قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ التوبہ کی آیت 24 میں
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ (اے نبیؐ) کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں اپنے باپ اور
اپنے بیٹے اور اپنے بھائی اور اپنی بیویاں اور اپنے رشتہ دار اور وہ مال جو
تم نے بڑی محنت سے کمائے ہیں اور جمع کئے ہیں اور اپنے وہ کاروبار جو تم نے
بڑی مشقت سے جمائے ہیں اور جس میں تمہیں کساد کا اور مندے کا خوف رہتا ہے
اور اپنی وہ بلڈنگیں جو تم نے بڑے ارمانوں کے ساتھ تعمیر کی ہیں جو تمہیں
بڑی بھلی لگتی ہیں، اگر یہ سب چیزیں تمہیں محبوب تر ہیں اﷲ سے اور اس کے
رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) سے اور اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے سے تو جاؤ انتظار
کرو یہاں تک کہ اﷲ اپنا فیصلہ سنا دے اور اﷲ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں
دیتا‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں جن رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان سے انسان کو فطری
لگاؤ ہوتا ہے،اس لئے انہی چیزوں سے مؤمنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے ۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ واضح فرما رہے ہیں کہ جب اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ
وسلم کی محبت، ماں باپ اور دیگر عزیز و اقارب سے زیادہ ہو تب ایمان کا
دعویٰ صحیح ہوسکتا ہے ۔ اگر یہ رشتہ دار اور کمائے ہوئے مال اور دنیا کی
زمین وجائیداد اور تجارت اور پسندیدہ مکانات اﷲ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم اور جہاد فی سبیل اﷲ سے زیادہ محبوب و مرغوب ہیں تو اﷲ کے عذاب کا
سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے ۔ بلاشبہ محبت ایک پاکیزہ فطری جذبہ ہے
جو دل سے پھوٹتا ہے ، محبت اگر قرابت داری کی بنیاد پر ہو تو ’’طبعی محبت
‘‘ کہلاتی ہے اور اگر کسی کے جمال وکمال یا احسان کی و جہ سے ہو تو ’’عقلی
محبت ‘‘ کہلاتی ہے اور اگر محبت مذہب کے رشتے کی بنیاد پر ہو تو ’’روحانی
محبت‘‘یا’’ایمانی محبت‘‘ کہلاتی ہے ۔سچی محبت میں پائیداری، احترام اور
اتباع لازم و ملزوم ہیں، اور اگر اتباع اور فرمانبرداری نہ ہو تو محبت کا
دعویٰ بھی جھوٹ اور ڈھونگ کہلاتاہے۔ مثلاً ایک شخص اپنی ماں سے بے حد محبت
کرتا ہے مگر اپنی ماں کا نافرمان ہے ، ماں کی خدمت نہیں کرتا، خرچہ نہیں
دیتا بیمار ہو تو تیمارداری نہیں کرتا تو ایسے شخص کا ماں سے محبت کا دعویٰ
تسلیم نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ بغیر اطاعت کے محبت کا دعوی جھوٹا مانا جاتا
ہے ۔ حضرت عبداﷲ بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت عمر رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ نے کہا ’’یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! مجھے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
اپنے نفس کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں تو آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم
نے فرمایا جب تک میں آپ کو اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں اس وقت
تک آپ مومن نہیں، تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا پس واﷲ اب آپ صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں تو آپ صلی اﷲ علیہ
و آلہ وسلم نے فرمایا،اے عمر ! اب تم مومن ہو‘‘(بخاری و مسلم) ۔ اﷲ تبارک و
تعالیٰ نے آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو تمام عالم کے انسانوں کے لیے
رحمت اللعالمین بناکر بھیجا ، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر ہم دنیا
میں اپنی زندگی بسر کریں اس لئے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا طریقہ اﷲ تعالیٰ
کا پسندیدہ ترین طریقہ ہے ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہم سب کے رہنما ہیں۔ آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا کے کامیاب ترین انسان ہیں اور جو بھی دنیا اور آخرت
