مہاراشٹر میں اجیت پوار کی پر اسرار کی حلف برداری سے تین
دن قبل شردپوار دہلی تو پہنچے تو نامہ نگاروں نے ان سے حکومت سازی کے بارے
میں سوال کیا اور اس کا حیر ت انگیزجواب یہ آیا کہ بی جے پی اور شیوسینا
اتحاد نے انتخاب جیتا ہے اس لیے یہ سوال ان سے کیا جائے ؟یہ جواب کرکٹ کے
’بمپر‘ گیند کی مانند تھا جو سروں کے اوپر سے نکل گیا ۔ اس کی توقع کسی کو
نہیں تھی لیکن پھر سوال ہواکہ آپ سونیا گاندھی سے کیوں ملے؟ اب جواب ملا
کہ وہ خیر سگالی کی غیر سیاسی ملاقات تھی۔ یہ ’ یارکر‘ گیند تھی جو بڑی
سرعت سے ایک جانب نکل گئی۔ بی جے پی کے بہی خواہوں خوش فہمی کا شکار ہوگئے
کہ بات بگڑ گئی ہے اور سنجے راوت نے یہ کہنا پڑا کہ شرد پوار کی باتوں کو
سمجھنے کے لیے تمہیں دس جنم لینے پڑیں گے۔ یہی فقرہ وزیر اعظم پر اس وقت
صادق آگیا جب مودی جی نے اشتراک عمل کی پیشکش کرتے ہوئے سپریا سولے کے لیے
مرکز میں وزارت کی تجویز رکھی ۔ شردپوار نے اسے بڑے وقار سےٹھکرا دیا یہ
مودی جی کی نجی توہین تھی مگر ٹیلیویژن چینل پر اس راز کو فاش کرکے شردپوار
نے وزیراعظم کا بھری محفل میں وستر ہرن کردیا۔
شردپوار کو یہ راز افشاء کرنے پر بھکتوں کی افواہ سازی نے مجبور کیا۔ انہوں
نے پہلے تو یہ مشہور کیا کہ شردپوار کو صدارت کے عہدے کی پیشکش کی گئی اور
اس لیے انہیں کے ایماء پر اجیت پوار نے حلف برداری کے لیے رضامندی ظاہر کی
۔ اس کے بعد یہ کہانی بنائی گئی کہ شردپوار نے جان بوجھ کر اجیت پوار کو
ایک سازش کے تحت بی جے پی میں بھیجا تاکہ وہ اپنے اوپر لگنے والے بدعنوانی
کے الزامات سے بری ہوجائیں ۔ ان قیاس آرائیوں کی حقیقت یہ ہے کہ این سی پی
کے ارکان اسمبلی آپس میں کہا کرتے تھے کہ سینا اور کانگریس کے بجائے بی جے
پی کی حکومت میں شامل ہوجانا چاہیے۔اجیت کو یہ توقع تھی کہ ان کے حلف لے
لینے پر وہ تمام لوگ بی جے پی کی حمایت میں آجائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ان لوگوں نے اقتدار پر وفاداری کو ترجیح دی ۔ اس لیے کہ انہیں اپنے رہنما
پر اجیت پوار اور بی جے پی سے زیادہ اعتماد تھا اور شردپوار اس پر پورے
اترے۔ اجیت دادا جب تنہا ہوگئے تو نادم و شرمندہ پارٹی میں لوٹ کر معافی
مانگ لی اور انہیں معاف کر کے معاملہ رفع دفع کردیا گیا ۔
یہ سادہ سی کہانی بڑی آسانی سمجھ میں آجاتی ہے لیکن اس میں ٹوئسٹ (twist)
اس وقت آگیا جب ۲۳ نومبر ۲۰۱۹ کی صبح اخبارات صفحات کچھ اور کہہ رہے تھے
اور ٹیلی ویژن کا پردہ اس سے مختلف مناظر دکھا رہا تھا۔ اس رات کے واقعات
نے اخبارات کے ساتھ عوام اور سیاسی مبصرین کو چکما دے دیا تھا۔ وہیں سے طرح
طرح کی قیاس آرائیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیاکیونکہ جو کوئی بھی دماغ
