عمران خان کا نام ہمیشہ دنیا ئے کرکٹ کے درخشندہ ستاروں
میں رہے گا ، اگرچے ان ستاروں میں وسیم اکرم اور شاہد آفریدی بھی کرکٹ کی
شہرت میں بلند مقام رکھتے ہیں۔عمران خان کی 22 سالہ سیاسی جدوجہد کو اگر دو
جملوں میں سمویا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ (1۔ امیر اور غریب کے لیے ایک
قانون ہوگا ، 2۔ اداروں کی کرپشن ختم کریں گے ، روزگا ر کے مواقع پیدا کریں
گے،اورلوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کریں گے )۔مگر اب تک ایسا لگا جیسے خان
صاحب کے تمام خواب ایک ایک کر کے چکنا چور ہو رہے ہیں۔عمران خان کی چند
بنیادی غلطیاں جو انہوں نے حکومت سنبھالتے ہی دہرا دیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے چھیڑ
خانی کرتے ہوئے سی پیک منصوبوں کی نظرثانی کرنے پر تقاریر داغ ڈالیں ۔
کرپشن پکڑنے کے چکر میں اپنی ہی چادر کو تاراج کر دیا اور اپنے نوعمر آتش
جوانوں کو تازہ دم اپوزیشن کے منجھے ہوئے سیاستدانوں کے پیچھے لگا دیا اور
کہا کہ ان کو صحیح کر کے لتاڑو تاکہ انہیں چَھٹی کا دودھ یا دآجائے۔ اپنے
الیکٹ ایبلز کو گروپنگ اور وزارتیں انجوائے کرنے پر لگا دیا۔ صوبہ میں بولے
بھالے بادشاہ بٹھا دیے جبکہ انکی فہم وفراست اور سمجھدانی کی زیادتی کی وجہ
سے انہیں کبھی فیاض الحسن، کبھی شہباز گل اور کبھی عثمان بسرا جیسے چرب
زبان ترجمانوں کے جھرمٹ میں بٹھا دیا اوراب ایک پھر سے فیاض الحسن چوہان کو
اطلاعات کا قلم دان سونپ کر ٹویٹر کے باہر کے میدان پر فردوس عاشق اعوان
کیسا تھ بٹھا دیا۔ حالانکہ صمصام بخاری اس وزارت کے لیے دی بیسٹ امیدوار
تھا۔
الیکن کمیشن ، نیب اور ایف آئی اے پر الزامات لگانے والے عمران خان اب خود
اداروں کے تقدس کو پاما کرتے نظر آتے ہیں۔ پہلے کے پی سے نیب کو فارغ کیا
اور اب کافی عرصے سے وفاقی محتسب ادارے کے پیچھے پڑھ گئے ہیں۔ پہلے ایف آئی
اے کو ایکشن لینے کا کہتے تھے اور جب اپنی حکومت آئی تو جج ارشد ملک ویڈیو
سکینڈل میں پچھلے چھ ماہ سے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو جج ارشد ملک کی
تحقیقاتی ٹیم کو تبدیل کرنے کے لے دباؤ بڑھا رہے تھے اور بالاآخر بشیر میمن
کو ریٹایئرمنٹ سے 16 دن پہلے استعفی دینا پڑا۔ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف
پر کرپشن، بد عنوانی اور دھونس دھاندلی کے الزامات لگانے والی تحریک انصاف
کی وفاقی حکومت صوبائی معاملات میں کافی پریشان دیکھائی دیتی ہے۔ کے پی میں
آپ مشاہدہ کریں تو آپ کو کسی قسم کے کوئی نیا پراجیکٹ، سکیمیں یا بہتری کی
کوئی امیدیا خبر نظر نہیں آتی ۔ عمران خان کے دوست مراد سعید وزیر کم کے پی
کے چیف منسٹر زیادہ نظر آتے ہیں۔ یہی حال پنجاب کا ہے جہاں بزدار کو