میں کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے محبت
اور اتباع کیے بغیر کامیابی کا کوئی راستہ نہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا
تھا وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات پر آکر مکمل ہوا ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
کو اﷲ تعالیٰ نے خاتم النبین بنایا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی
کوئی پیغمبر نہیں آئے گا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں محبت کا معیار
بتا دیا کہ حب رسول کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے
محبت اپنی جان و مال اولاد والدین عزیزواقارب حتیٰ کہ ہر عزیز چیز سے زیادہ
ہونی چاہیے اور یہی دین و ایمان کی اساس اور بنیاد ہے اور اگر اس میں کمی
ہوگی تو دین و ایمان میں کمی اور خامی باقی رہ جائیگی۔ آج مسلم امہ کی
اکثریت کا ہرعمل اغراض و مفادات کے پردوں میں چھپا ہوا ہے ۔ ہماری عبادات ،
معاملات ، معیشت و تجارت لین دین کے پیمانوں میں مکاری ، دو رخی اور جھوٹ
شامل ہو گیا ہے ، اور ہم نے محض بدعات و رسومات کو ہی حب رسول ؐ کا معیار
سمجھ لیا ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت درحقیقت اﷲ تعالیٰ کی
اطاعت ہے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نافرمانی اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی ہے ۔
گویا اگر کوئی شخص اﷲ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ محبت اس وقت
تک سچی قرار نہیں پاتی جب تک وہ اﷲ تعالیٰ کے نبی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی
پیروی ہر معاملے میں نہ کرے، اور اپنی تمام زندگی کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
کی سیرت کے سانچے میں ڈھال نہ لے ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کی
اہل ایمان کو اجازت نہیں ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت میں جنت ہے ۔ اﷲ
وحدہٗ لاشریک کا فرمان ہے ’’کہہ دو کہ اگر تم اﷲ کے ساتھ محبت کرتے ہو تو
میری اطاعت کرو اﷲ تمہیں محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے
گا۔(آل عمران31)‘‘ اصل محبت تو یہی ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی
اطاعت کرتا ہے ، اس کی فرمابرداری کرتا ہے ، اس کی پسندو ناپسند کو اپنی
پسند ناپسند بنا لیتا ہے ، اپنے محبوب کو جیسا کرتے پاتا ہے خاموشی سے ویسا
ہی کرتے چلا جاتا ہے، وہ اپنے محبوب کی ناراضگی سے بچتا ہے اور ہر وقت ہر
محفل میں اسے اپنے محبوب کے ذکر میں راحت محسوس کرتا ہے ۔ اسے اپنے محبوب
کی ہر ادا سے محبت ہوتی ہے اور یہی تمام چیزیں ہمیں صحابہ کرام کی زندگیوں
سے ملتی ہیں۔ صحابہ کرام کی محبت کا تو یہ عالم تھا کہ جب انہیں آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کی پسند اور ناپسند کا پتہ چلتا تو اس پر بغیر کسی حیل و حجت کے
عمل فرماتے یہاں تک کہ انہوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پہننے ، اٹھنے
بیٹھنے کھانے پینے چلنے پھرنے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہر ہر ادا کو
اپنا لیا تھا، اور اپنی زندگی کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت کے سانچے میں
ڈھال لیا تھا ۔آج ہم حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے سچی محبت کے دعویدار تو ہیں
مگر ہم نے اپنی زندگی کوحضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی اور سنتوں
کے مطابق نہیں ڈھالا۔ آج ہمیں اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ کیا ہمارا طرز
زندگی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے عین مطابق ہے ؟ کیا ہمارے عشق
کی گواہی ہمارا عمل فراہم کر رہاہے ؟ بلاشبہ حب رسول صلی اﷲ علیہ وسلم
مسلمانوں کے لیے ایمان و یقین کا سرچشمہ اور آخرت کے لیے بہترین ذخیرہ اور
ایمان کامل کا جوہر ہے ۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے
حقیقی محبت، کامل اطاعت اور پیروی کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔
|