حماقتیں ہی حماقتیں

(پروفیسر مظہر)

چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع پر سپریم کورٹ میں تین دنوں تک تماشہ لگا رہا۔ جس کے بعد سپریم کورٹ نے کمال تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف کی مدتِ ملازمت میں چھ ماہ کے اضافے کی منظوری دیتے ہوئے حکم دیا کہ چھ ماہ کے اندر پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کی جائے۔ اِس طرح چیف آف آرمی سٹاف کو چھ ماہ تک کام کرنے کی مشروط اجازت دے دی گئی۔سپریم کورٹ کافیصلہ آنے کے بعد وزیرِاعظم نے فرمایا ’’اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی خواہش رکھنے والوں کو آج شکست ہوئی‘‘۔ تخیلاتی اور تصوراتی انقلاب کے داعی کی خدمت میں عرض ہے کہ ٹکراؤ کی خواہش تو آپ کے اُن ’’دیدہ وروں‘‘ کی تھی جن کی بھرپور کوشش تھی کہ سپریم کورٹ چیف آف آرمی سٹاف کی ملازمت میں توسیع کو کالعدم قرار دے دے۔ اِس کوشش کو اُن صاحبانِ بصارت وبصیرت نے ناکام بنایا جن کے ہاتھ میں عصائے عدل تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ، توسیع کا فیصلہ کالعدم قرار دینے سے ایسا خلا پیدا ہو گا جو ملک کو انارکی کی طرف لے جائے گا اور اُمید کی ہر کرن ماند پڑ جائے گی۔ اِسی لیے اُنہوں نے ملک وقوم کی بہتری کی خاطر حکومتی غلطیوں کے متعفن گٹر پر مصلحتوں کا ڈھکن رکھ دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ’’چیف آف آرمی سٹاف فوج کے چیف ایگزیکٹو اور تمام امور کے ذمہ دار ہیں اِس لیے عدالت تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہتر سمجھتی ہے کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا معاملہ وفاقی حکومت اور پارلیمنٹ کے سپرد کر دیا جائے‘‘۔

وزیرِاعظم نے فرمایا ’’سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی خبروں کو بھی کافی استعمال کیا گیا لیکن خوشی ہے کہ ہم نے ملک کو غیرمستحکم ہونے سے بچا لیا‘‘۔ محترم! ملک کو غیرمستحکم ہونے سے آپ نے نہیں، معزز عدالت نے بچایا۔ آپ کے پاس جو انورمنصور، فروغ نسیم اور بابراعوان جیسے ’’اعلیٰ دماغ‘‘ تھے، وہ بار بار غلطیاں کرتے رہے اور معزز عدالت اُنہیں غلطیوں کی درستی کی ہدایت کرتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ معزز عدالت نے لکھا ’’وفاقی حکومت نے گزشتہ تین دنوں میں بار بار اپنا مؤقف تبدیل کیا‘‘۔ محترم چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکے کہا ’’آپ کی کوتاہی کی وجہ سے آرمی چیف کو مشاورت پر جانا پڑا۔ آرمی چیف ملکی دفاع پر نظر رکھیں یا آپ کے ساتھ بیٹھ کر قانونی غلطیاں درست کریں‘‘۔ یہ حکومتی ٹیم کی نااہلی تھی یا بدنیتی؟نااہلی اِس لیے نہیں ہو سکتی کہ حکومتی نوٹیفیکیشن کی سمری کے مدار المہام فروغ نسیم کو دوبارہ وزیرِقانون بنا دیا گیا ہے۔ رہی بدنیتی یا سازش کی بات، اِس کا فیصلہ ہم تاریخ پہ چھوڑتے ہیں۔

