عوامی مسائل اور نام نہاد جمہوریت

موجودہ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کے سبب مہنگائی کی شرح میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جو کہ پانچ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جبکہ دوسری جانب گورنر سٹیٹ بینک کا کہنا ہے مہنگائی بڑھی تو ہمیں بھی شرح سود میں اضافہ کرنا پڑا اگر زر مبادلہ کے ذخائر کم نہ ھوئے اور اگر حکومت نے مرکزی بینک سے قرضے نہ لئے تو بچت و سرمایہ کاری کا حجم بڑھ سکتا ہے جو کہ مستقبل میں آئی ایم ایف سے چٹھکارہ دلا سکتا-

دوسری جانب پاکستان کے سیاسی اور عدالتی ماحول میں ان دنوں بہت ہل چل دیکھنے کو مل رہی ھے اور شائد یہ ہی وجہ ھے کہ اس وقت ہمارا نظام دو طبقات میں تقسیم نظر آتا ھے۔ ایک طبقہ فکر اس وقت موجودہ صورت حال بلکل پریشان اور دلبرداشتہ نظر آتا ھے تو دوسری جانب دوسرے طبقہ فکر کا خیال ھے کہ یہ جو کچھ بھی ھو رہا ھے یہ اصطلاحات کی جانب پیش قدمی کے عمل کا حصہ ھے۔ لیکن بد قسمتی سے ھمارا سیاسی اور معاشرتی نظام قیام پاکستان سے ہی بے پناہ مسائل اور تبدیلیوں کا شکار رہا ھے جو کہ اس کے غیر مستحکم ھونے کی بڑی وجہ ھے۔۔

اس وقت ملک کا سیاسی نظام جن مشکلات اور پچیدگیوں کا شکار ھے اس کی سب سے بڑی وجہ فوجی آمریت کا زیادہ عرصہ تک کا قیام اور دوسری جانب ٹیسٹ ٹیوب جمہوریت ہے جس کی وجہ سے نہ تو حقیقی قیادت سامنے آئی اور نہ ہی جمہوری رویے پروان چڑھ سکے۔ گزشتہ 12 سال کی لولی لنگڑی جمہوریت سے اور نہیں تو کم از کم سیاستدانوں کے اصلی چہرے کھل کر سامنے آئے جو ہمیشہ ملکی مفاد پہ ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے رہے ھیں وہ نہ صرف سیاسی طور پر نا بالغ ثابت ھوئے ہیں بلکہ نا اہل بھی اسکی وجہ ان کے غیر زمہ درانہ بیانات ہیں جو کہ ملکی سطح پرشر مندگی کا باعث ہیں دن بدن نہ صرف عوام بلکہ حکومت کے لئے مسائل کا سبب بن ریے ہیں۔دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کی غیر جانبداری پہ بھی سوالات اٹھنے لگے ھیں جو کہ مجھ سمیت تمام صحافی برادری کے لئے لمحہ فکریہ ھے۔۔ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کے ادارے غیر جانب دار اور مستحکم نہ جا ئیں۔اور بد قسمتی سےملک کا کوئی بھی ادارہ اس وقت اپنی سمت میں صحیح کام کررہاہو یااسے تسلی بخش قرار دیاجا سکے اس سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے آمریت کے دور میں جتنا نقصان ہوا جس کا ازالہ شائد ہم آنے والے 20 سالوں میں بھی نہ کر سکیں اگر ہم اپنے ملک کے وسائل کی طرف نظر دوڑائیں قدرت نے ہمیں بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے اس میں سے ایک سی پیک کی صورت میں ہمارے سامنے ھے جو کہ آج بھی مغرب کی دل و دماغ میں کھٹک رہی ھے اور اگر یہ ہی سیاسی انتشار کی صورت حال رہی تو شائد ہم اس سے بھی پوری نہ مستفیض ھوں پائیں وزیر اعظم عمران خان تبد یلی کے جس نعرےکے ساتھ اقتدار میں آئے تھے اور جو جو انہوں نے قوم سے وعدے کیے تھے کنٹینر پہ اپنی الیکشن مہم میں وہ اس پورا کرنے میں اب تک مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں اب انہیں سمجھ جانا چاہیے کہ جمہوریت کبھی ھبی سیاسی نعروں سے پروان نہیں چڑھتی بلکہ جمہوری رویوں سے پروان چڑھتی ہے۔ اب انہیں اپوزیشن والے کنٹینر سے اتر کر حکومتی سطح پر سوچنا اور عملی طور کر کہ دکھانا ھو گا کیونکہ وہ اب حکمران جماعت کے نہ صرف لیڈر ھیں بلکہ پرے ملک کے لیڈر ھیں انہیں اس بات کو سمجنھا پڑے گا جمہوریت صرف قرار داد جمع کروانے کا نام نہیں ھے بلکہ جمہوری رویوں کو اپنانے کا نام ھے-

دن بدن بڑھتی مہنگائی عوام میں مسلسل مایوسی کا سبب بن رہی ہے جو کہ حکومت کے لئے مزید مشکلات میں اضافہ کی وجہ بن سکتی ہے کیونکہ موجودہ حکومت تبدیلی کے جس نعرہ کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی اب تک عوام کی تواقعات پہ پورا اترنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔جس کا وجہ موجودہ حکومت کی آئے دن وزراء ٹیم میں تبدیلیاں اور نا تجربہ کار اور سیاسی طور پر نا ۔حکومتی کارگردگی کا اگر یہی تسلسل جاری رہا تو اس سے حکمران جماعت کے لئے نہ صرف مشکلات میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے بلکہ مستقبل میں تحریک انصاف کی حکومت کے لئے ایک بھیانک خواب سے کم ثابت نہ ہو گا اب ایسے حالات میں حکومت کو اپنی کادگردگی پر دھیان دینا ہو گا اور ایک بار پھر کارگردگی کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہو گا اپنی جماعت کے اندر پائے جانے والے اختلافات کو بھلا کرعوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کریں اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیں جو کہ جمہوری حکومت کی اولین زمہ داری ہے اور ایسی پالیسی مرتب کریں جس سے مہنگائی پہ قابو پایا جا سکےاور عام آدمی کے حالات زندگی بہتر ہوں۔
 

Dr Bilal Bukhari
About the Author: Dr Bilal Bukhari Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.