اﷲ رب العزت نے زندگی کے بعد موت کو انسان کا مقدر
بنایا تاکہ انسان زندگی میں جو کچھ عمل کرے تو مرنے کے بعد اسے اپنے اعمال
کی جزا یا سزا مل سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیک اعمال کرنے والے کا
ٹھکانہ جنت ہوتا ہے جبکہ منافق اور کافر کا ٹھکانہ جہنم ہوتا ہے۔ مومن کی
قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوتی ہے جبکہ کافر کی قبر جہنم کے گڑھوں
میں سے ایک گڑھا ہوتی ہے۔ انسان چاہے پوری زندگی نیک اعمال کرتا رہے اگر
خدا نخواستہ اس کا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوا تو وہ جزا کے بجائے سزا کا
مستحق ہوگا۔ آخرت میں مومن کے اعمال کے مطابق درجات پر فائز کیا جائے گا۔
جس کے جتنے اچھے اور اخلاص والے اعمال ہوں گے ان کا درجہ اتنا ہی بلند ہوگا۔
جب بندہ کا آخری وقت ہوتا ہے تو اس پر اس کے اچھے اور برے اعمال پیش کیے
جاتے ہیں۔ چنانچہ امام حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: موت کے وقت بندے
کی حفاظت کرنے والے فرشتے اتر تے ہیں اور اس پر اس کی اچھائی اور برائی پیش
کرتے ہیں، جب وہ اچھائی کو دیکھتا ہے تو خو شی سے چہرہ چمک اٹھتا ہے اور جب
برائی کو دیکھتا ہے تو آنکھیں جھک جاتی ہیں اور چہرہ پھیکا پڑجاتا ہے۔ (موسوعۃ
ابن ابی الدنیا) مومن اور کافر کی روح قبض کرنے کی کیفیت مختلف ہوتی ہے۔
مومن کی روح انتہائی آسانی سے نکالی جاتی ہے جبکہ کافر کی روح بہت تکلیف کے
ساتھ نکالی جاتی ہے۔ جب اﷲ کا مقرب بندہ دنیا سے جانے لگتا ہے تو اس کے لیے
جنت سے پھول لائے جاتے ہیں جن کو وہ سونگھتا ہے اور اسی دوران اس کی روح
قبض ہوجاتی ہے۔ حضرت بکر بن عبد اﷲ فرماتے ہیں: جب ملک المو ت کو مومن کی
روح قبض کرنے کا حکم ہوتا ہے تو وہ جنت سے پھول لاتے ہیں، انہیں حکم ہوتا
ہے کہ اس کی روح پھولوں میں سجاکر لے آؤ۔ اس کے برعکس ملک الموت جب کافر کی
روح قبض کرنے لگتے ہیں تو دوزخ سے ٹاٹ لے کر آتے ہیں اور حکم دیا جاتا ہے
کہ اس کی روح اس میں لپیٹ کر لاؤ۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا) مومن کی روح
جنتی پھولوں اور ریشم میں سجائی جاتی ہے۔
انسان کے مرنے کے بعد اس کی روح کو آسمانوں پر لے جایا جاتا ہے۔ اگر اس کی
روح پاکیزہ ہوتی ہے تو آسمان والے اس پر خوش ہوتے ہیں ،اس کے بر عکس اگر اس
بندے کی روح ناپاک اور گناہوں سے آلودہ ہوتی ہے تو آسمان والے اس سے ناخوشی
کا اظہار کرتے ہیں۔ جب بندہ کی روح نکل جاتی ہے تو وہ اپنی روح کو آسمان پر
جاتا دیکھ رہا ہوتا ہے ۔ ایک روایت کے مطابق یہی وجہ ہے کہ روح نکلنے کے
بعد اس کی آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ نے
صحابہ کرام سے فرمایا: کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ جب کوئی شخص فوت ہوتا ہے
تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی یعنی کھلی رہ جاتی ہیں۔ صحابۂ کرام نے عرض کی
: جی ہاں۔ آقا ﷺ نے ارشادفرمایا: یہ اس وجہ سے ہے کہ اس وقت نگاہ روح کا
پیچھا کرتی ہے۔ (مسلم)
جسم سے روح نکلنے کے بعد بندہ اپنے ارد گر د کے تمام حالات و واقعات سے
باخبر رہتا ہے۔ بس وہ اپنے جسم کو حرکت نہیں دے سکتا۔ مردہ شخص غسل سے لے
کر قبر میں اترتے وقت کی کیفیات کا مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے۔ رسول اﷲﷺ نے
ارشاد فرمایا: مردہ اپنے غسل دینے والوں ، جنازہ اٹھانے والوں ، کفن دینے
والوں اور قبر میں اتارنے والوں کو پہچانتا ہے۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا)اسی
طرح ایک اور روایت میں ہے کہ مردہ غسل دینے ، جنازہ اٹھانے ، حتّٰی کہ قبر