وزیرِاعظم نے فرمایا ’’دھرنے سے ملک کو غیرمستحکم کرنے کی کوششوں میں کشمیر کا مسٔلہ پسِ پُشت چلا گیا‘‘۔ وزیرِاعظم شاید ڈی چوک اسلام آباد میں اپنا وہ 126 روزہ دھرنا فراموش کر چکے جس میں اُنہوں نے ملک کو غیرمستحکم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اِسی دھرنے میں اُنہوں نے سول نافرمانی کااعلان کیا، پیسہ ہنڈی کے ذریعے بھیجنے کا حکم دیا، سرِعام یوٹیلٹی بلز جلائے، پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ توڑے، وزیرِاعظم ہاؤس پر حملہ اور پی ٹی وی پر قبضہ کیا، پولیس سٹیشن پر دھاوا بول کر اپنے کارکن چھڑوائے اور پولیس افسروں کو اُلٹا لٹکانے کی دھمکیاں دیں۔ یہ سب کچھ اُنہوں نے محض ’’شیروانی‘‘ کے حصول کی خاطر کیا۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمٰن، عمران خاں کے دھرنے سے کئی گنا بڑا اجتماع لے کر کراچی سے اسلام آباد تک پہنچے لیکن کوئی پتّا ہلا نہ گملا ٹوٹا۔ اُن کا دھرنا ایسا کہ جس کی تاریخِ پاکستان میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ اُن کے انتہائی منظم کارکن لگ بھگ 2 ہفتوں تک اسلام آباد میں بیٹھے رہے اور پھر خاموشی سے واپس چلے گئے۔ اب یہ فیصلہ بھی تاریخ ہی کرے گی کہ کس کا دھرنا ملک کو غیرمستحکم کرنے کے لیے تھا اور کس کا نہیں۔ رہی کشمیر کی بات تو کشمیر کے مظلوم شہیدوں کی روحیں آج بھی سوال کرتی ہیں کہ اے کشتۂ ستم تیری غیرت کو کیا ہوا۔ آج کشمیر بھارت کے پنجۂ خونیں میں ہے اور ہم خاموش تماشائی۔ ہماری خاموشی شاید اِس لیے کہ ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا ’’اگر مودی الیکشن جیت گیا تو کشمیر کا مسٔلہ حل ہو جائے گا‘‘۔ مودی نے کشمیر کا مسٔلہ حل کر دیااور ہم ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کے پیچھے بھاگتے رہ گئے۔ وزیرِاعظم صاحب نے یہ بھی فرمایا ’’ہمیں فخر ہے کہ ہم نے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ جیسا زبردست منصف پیدا کیا۔ اُن کا شمار عظیم ججوں میں ہوتا ہے‘‘۔وزیرِاعظم صاحب ! اﷲ کرے آپ اپنے اِس بیان پر یوٹرن نہ لیں۔ ویسے آپ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بارے میں بھی ایسے ہی دل خوش کُن بیانات دیا کرتے تھے۔ آپ عدلیہ بحالی تحریک میں چار دنوں کی جیل کاٹنے کا ذکر آج بھی بڑے فخر سے کرتے ہیں لیکن جب افتخارمحمد چودھری ریٹائر ہوئے تو آپ نے یوٹرن لیتے ہوئے کہہ دیا ’’چودھری صاحب! آپ کتنے میں بِکے؟‘‘۔