پر زور ڈالتا، ایک نیا جواز اس کو سجھائی دے جاتا ۔ کوئی اس کو قلمبند
کردیتا تو کوئی فلمبند کردیتا۔ آج کل جتنا کچھ صفحۂ قرطاس پر پڑھا جاتا
ہے اس سے زیادہ موبائل کے پردے پر دیکھا اور سنا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۴
نومبرکی صبح یہ خوشگوارلطیفہ واٹس ایپ اور ٹوئیٹر پر گردش کرنے لگا کہ
اٹھیے اور کام میں لگ جائیے ۔ آج کی رات کوئی ناخوشگوار سانحہ رونما نہیں
ہوا۔ ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۲۳ جنوری کو صبح دم شب خون
مارنے کی مجبوری کیوں پیش آئی ؟ یہی سوال سارے فتنہ و فساد کی جڑ ہے۔ اس
کے جواب میںیار دوستوں نے افواہوں کا انبار لگا کر رائی کا پہاڑ بنادیا ۔
اس سوال کا اصل جواب ۹ نومبر(۲۰۱۹) کو حکومت سازی کرنے کے بجائے وزیر
اعلیٰ دیویندر فردنویس کے استعفیٰ میں ہے ۔۲۰۱۴ کی طرح سابق وزیراعلیٰ
دیویندر فردنویس سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے اپنا دعویٰ پیش فرما کر
شیوسینا کو بڑے آرام سے اپنی حمایت کے لیے راضی کرسکتے تھے ۔ ہریانہ میں
اگر بی جے پی کے لیے اپنے نظریاتی مخالف جے جے پی کے ساتھ مصالحت ممکن ہے
تو مہاراشٹر میں اپنی حلیف کے ساتھ کیا مشکل تھی ؟ دیویندر فرد نویس بار
بار یہ بات دوہراتے ہیں کہ شیوسینا نے یہ کیوں کہا کہ ہمارے لیے سارے
امکانات کھلے ہیں ۔ سیاست کے بازار میں تو یہ ہر کوئی کہتا ہے۔ ہریانہ کے
نائب وزیراعلیٰ دشینت چوٹالا نے تو کانگریس سے مول بھاو بھی کرلیا تھا لیکن
اس کو نظر انداز کرکے انہیں اپنے سایۂ عافیت میں لے لیا گیا ۔ اسی طرح کا
رویہ سابق ہندوتوادی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ اختیار کیا جاسکتا تھا ۔
اس طرح کی سب سے بڑی مثال تو بہار ہے ۔ وہاں پر ۲۰۱۶ میں عین صوبائی
انتخاب سے قبل نتیش کمار نے بی جے پی سے غداری کرتے ہوئے آر جے ڈی کے ساتھ
مل کر حکومت بنائی ۔ کانگریس اور آر جے ڈی کے مہا گٹھ بندھن میں شامل ہوکر
بی جے پی کے خلاف نہ صرف انتخاب لڑا بلکہ اسے دھول چٹائی ۔ الیکشن کے بعد
اپنے حامیوں کی مدد سے حکومت بنائی ۔ اس کے باوجود بی جے پی نے نتیش کمار
کے ساتھ عفو و درگذر کا معاملہ کرکے حکومت بنائی۔ قومی انتخاب میں ۲ نشستوں
پر کامیاب ہونے والی جے ڈی (یو) کو اٹھارہ نشستوں پر لڑنے کا موقع دیا اور
خود ۲۲ پر کامیاب ہونے کے باوجود ۱۸ پر آگئی ۔ بہار میں اگر نتیش کے اس
قدر ناز و نخرے اٹھائے جاسکتے ہیں تو مہاراشٹر میں ادھو کے کیوں نہیں؟ اس
سوال میں اتھل پتھل کا جواب پنہاں ہے۔
مہاراشٹر کے اندر جس وقت غیر بی جے پی حکومت سازی کے امکانات پر گفتگو کا
آغاز ہوا تو اس کے مخالف طبقہ کا اعتراض یہ تھا کہ کیا اسی لیے مسلمانوں