میں پہنچائے جانے تک کے تمام احوال دیکھ رہاہوتا ہے۔ (شرح الصدور) ایک اور
روایت سے اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر بندے کو
مرنے کے بعد راحت وپھول اور چین کے باغات کی خوشخبری دی گئی ہو تو وہ جنازہ
اٹھاکر چلنے والوں کو قسم دے کر کہتا ہے کہ جلدی چلو ۔ اور اگر اس مردے کو
کھولتے پانی اور بھڑکتی آگ کی خبر دی گئی ہو تو انہیں رک جانے کی قسم دیتا
ہے۔ (شرح الصدور)
جب بندے کو قبر ستان کی طرف لے جایا جاتا ہے تو فرشتے روح لے کر اس کے ساتھ
ساتھ چلتے ہیں اور جب اس کو قبر میں اتاردیا جاتا ہے تو روح کو قبر میں
چھوڑ دیا جاتاہے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن ابولیلیٰ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
روح فرشتے کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ جب بندے کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو فرشتہ
اسے بھی وہیں چھوڑ دیتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)حضرت انس بن مالک رضی اﷲ
عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب آدمی کو قبر میں اتار دیا
جاتاہے اور لوگ وہاں سے پلٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے ، پھر
اس کے پاس دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تم اس شخصیت کے
بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟ جبکہ ایک روایت میں اس طرح ہے کہ تم ان کے بارے
میں کیا کہا کرتے تھے جو تمہارے درمیان ظاہر ہوئے اور جن کانام نامی محمد
تھا؟ مومن کہے گا: میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اﷲ کے بندے اور رسول ہیں۔ اسے
کہاجائے گا: جہنم میں وہ جگہ دیکھ جس کی جگہ اﷲ تعالیٰ نے تجھے جنتی ٹھکانا
دیا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ ان دونوں ہی کو دیکھے گا۔ حضرت قتادہ
رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں : ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کی قبر ۷۰ گز
کشادہ کردی جائے گی اور سبزے سے بھردی جائے گی۔ جبکہ کافر اور منافق سے
کہاجائے گا کہ تم اس شخص کے بارے میں کیاکہا کرتے تھے؟ وہ کہے گا: میں نہیں
جانتا، میں لوگوں کو جو کہتے سنتا تھا وہی کہتا تھا۔ اس سے کہا جائے گا:
تجھے کچھ بھی خبر نہیں ، پھر اسے لوہے کے ہتھوڑے کی ایک ضرب لگائی جائے گی
تو وہ ایسی چیخ مارے گا جسے انسان و جن کے سوا ساری مخلوق سنے گی۔ (بخاری)
آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب مومن کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس
دو فرشتے آتے ہیں اور اسے جھڑکتے ہیں، وہ ایسے ہڑ بڑا کر اٹھ جاتا ہے جیسے
سونے والا ہڑ بڑا تا ہے۔ اس سے پوچھا جاتاہے کہ تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین
کیا ہے؟ اور تیرے نبی کو ن ہیں؟ وہ کہتا ہے اﷲ میرا رب ہے۔ اسلام میرا دین
ہے اور محمد ﷺ میرے نبی ہیں۔ ایک پکارنے والا کہتا ہے: اس نے سچ کہا اس کے
لیے جنتی بچھونا بچھادو اور اسے جنتی لباس پہناؤ۔ مومن کہتا ہے : مجھے جانے
دو تاکہ میں اپنے گھر والوں کو خوشخبری سنادوں ۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ یہیں
آرام کرو۔ ایک روایت کے مطابق جب منافق یا کافر سے یہ سوالات کیے جاتے ہیں
تو وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا۔ منکر نکیر کہتے ہیں : ہم جانتے تھے کہ تو
یہی جواب دے گا۔ چنانچہ زمین کو حکم ہوتا ہے کہ اسے جکڑ لے تو وہ اسے ایسا
دباتی ہے جس سے اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتی ہیں ۔ الغرض وہ
قیامت تک عذابِ قبر میں مبتلا رہے گا۔ (ترمذی) رسول اﷲ ﷺ نے قبر کے متعلق
