اسرائیل ماڈل، کشمیر میں ہندو بستیاں

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 2016میں منظور کردہ قراردادکے مطابق مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کا قیام بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزیہے۔چوتھے جنیوا کنونشن نے بھی مقبوضہ علاقوں میں آبادی کی منتقلی کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔18نومبر2019کو امریکی ٹرمپ حکومت نے اپنی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کوجائز قرار دیا ہے ، تب سے بھارت بھی مقبوضہ کشمیر میں ہندو بستیاں قائم کرنے کو جائز قرار دے رہا ہے۔ اگر چہ مقبوضہ وادی میں برسوں سے بھارت مخصوص علاقوں میں اسرائیلی طرز پر ہندو پنڈت آبادی کو بسانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے مگر 1990میں مقبوضہ کشمیر سے گورنر جگ موہن کی طرف سے نکالے گئیسیکڑوں پنڈت خاندانوں کی واپسی اور آبادکاری کے لئے ان کے نام پر اب ہندوؤں کو بسانے کا خدشہ پیدا ہو اہے۔ کیوں کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370اور 35اے کو اسی وجہ سے ہی ختم کیا گیا تا کہ مقبوضہ ریاست کی شناخت کو مٹا دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ہندؤں کو بسانے کی راہ ہموار کی گئی۔ تا ہم انٹرنیشنل قوانین بھارتی عزائم کی راہ میں حائل تھے۔ امریکہ ان انٹرنیشنل قوانین کو تسلیم نہیں کرتاجو اس کے مفاد کے منافی ہوں۔ اسرائیل بھی امریکہ کا لے پالک ہے۔ اس لئے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں قائم کرنے کی طرز پر مقبوضہ کشمیر میں بھی ہندو بستیاں قائم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ نیو یارک میں امریکی قونصل جنرل سندیپ چکرورتی نے بھی اسی تناظر میں بھارتی پالیسی بیان کی۔ بھارت پہلے سے یہ کہتا ہے کہ جب اسرائیل کوئی غیر قانونی کام کر سکتا ہے تو بھارت بھی ایسا کر سکتا ہے۔ یعنی جب امریکی پشت پناہی میں اسرائیل عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اسے کوئی جواب طلب نہیں کر سکتا یا کوئی سزا نہیں دے سکتا، اس کے خلاف پابندیاں بھی عائد نہیں کی جاتیں، اس کا بائیکاٹ بھی نہیں ہوتا، اس کے ساتھ تعلقات بھی منقطع تو کجا ، کشیدہ بھی نہیں ہوتے، سفارتی تعلقات بھی استوار رہتے ہیں، تو پھر بھارت کو کون پوچھ سکتا ہے، وہ بھی اب امریکہ کا جیسے لے پال بن رہا ہے۔ جیسے اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ناجائز قبضہ اور عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے، اسی طرح بھارت بھی جنوبی ایشیا میں عالمی قوانین اور یو این سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

جب نائن الیون کی آڑ میں امریکہ نے افغانستان پر جارحیت کی، بھارت بھی پارلیمنٹ پر حملہ کرانے کے بعد پاکستان پر جارحیت کے لئے پر پھیلا رہا تھا۔ اس کی فوج سرحدوں کی طرف پیش قدمی کر رہی تھی۔اب جس طرح ٹرمپ نے نیتن یاہوکی سرپرستی کرتے ہوئے اسرائیلی غیر قانونی بستیوں کو جائز قراردیا ہے ، اسی طرح نریندر مودی بھی تصور کر رہے ہیں۔ بھارت مقبوضہ وادی میں اپنے منصوبوں پر عمل کر رہا ہے۔ اسے روکنے والا کوئی نہیں۔ تقریروں، نعروں، مظاہروں، مارچوں سے بھارت کو روکنا محال ہے۔ کوئی ملک بھارت پر دباؤ ڈالنا کو تیار نہیں۔ عرب دنیا تک ہمارے ساتھ نہیں۔ بھارت کے خلاف ہم ایک قرارداد تک نہ لا سکے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کشمیریوں نے سرینڈر کر لیا۔ کشمیریوں کی جدوجہد نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں بے سر و سامانی کے باوجود شدت بھی آ رہی ہے۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے مطابق امریکہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کا قیام انٹرنیشنل قوانین کی خلاف ورزی نہیں۔ بھارت بھی سمجھ رہا ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جو کرے ، وہی قانون ہو گا۔ مغربی کنارے میں 6لاکھ یہودی غیر قانونی بستیوں میں آباد کئے گئے ہیں۔ یہ علاقہ اسرائیل نے 1967کی چھ روز کی جنگ کے دوران اپنے قبضے میں لایا۔ اس مقبوضہ علاقے میں 30لاکھ سے زیادہ فلسطینی آباد ہیں۔ جس اسرائیلی فوج کی جارحیت اور تشدد کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ مسلم آبادی اسرائیل کے رحم و کرم پر ہے۔ کوئی مسلم ملک اس کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ بلکہ زیادہ تر مسلم ممالک نے اسرائیل کی جارحیت اور غیر قانونی قبضے کو تسلیم کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے۔ 20لاکھ سے زیادہ فلسطینی 25میل لمبی غزہ پٹی میں آباد ہیں۔ جس پر حماس کا کنٹرول ہے۔ مگر 12سال سے یہ پٹی اسرائیلی ناکہ بندی میں ہے۔ ٹرمپ حکومت نے پہلے امریکی سفاتخانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا۔ امریکہ نے فلسطینی مہاجرین کی امدادی ادارے کی فنڈنگ بند کی۔شام کی سرحد پرواقع گولان چوٹیوں پر اسرائیل کے جارحانہ قبضے کو جائز قرار دیا۔ اس پر اسرائیل نے 1967کو قبضہ کیا تھا۔

فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو جس طرح امریکہ جائز قرار دے رہا ہے اسے طرح بھارت بھی مقبوضہ کشمیر پر اپنی جارحیت کو درست سمجھتا ہے۔ کشمیریوں کی نسل کشی، قتل عام، قید و بند، 116دنوں سے ایک کروڑ آبادی کو قید رکھنا بھی اسے جائز لگتا ہے۔ دنیا میں کوئی اس پر بات نہیں کر رہا ہے۔ کشمیر سے نکالے گئی ہندو پنڈت آبادی کی آبادکاری کے نام پر ہندو بستیاں قائم کرنے کا بھارتی منصوبہ نیا نہیں۔ مگر اس پر اب نریندر مودی عمل کر رہے ہیں۔ یہ کہنا درست ہو گا کہ پہلے بھارت کو اس جارحیت کی ہمت نہ سکی تھی۔ مگر جب صدر ٹرمپ نے ثالثی کی بات کی، مودی اور عمران خان سے ملاقاتیں کیں، تب سے بھارتی جارحیت تیز ہو گئی ہے۔ اسی وجہ سے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی کچھڑی پک رہی ہے۔ جو ٹرمپ اور مودی نے تیار کی ہے۔ اسی تناظر میں نیو یارک میں ا بھارتی قونصلر نے بھی اسرائیلی طرز پر کشمیر میں ہندو بستیاں قائم کرنے کا اعلان کیا۔ جس پر وزیراعظم عمران خان نے زبردست ردعمل ظاہر کیا۔ تا ہم پاکستان کی طرف سے کسی بھی عالمی فورم پر ابھی تک یہ مسلہ نہیں اٹھایا گیا۔ اگر بھارت مقبوضہ علاقے میں جسے وہ مقبوضہ نہیں سمجھتا، کوئی پالیسی تشکیل دیتا ہے، اس پر عمل بھی کرتا ہے، اسے کوئی روکنے والا نہیں، تو وہ مزید منصوبے تیار کرتے ہوئے ان پر عمل بھی کرسکتا ہے۔پی ٹی آئی حکومت کو اگر فرصت ملے تواپنی کشمیر پالیسی پر از سر نو غور کرنا چاہیئے کہموجودہ پالیسی، اگر کوئی ہے تو یہ کشمیریوں کو کوئی ریلیف نہ دلا سکی۔ بھارت نے کشمیر میں ہندو بستیاں قائم کرنے کے لئے زمین بھی ایوارڈ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ پاکستان کے پاس بھارت کو غیر قانونی بستیاں قائم کرنے سے روکنے کا کیا فارمولہ ہے ؟۔ یا عمران خان حکومت روایتی طور پر مذمتی اور جذباتی بیانات کا ہی سہارا لے گی۔ امریکہ میں بھارتی قونصلر کے بیان پر وزیراعظم عمران خان کا ردعمل بیانات کی ھد تک کیسے نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم کا ردعمل دنیا میں ان کے سفیرعالمی فورمز، سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی،او آئی سی، عرب لیگ جیسے ادروں کے سامنے پیش کرنے سے کیوں کترا رہے ہیں۔ توقع ہے کہ پاکستان بھارتی جارحیت کو روکنے کے لئے اور کشمیر کو ہڑپ کرنے کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے سلامتی کونسل سے تیاری کی ساتھ رجوع کرے گا۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555708 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More