مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ کسی آدمی کو کوئی دوسرا اگر
لعنت دکھائے تو وہ ‘لعنت زدہ’ آدمی دیگر دیکھنے والوں کو اس بات پہ کیسے
قائل کرسکتا ہے کہ وہ ناہنجار تو دراصل اسے سلام کررہا تھا ۔۔۔ لیکن میں یہ
ضرور سمجھتا ہوں کہ اگراحمقوں کے سر پہ سینگ ہوتے تو یقیناً عمران خان ایک
بارہ سنگھا دکھائی دیتے کیونکہ حیرت انگیز طور پہ میڈیا کے سامنے اپنی
تقریر میں انہوں نے آرمی چیف کی توسیع کے معاملے میں اپنی قانونی ٹیم کو نہ
صرف سراہا ہے بلکہ اسکے لیے نکتہ رسی کے کھولتے کڑھاؤ سے یہ دلیل بھی کاڑھ
لائے ہیں کہ توسیع کی بابت دیئے گئے عدالتی فیصلے میں انکی ٹیم کے خلاف کچھ
نہیں کہا گیا ہے ، گویا عدلیہ کے فرائض کی مد میں انکی سمجھ اس قدر ناقص ہے
کہ انکے خیال میں کوئی عدالتی فیصلہ صرف کسی مقدمے کے نتیجے ہی پہ مبنی
نہیں ہوتا بلکہ اس میں مقدمے کے فریقوں میں سے کسی فریق کے وکل کے خلاف
کوئی مذمتی بیان بھی موجود ہوتا ہے اور چونکہ ان کے اس خود ساختہ مفروضے کے
مطابق ایسا کوئی مذمتی بیان اس فیصلے میں نہیں ہے لہٰذا اسے انکی ٹیم کی
ستائش سے تعبیر کیا جانا چاہیے ۔۔۔ اسی درجے کی ایک دلیل سے متاثر ہوکے ایک
کمزور فٹبال ٹیم کے کپتان نے مضبوط ٹیم سے مقابلہ پڑتے ہی اپنے گول پوسٹ سے
شکاری کتے باندھ دیئے تھے اور دلیل یہ تھی کہ فٹبال کے قوانین میں یہ کہیں
بھی نہیں لکھا کہ گول پوسٹ سے سے کتے نہیں باندھے جاسکتے۔
ہاں تو بات ہورہی تھی وزیراعظم کے اس مفروضے کی کہ جس کی بنیاد پہ قائم
دلیل کی مزید تشریح کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے 29 نومبر کو حکومتی
قانونی ٹیم کی کارکردگی کو نہ صرف قابل ستائش قرار دیا ہے بلکہ یہ تک کہہ
ڈالا کہ انکی قانونی ٹیم نے عدالت عظمیٰ کو مطمئن کرنے میں اہم کردار ادا
کیا اورعدالتی فیصلہ درحقیقت انکی قانونی ٹیم کی کامیابی ہے اور آرمی چیف
جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ دراصل وفاق
پارلیمنٹ اور جمہوریت کی فتح ہے۔۔۔۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انکے حامی چینل اور
اینکر بھی انکی دورکی اس کوڑی سے خوب استفادہ کررہے ہیں اور انکی ٹیم کی
تعریفوں میں داد کے ڈونگرے برسا رہے ہیں ۔۔۔ اب کوئی وزیراعظم کی کرسی پہ
جیسے تیسے پہنچائے گئے اس خوش فہم شخص سے یہ تو پوچھے کہ اسی مقدمے کی
مختلف سماعتوں کے دوران ہی تو عدلیہ نے انکی قانونی ٹیم کی پست کارکردگی کو
نہ صرف شدید تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ یہاں تک کہہ ڈالا تھا کہ آرمی چیف
کی ملازمت کی توسیع کے لیے متعدد بار جاری کیے گئےنوٹیفکیشوں میں موجود پے
در پے قانونی غلطیوں کے ذمہ داروں کی ڈگریاں چیک کی جائیں ۔۔۔ تو پھر تنقید
اور کیا ہوتی ہے اور مذمت کس چڑیا کا نام ہے ؟
مجھے یقین ہے کہ اگر قانون میں کسی وکیل کو اسکی نااہلی کی بناء پہ کمرہء
عدالت میں مرغا بنانے کی سزا کی گنجائش ہوتی تو اسی فیصلے کی سہ پہر فروغ
نسیم ، بابر اعوان اور حکومتی لیگل ٹیم کے دیگر بقراط سپریم کورٹ کے اسی
روم نمبر1 میں مرغا بنادیئے گئے ہوتے کہ جہاں اس مقدمے کی سماعت ہوئی تھی –
یہاں یہ کہنا بھی بیجا نہیں کہ ویسے تو غلط فہمیوں کی کوئی حد نہیں ہوتی
لیکن بہرحال خوش فہیوں کے گھوڑے کو کو لگام دینا بھی بہت ضرور ہوتا ہے اگر
انکے عدلیہ کے ان نہایت سخت ریمارکس کے بعد بھی اگر کوئی وزیراعظم یہ
سمجھتے ہیں کہ انکی قانونی ٹیم بہت لائق و فائق افراد پہ مشتمل ہے تو ایسی
شہکار سمجھ کو صرف اسی تاریخی مراثی لطیفے کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے کہ
ایک گاؤں کے میراثی کا بیٹا دبئی گیا اور خوب مال کما کے لوٹا اور اس نے
اپنے باپ کو گاؤں کے چوہدری کی حسین و جمیل بیٹی کا رشتہ مانگنے کو کہا،
باپ نے بہت ٹال مٹول کی مگر بیٹا بضد تھا، چار و ناچار باپ کو چوہدری کے
پاس جانا پڑا، جہاں چوہدری نے اسکا خیر مقدم تو ضرور کیا مگر جب اسنے اپنے
بیٹے کا رشتہ دیا تو۔ چوہدری نہایت غضبناک ہوگیا اور اسنے آناً فاناً
میراثی کو کئی تھپڑوں اور بیشمار گھونسوں سے نواز دیا ۔۔۔ جب خود تھک گیا
تو نوکروں کی باری آئی ، جنہوں نے اسکی خوب پٹائی کی۔۔۔ پھر چوہدری نے غصے
سے چیختے ہوئے کہا، یہاں سےدفع ہوجاؤ ۔۔۔۔ میراثی چوٹیں سہلاتا اپنے کپڑے
جھاڑتا ہوا بمشکل اٹھا، اور چوہدری کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے
پوچھا، “چوہدری جی! تو پھر کیا میں رشتے سے انکار سمجھوں؟ “
|