کہتے ہیں کہ کسی بھی معاملے کا تجزئیہ کرتے وقت اس کے ہر
پہلو کو سامنے رکھنا چاہئے،چاہے کوئی پہلو امکانی ہی کیوں نہ ہو،اس کو
نظرانداز نہیں کرنا چاہئے ۔خاص طور پر تب کہ جب گزشتہ کچھ عرصے سے
اسٹیبلشمنٹ کی کمانڈ حکومت اور پارلیمنٹ سمیت اداروں پہ بھی حاوی اور قوی
ہونا نمایاں ہے۔
سپریم کورٹ کی طرف آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے مقدمے کا نوٹس لینے سے سب چونک
اٹھے کہ ملک میں یہ انداز ،یہ رواج تو نہ تھا۔اس معاملے سے متعلق ایک
امکانی پہلو یہ بھی کہ ایسا ہونا بھی طے شدہ منصوبے کا حصہ تھا۔اب یہ الگ
بات ہے کہ اس کا مقصد دیگر چند امور سے عوامی توجہ ہٹاناتھا،کا جواز ہو یا
'ملٹی پرپز' جواز بھی ہوسکتے ہیں۔ چاہے جو بھی ہو ، آرمی چیف کی مدت ملازمت
میں توسیع کے معاملے کا سپریم کورٹ کی طرف سے نوٹس لیا جانا اور سماعت کرتے
ہوئے طریقہ کار کے آئینی اور قانونی پہلوئوں کا جائزہ لینا، ایک انہونے
واقعہ کی مانند محسوس ہوتاہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ معاملہ
پارلیمنٹ پر چھوڑتے ہیں، پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی
تقرری سے متعلق قانون سازی کرے۔فیصلے میں کہا گیاکہ عدالت نے قانون سازی کے
لیے چھ ماہ کا وقت دیا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نئی قانون سازی
تک اپنے عہدے پر فرائض انجام دیں گے اور آج عدالت میں پیش کیا جانے والا
نوٹی فکیشن 6 ماہ کے لئے ہوگا۔
یہاں یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ کیا چیف جسٹس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ
چھ ماہ کے لئے ایکسٹینشن کا حکم صادر کرتے ہوئے حکومت کواس متعلق قانون
سازی کرنے کی ہدایت دیں ؟ یعنی اس وقت قانون اس کی اجازت نہیں دیتا ، کیا
چیف جسٹس اس وقت ایکسٹینشن کا قانونی جواز نہ ہوتے ہوئے اپنی صوابدید
استعمال کر سکتے ہیں ؟ میری رائے میں سپریم کورٹ آئین کی تشریح ہی کر سکتی
ہے اور اس کا کوئی بھی حکم آئینی ضرورت کو یقینی بنانے کے حوالے سے ہی ہو
سکتا ہے۔آئین ہی ہر کسی کی حدود و قیود کا تعین کرتا ہے، ارباب اختیار،
سرکاری عہدیداران، حکومتی اراکین اور اداروں کی حدود و قیود کا تعین بھی
آئین ہی کرتا ہے، کسی کو لامحدود اختیار حاصل نہیں ہوتے،اگر ملک میں حقیقی
طور پر آئین مقدم ہو۔
تجزئیہ نگاروں کے مطابق حکومت پارلیمنٹ سے مطلوبہ آئینی ترامیم دو تہائی کی
اکثریت سے کرانے میں کامیاب ہو سکتی ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی
جنرل جاوید قمر باجودہ کی ایکسٹینشن کی مخالفت میں نہیں جا ئیں گے۔بعض
تجزئیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہباز شریف سمیت ن لیگ کے اہم رہنما
پارلیمنٹ میں جنرل باجوہ کی توسیع کو بھرپور حمایت کریں گے۔ پیپلز پارٹی
اپنے رہنمائوں کو قید میں رکھے جانے کا معاملہ اٹھا سکتے ہیں ۔یہ بھی کہا
جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان بھی آئینی ترامیم کی براہ راست مخالفت
نہیں کریں گے۔ یہاں ایک دلچسپ صورتحال دیکھنے میں آئے گی کہ کیا اپوزیشن
جماعتیں صرف '' یقین دہانیوں '' پر ہی اپنی حمایت آئینی ترامیم کئے جانے کے
پلڑے میں ڈال دیں گی یا اس کے لئے اپوزیشن کے خلاف لچک نہ دکھانے والی
عمران خان حکومت کو اپوزیشن کے سامنے جھکنا پڑے گا ؟
اس صورتحال کے تناظر میں ایک امکانی پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ مولانا
فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے کچھ نا کچھ اثرات پس پردہ اثرات دکھا رہے
ہیں۔
'' کچھ دو،کچھ لو'' کے معاملات پس پردہ زیر کار ہیں ۔ اپوزیشن جماعتوں کی
'' معتدل مزاجی'' کی حکمت عملی موجود ہ نظام کو چلانے والوں کے لئے موافق
ماحول فراہم کرتی ہے۔ یہاں اس بات کے امکانات بھی پائے جاتے ہیں کہ سپریم
کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں ضرورت کے مطابق آئینی ترامیم کے ساتھ ساتھ
اسٹیبلشمنٹ دیگرمطلوبہ موضوعات سے متعلق آئینی ترامیم بھی کر ا سکتی ہے۔ اب
معلوم نہیں کہ پس پردہ پاکستان کی تقدیر کے فیصلے ہو رہے ہیں یا محض حاکمیت
کی کھینچاتانی ایک مختلف انداز میں جاری ہے۔
|