پاکستان کے گذشتہ چند برسوں کی طرح اس بار بھی مختلف
علاقوں خصوصاً لاہور کو موسم سرما کے آغاز پر ہی اسموگ یعنی گرد آلود دھند
کا سامنا ہے۔اسموگ کے باعث شہریوں کو بیماریوں کی صورت میں مشکلات کا سامنا
کرنا پڑ رہا ہے. اسموگ کے اثرات ابھی سے بڑے شہروں میں نمایاں ہونا شروع ہو
گئے ہیں اور چونکہ آئندہ دو ماہ میں بارشیں معمول سے کم ہونے کا امکان ہے
تو یہ حالات اسموگ کی شدت میں اضافے کے لیے کافی سازگار ہوں گے۔آئندہ دو
ماہ میں ہوا ساکن ہونے اور بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے جہاں دھند کی شدت میں
اضافہ ہو گا وہیں شہروں میں صنعتوں اور گاڑیوں سے خارج ہونے والے کاربن
مونو آکسائیڈ اور دیگر زہریلے مادے اور دیہی علاقوں میں چاول اور گنے کی
فصل کا فضلہ جلانے سے یہ ذرات دھند میں شامل ہو کر اسموگ کا سبب بنیں گے
اور دوسری طرف درختوں کی کمی کے باعث بھی اسموگ میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا
ہے-
اسموگ کے نتیجے میں گلے، آنکھوں اور سانس کی بیماری لاحق ہو سکتی ہے لیکن
اس کے ساتھ اسموگ میں پائی جانے والی بعض کثافتوں کے نتیجے میں جہاں شہریوں
پر زکام، نزلے کی صورت میں فوری اثرات مرتب ہوتے ہیں وہیں اگر یہ صورتحال
زیادہ عرصے تک رہی تو آگے جا کر گلے اور پھیپھٹروں کے کینسر کا بھی موجب بن
سکتی ہے۔ لاہور میں امریکی سفارتخانے میں نصب فضا کے معیار کی نگرانی کرنے
والے آلات سے حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق 130 کی شرح حساس طبعیت کے مالک
افراد کے لیے تاحال غیرصحتمندانہ ہے جبکہ 580 کی شرح تو ہر فرد کے لیے
انتہائی خطرناک تصور کی جاتی ہے. لہٰذا اسموگ سے متاثرہ علاقے میں شہری
ماسک کا استعمال کریں اور خاص کر شام کے وقت گھروں سے باہر نکلتے وقت
احتیاطی تدابیر اختیار کریں کیونکہ اس وقت سموگ کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں۔اس
سے بچنے کے لیے متاثرہ علاقوں کے شہریوں کو زیادہ سے زیادہ مشروبات کا
استعمال کرنا چاہیے تاکہ زہریلی ثقافتوں کا اثر کم کیا جا سکے۔حکومتِ پنجاب
کو اسموگ کی صورتحال کے پیش نظر لوگوں کے لیے آگاہی پروگرام منعقد کروانے
چاہیے تاکہ لوگوں کو آگاہی مل سکے. اور اس کا سدباب کیا جاسکے-
|