جیسا تماشا اور جیسی جگ ہنسائی چیف آف آرمی سٹاف کی مدتِ ملازمت میں توسیع پر ہوئی، وہ نئے پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں کہ یہاں تو ’’ہوتا ہے شب وروز تماشا مرے آگے‘ یوٹرن پر فخر کرنے والے کی ٹیم ایسی نالائق اور نااہل کہ ایک سمری بھی ڈرافٹ نہ کر سکی۔ ضد، انا، نرگسیت اور نفرت وکدورت پالنے والے کی نگاہِ انتخاب بھی منفرد۔ قصور اُن کا بھی نہیں کہ انہوں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آسمانی فرشتے کہاں سے لاؤں۔ اِسی لیے اُنہیں دوسری جماعتوں سے نکلے یا نکالے ہوئے ’’پنچھیوں‘‘ پر گزارا کرنا پڑا۔ پرویزمشرف کے وکیل اور پیپلزپارٹی کے اٹارنی جنرل انورمنصور خاں اب پی ٹی آئی کے اٹارنی جنرل۔ پرویزمشرف کی آنکھ کا تارا بریگیڈئیر اعجازشاہ اب پی ٹی آئی کا وزیرِداخلہ۔ ایم کیو ایم کا فروغ نسیم پہلے پرویزمشرف کا وکیل اور اب پی ٹی آئی کا وزیرِقانون۔ شیخ رشید، خسر وبختیار، عمر ایوب، زبیدہ جلال اور محمد میاں سومرو، سبھی پرویز مشرف کے دست وبازو، جو اب کپتان کے دل کے بہت قریب۔ شیخ حفیظ پیپلزپارٹی کے وزیرِخزانہ اور پی ٹی آئی کے مشیرِ خزانہ۔ شاہ محمودقریشی پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف، دونوں کے وزیرِخارجہ۔ فردوس عاشق اعوان کے پاس پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف، دونوں کی وزارت ومشاورت کا قلمدان۔ بابراعوان پیپلزپارٹی کے وزیرِقانون اور پی ٹی آئی کے مشیر۔ فوادچودھری پرویزمشرف کی حکومت کا مزہ چکھتے ہوئے پہلے پیپلزپارٹی اور اب تحریکِ انصاف کے وزیر۔ بچے کھُچے ارکانِ اسمبلی بھی پیپلزپارٹی، پرویزمشرف اور نوازلیگ سے سمگل شدہ۔ بھان متی کے اِس کنبے سے خیر کی توقع عبث کہ جہاں ذاتی مقاصد کا حصول وجۂ زیست بن جائے، جہاں زورآوروں کے کندھے پر سوار ہو کر آنے والے نشۂ اقتدار میں سُدھ بُدھ گنوا بیٹھیں، جہاں ابدی صداقتوں کو یوٹرن کا لبادہ اوڑھا کر نسلِ نَو کو گمراہ کرنے کی سعی کی جائے، جہاں نفرتوں اور کدورتوں کے اشجار کی صبح ومسا آبیاری کی جائے، جہاں جھوٹ کی کھاد سے ہر فصل اُگائی جائے، جہاں کڑے احتساب کا بہانہ بنا کر اپوزیشن کو نشانہ بنایا جائے اور جہاں حق سرائی کو حماقت اور یوٹرن کو صداقت قرار دیا جائے، وہاں اُمید کے خوشے مرجھا جاتے ہیں، تمناؤں کی شبنم نفرتوں کی آگ سے اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے، آشاؤں کی تتلیاں کدورتوں کے تھپیڑوں سے بکھر جاتی ہیں اور
وہاں فلک پہ ستاروں نے کیا اُبھرنا ہے
ہر اک آنکھ جہاں آنسوؤں کا جھرنا ہے

اب کے چمن کو جو روگ لگا ہے وہ مسیحائی کا طلبگار مگر یہاں صرف قحط الرجال۔ وزیروں مشیروں کے جس ’’کنبے‘‘ سے قوم کا واسطہ ہے، اُس میں جدتِ فکر ہے نہ ندرتِ خیال۔ انقلابِ فرانس سے کچھ پہلے فرانس کی ملکہ نے بدبودار کسانوں کو کہا کہ اگر روٹی نہیں ملتی تو ڈبل روٹی کھا لو۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ اُنہی بدبودار کسانوں نے فرانس کے شاہ لوئی کی کھوپڑی سے پیرس کی گلیوں میں فُٹ بال کھیلا۔ آج پھر ایک با تدبیر نے کہا کہ دو روٹیاں نہیں ملتیں تو ایک کھا لو۔ دوسرا بولا ٹماٹروں کی جگہ دہی استعمال کرو، تیسرے ارسطو نے کہا مہنگائی کا فائدہ بھی ہمارے عوام ہی کو پہنچ رہا ہے کسان بھی تو ہمارے بھائی ہی ہیں، چوتھا گویا ہوا کہ ہیلی کاپٹر کا خرچ پچاس روپے فی کلومیٹر۔ ایک باتدبیر نے مٹر پانچ روپے کلو بتائے اور امپورٹڈ مشیرِخزانہ گویا ہوئے کہ ٹماٹر سترہ روپے کلو۔ قصور اِن کا بھی نہیں کہ جس کے پاس سربراہی وہ کبھی جاپان اور جرمنی کی سرحدیں ملا دیتا ہے اور کبھی یہ فرمان ’’درخت رات کو آکسیجن چھوڑتے ہیں (یہ سُن کریقیناََ عظیم سائنسدانوں کی روحیں اپنی قبروں میں تلملا اُٹھی ہوں گی)۔ اِس ’’ٹولے‘‘ کو دیکھ کر وثوق سے کہا جا سکتا ہے
دور لگے وہ وقت ابھی جب ٹھہری رات کے آنگن میں
پھیکا پڑ کے چاند ہمیں آثارِ سحر دکھلائے گا

 

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 864 Articles with 558020 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More