فرمایا: اس میں مومن کو اس طرح دبایا جاتاہے کہ اس کی پسلیاں اپنی جگہ
چھوڑدیتی ہیں اور کافر کے لیے یہ آگ سے بھردی جاتی ہے۔ (مسند امام احمد)
مومن کو قبر میں دبانے کے کی دو تو جیہات بیان کی گئی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ
قبر مومن کو اس طرح دباتی ہے جس طرح ماں اپنے بچے کو سینے سے لگاکر دباتی
ہے یعنی قبر کا دبا نا عذاب کے لیے نہیں بلکہ انسیت پیدا کرنے کے لیے ہوگا،
دوسری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ مومن کو قبر اس لیے دباتی ہے کہ دنیا میں
مومن سے جو خطائیں سرزد ہوئی ان خطاؤں کا کفارہ ہوجائے اور جہنم کے عذاب سے
نجات مل جائے ۔
جس طرح زندگی میں انسان ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں اور ملاقات پر خوش ہوتے
ہیں‘ اسی طرح روحیں بھی ایک دوسرے کو پہچانتی ہیں اور ملاقات پر خوشی کا
اظہار کرتی ہیں ۔ جب کوئی شخص انتقال کرجاتا ہے تو اس کی روح دوسری ارواح
سے ملاقات کرتی ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے احوال پوچھتی ہیں۔ یہاں تک کہ
پہلے مرنے والے بعد میں مرنے والے سے اس کے گھر والوں کے بارے میں بھی
پوچھتی ہیں کہ فلاں کا کیا حال ہے؟ فلاں کیساہے؟ فلاں نے کیا کیا؟ چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ جب مومن کی روح آسمان پر
لے جائی جاتی ہے تو ارواحِ مومنین اس کے پاس جمع ہوکر اپنے جاننے والوں کے
بارے میں اس سے پوچھتی ہیں۔ جب وہ روح کہتی ہے کہ میں فلاں کو دنیا میں
(اچھے حال میں) چھوڑ آئی ہوں تو دوسری روحیں خوش ہوتی ہیں۔ (مسند بزار)اسی
طرح حضرت ثابت بنانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں : جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کے
فوت شدہ رشتہ دار اس کا استقبال کرتے ہیں اور وہ ان سے مل کر خوش ہوتا ہے
اور وہ لوگ بھی اس سے مل کر ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے کسی مسافر کے اہلِ خانہ
اس کے گھر آنے پر خوش ہوتے ہیں۔ (شرح الصدور) جس طرح ایک روح دوسری روح سے
مل کر خوش ہوتی ہے اسی طرح مردہ اپنی قبر میں اس وقت بھی انسیت، خوشی اور
مسرت محسوس کرتا ہے جب اس کے اہلِ خانہ میں سے کوئی اس کی قبر پر چاتا ہے۔
مُردہ اپنی قبر میں سے اسے پہچان لیتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے
جسے انسان نہیں سن سکتے۔ اسی طرح سے زندہ لوگوں کے اعمال ان کے مُردوں پر
پیش کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے اعمال
تمہارے مرحوم رشتہ داروں کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی نیک کام ہوتا
ہے تو وہ خوش ہوکر کہتے ہیں : اے اﷲ یہ تیرا فضل اور تیری رحمت ہے ، اس پر
اپنی نعمت مکمل فرمااور حسنِ اعمال پر اس کا خاتمہ فرما۔ اسی طرح جب وہ
گناہ گار کے اعمال دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں: اے پرور دگار! اسے ایسے اعمال
کی طرف لگادے جن سے تو راضی ہوا۔ (معجم اوسط) یہی وجہ ہے کہ احادیث مبارکہ
میں اپنے مُردوں کو تکلیف دینے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ نے
فرمایا: پیر اور جمعرات کے دن اعمال اﷲ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں اور
جمعہ کے دن انبیائے کرام علیہم السلام اور والدین پر پیش کیے جاتے ہیں، نیک
اعمال پر وہ خوش ہوتے ہیں اور ان کے چہروں کی چمک دمک بڑھ جاتی ہے لہٰذا اﷲ
سے ڈرو اور اپنے مُردوں کو تکلیف مت دو۔ (شرح الصدور)اﷲ رب العزت ہمیں نیک
اعمال پر کاربند رہنے کی توفیق نصیب فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر
فرمائے ۔ آمین۔ |