکرسکتے ہیں۔
خوابوں کوبیکارنہ سمجھو
لفظوں کودیوارنہ جانو
آنے والے سارے لمحے
سارے دن اورساراسال
ہرموجودہ ساعت میں
کس نے بھلا کب دیکھے ہیں
خواب مگردکھلاتے ہیں
لفظ مگرسمجھاتے ہیں
آؤاستقبال کریں
آنے والے دن کی خاطر
سکھ اپنابربادکریں
ممکن ہوتی تعبیروں سے
خوابوں کوہمرازکریں
دکھ سے ہاتھ ملائیں ہم
ورنہ کل کی حیرت میں
کون ہمیں پھرجانے گا
گردش تویہ دائم ہے
اس کے لرزاں رستے پر
آج کے زندہ رکھنے کو
خواب ہی تو اک طاقت ہے!
 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355847 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.