بیوروکریسی کے جال میں پھنسا دیاگیا ہے اور پنجاب میں عملاََ تین چار
وزرائے اعلیٰ نظر آتے ہیں۔
عوام کے بھرپور اسرار پر خفت کو مٹانے اور پنجاب کی حکومت کو بچانے کے لیے
عمران خان نے عقلمندانہ فیصلہ کیا ہے اور شہباز شریف کے تمام تر بیت یافتہ
بیوروکریٹس کو جو کے لیاقت اور پروفیشنل ازم کے اعلی معیار پر فائز ہیں
جنہیں بزدار نے سائیڈ لائن کر دیا تھا انہیں اہم ترین عہدے سونپ دیے ہیں۔
یہ وہی افسران ہیں جنہیں وزیراعظم عمران شدید بہتان تراشی کے ذریعے شہباز
شریف کے من پسند افرادقرار دیتے تھے ۔ اور جن دنوں احد چیمہ کو گرفتار کیا
گیا اور بیوروکریٹس نے کام کرنا چھوڑ دیا تو عمران خا ن نے کہا تھا کہ ان
بیوروکریٹس کو اندر کردینا چاہیے لیکن اب عمران خان کو پتہ چلا ہے کہ پنجاب
کا نظام چلانے کے لیے منجھے ہوئے بیوروکریٹس کی ضرورت ہے جو کہ پنجاب کو
اپنے پاؤں پر کھڑا کرسکیں جس کے لیے عمران خان نے شہباز شریف کے فرنٹ مینز
کو ہی چیف منسٹر پنجاب کا چیف سیکرٹری، سیکرٹری کمیونیکیشن اور ورکس ،ایڈیشنل
چیف سیکرٹری ، پرنسپل سیکرٹری، سیکرٹری پلاننگ، کمشنر لاہور، ڈی پی اوز،
سیکرٹری فنانس اور ڈسٹرکٹ کوارڈی نیشن آفیسرز لگا دیا ہے جن میں قابل
بھروسہ افراد اعظم سلیمان ، کیپٹن اسد اﷲ، شوکت علی ، افتخار ساہو، محمود،
آصف محمود، مومن آغا، عبد اﷲ ، سنبل اعوان اور دیگر دوسرے بیورکریٹس شامل
ہیں۔یاد رہے مندرجہ بالا بیوروکریٹس پر عمران خان نندی پورپاور پراجیکٹ
سکینڈل اور سانحہ ماڈل ٹاؤن اور دیگر سنگین الزامات عائد کرتے رہے۔
بات یہ ہے کہ کرسی کے حصول کے لیے صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا نہیں
چھوڑنا چاہیے کیوں کہ انسان کی گریس یہی ہوتی ہے کہ وہ حق پر ڈٹ جاتا ہے
پھر چاہیے کچھ بھی ہو جائے۔موٹر ویز، ہائی ویز، سیف سٹی پراجیکٹ ، ویسٹ
مینجمنٹ جیسے شاندار منصوبوں پر تنقید تو ہوئی مگر ایسا منصوبہ دینے کے لیے
محنتی ٹیم اور دماغ چاہیے اس لیے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تنقید برائے تنقید
سے پشاور بی آر ٹی والا حال ہو جاتا ہے اور بندہ قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا
کرنے کے بجائے احساس پروگرام (لنگر خانے و پناہ گاہ) جیسے پبلسٹی پراجیکٹس
پر ڈال دیتا ہے ۔حکومتی پاور فل ذرائع کے مطابق اس وقت حکومت بیرونی سے
زیادہ اندرونی خلفشار کا شکار ہے جس میں گروپنگ ، تنقید برائے تنقید، الیکٹ
ایبلز کی آپس کی رنجشیں شامل ہیں۔ محترم وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ
مجبور ی محض کے خول سے خود کو باہر نکالیں اور غریب و امیر کی یکساں نظام
زندگی لانے کے لیے یکسو ہو جائیں اور کرسی چھن جانے کے خوف سے خود کو قوم
کا مسیحا اور ہیرو بننے سے نہ روکیں۔
|