نے کانگریس اور این سی پی کو کامیاب کیا تھا کہ وہ شیوسینا کی گود میں جاکر
بیٹھ جائے؟ اس کے حامیوں کو پریشانی یہ تھی کہ حمایت کا خط دینے میں تاخیر
کیوں ہورہی ہے۔ کانگریس اور این سی پی کے حا می ایک دوسرے کو تاخیر کے
لیےموردِ الزام ٹھہرا رہے تھے اور اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے فریق دیگر پر
بی جے پی کی پسِ پردہ حمایت کا بہتان بھی لگا رہے تھے۔ یہ حکومت اگر
۱۰نومبر کو ہی بن جاتی تو اسے بہ آسانی نظریات سے عاری ایک موقع پرست غیر
بی جے پی اتحاد کا نام دیا جاسکتا تھا ۔ بعید نہیں کہ فوراً ہی عہدوں اور
مختلف مسائل پر متضاد موقف سامنے آنے لگتے اور سنگھ پریوار کو ذرائع ابلاغ
میں جگ ہنسائی کرنے کا موقع میسر آجاتا۔
وقت جیسے جیسے گزرتا گیا عوام کی سمجھ میں یہ بات آ تی چلی گئی کہ اس کھیل
میں کانگریس اور این سی پی جاکر شیوسینا کی گود میں نہیں بیٹھے بلکہ انہوں
نے شیوسینا کو اپنے نرغے میں لے لیا ہے ۔ اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ مہا
شیو اگاڑھی کے نام سے شیو کو ہٹا کر وکاس کو شامل کیا گیا۔ یہ ایک اہم
علامتی تبدیلی تھی ۔ اس معاملے میں جلدبازی کرنے کے بجائے اطمینان سے کم از
کم مشترکہ اتفاق رائے(کامن منیمم پروگرام )پر رضامندی بنا کر پیش آئندہ
تصادم کو روکنے کی سعی کی گئی۔ مشترکہ پروگرام میں سے نزاعی مدعوں سے ہٹ کر
عوام کے بنیادی مسائل کواہمیت دی گئی۔ تصور کریں کہ اگر شیوسینا اور بی جے
پی کی حکومت بنتی تو کیا اس تقریب کا خاتمہ رام مندر، دفع ۳۷۰ اور این آر
سی کے ذکر شر کے بغیر ہوسکتا تھا ۔ اس دوران اطمینان سے وزارتوں اور عہدوں
کا تصفیہ کرلیا گیا۔ تاخیر کی یہ حکمت اب جاکر لوگوں کے سامنے آئی اور
وشواس گھات کا نعرہ لگانے والے ازخود خاموش ہوگئے۔
آج کل واٹس ایپ پر ایک لطیفہ گردش کررہا ہے جس میں شرد پوار یہ کہتے نظر
آتے ہیں تم نے ہمارے آدمی توڑے ہم نے تمہارا حلیف توڑ لیا۔ بات صرف حلیف
چھیننے تک محدود نہیں ہےکیونکہ یہ صرف بی جے پی کی نہیں بلکہ ہندوتوا کی
شکست ہے۔ بی جے پی اگر این سی پی مدد سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتی اور
پھر رام مندر وغیرہ کے مسائل اچھالتی تو وہ ہندوتوا کی بہت بڑی فتح ہوتی
لیکن اس کے برعکس شیوسینا کاان جذباتی نعروں کو تج کر عوام کی فلاح بہبود
کی جانب متوجہ ہونا ہندوتوا کی شکست ہے۔ حلف برداری کی تقریب میں جن اہم
شخصیات نے شرکت کی ان میں سب سے اہم اور اس حکومت کے سوتر دھار مہاراشٹر کے
مرد آہن شرد پوار تھے۔ ان کے علاوہ کانگریس کے سینئر رہنما احمد پٹیل ،
ملکارجن کھڑگے ، کپل سبل ، ابھیشیک منوسنگھوی ،این سی پی رہنما ءسپریہ
سولے، اجیت پوار ، نواب ملک ، پرفل پٹیل ،سماج وادی پارٹی کے ابوعاصم اعظمی
، رئیس شیخ ،شیو سینا کے سابق وزیراعلیٰ منوہر جوشی ،سابق وزیراعلیٰ
دیویندرفردنویس ، مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ کمل ناتھ، ڈی ایم کے ایم کے
اسٹالن، ایم ڈی ایم کے بالو، بی جے پی کے ریاستی صدر چندرکانت پاٹل اور
دیگر رہنما وں کی موجودگی نے اس تقریب کو یادگار بنادیا۔
اس موقع پر ایشیا کے امیر ترین صنعت کار مکیش امبانی اور ان کی اہلیہ نیتا
امبانی بھی اپنے بیٹے اننت امبانی ساتھ ڈائس پر موجود تھے۔ یہ ہوا کے رخ کی
تبدیلی کا ایک ہلکا سا اشارہ ہے۔ مکیش امبانی اور ادھو ٹھاکرے کے تعلقات
ہمیشہ ہی اچھے رہے ہیں لیکن پارلیمانی انتخاب میں امبانی نے کانگریس کے
امیدوار ملند دیورا کی حمایت کرکے شیوسینا کو ناراض کردیا تھا۔ ویسے سرمایہ
داروں کو سیاستدانوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں وقت نہیں لگتا۔ حلف
برداری کے بعد ادیتیہ ٹھاکر ے نے مکیش امبانی سے گلے مل کر سارا گلہ شکوہ
ختم کر دیا۔ اس تقریب میں امبانی سے بھی زیادہ چونکا نے والی شخصیت راج
ٹھاکرے کی تھی ۔ یہ وہی راج ٹھاکرے ہے جو اپنے چچا بال ٹھاکرے کی مانند
تقریر میں آگ اگلتے ہیں ۔ ایک زمانے میں انہیں بالا صاحب ٹھاکرے کا جانشین
سمجھا جاتا تھا لیکن سریش کنی قتل کے معاملہ نے بازی الٹ دی۔ ادھو اور راج
کی موجودہ حالت پر احمد فراز کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
ادھو ٹھاکرے نےاگر اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے راج ٹھاکرے سے اختلافات
ختم کرکے ان کو گلے لگا لیا اور مہاراشٹر نو نرمان کو شیوسینا میں شامل
کرلیا تو یہ دونوں کے حق میں بہترہو گا ۔ وہ ایک بہت ہی طاقتور علاقائی
پارٹی بن کر ابھر سکیں گے ۔ راج کا انجن شیوسینا کے لیے نئی توانائی کا سبب
بن سکتاہے۔ این سی پی کے لیے بھی اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر
کانگریس میں ضم ہونے کا اس سے بہتر موقع پھر نہیں آئے گا لیکن اس کے لیے
کانگریس کو کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرد پوار کو اپنی مرکزی کمیٹی
میں بڑا عہدہ دینا ہوگا۔ اسی کے ساتھ ان کو مہاراشٹر میں کام کرنے کی کھلی
چھوٹ بھی دینی پڑے گی ۔ شرد پوار پھر سے اپنی مہارت اور یکسوئی کا لوہا
منوا چکے ہیں ایسے میں اگر کانگریس نے ان پر اعتماد کیا تو کم از کم
مہاراشٹر کی حدتک بی جے پی سکرات کے عالم میں چلی جائے گی۔ اس اتحاد کے بعد
بی جے پی میں جانے والے سارے اقتدار کے حریص گھر واپسی کرلیں گے اور سیاسی
منظر نامہ بدل جائے گا ۔ اجیت پوار کومعتوب کرنے کے بجائے اس سے عفو و
درگزر کا معاملہ کرکے شرد پوار نے ایک مثبت پیغام دیا ہے۔ |