آج کل تین نام خوب چرچا میں ہیں۔’ساورکر‘ جن کے نام
میں ’ویر ‘بھی لگا ہے اور ان کا شاگرد یا منظور نظر’ناتھو رام گوڈسے
‘۔گوڈسے اور ویر ساورکرکے آپسی رشتوں کے بارے میں مجھے کچھ نہیں کہنا
ہے’مسٹر کولنس اور نیپئر‘ نے اپنی کتاب ’فریڈم ایٹ مِڈ نائٹ‘میں جو کچھ
کہنا تھا کہہ چکے ہیں ۔ ان دونوں کے علاوہ تیسری شخصیت ہے سردار پٹیل۔یہ
سچی بات ہے کہ مجھے سردار جی کا نام ان لوگوں کے ساتھ لکھنے میں بڑی ہمت
جٹانی پڑی ہے ، جھوٹ کی رسی بٹنے میں بھکتوں کا کوئی ثانی نہیں۔وہ کہتے ہیں
ویر ساورکر اتنے ویر تھے کہ ’بھارت رتن‘ ان کے لیے محفوظ رکھا ہوا ہے۔اور
اگلے پڑاؤ تک گوڈسے کو بھی نیک نام کر ہی دیں گے،ان کے نظریات کو گاندھی کے
پرانے نظریات سے بدل دیں گے لیکن اگر لوگ چاہیں گے تو ان کے فوٹو نوٹوں پر
چھپتے رہیں گے۔اس سے زیادہ ان کو کوئی حق بھارت پر نہیں ہے۔آخر دوسروں کو
بھی موقع ملنا چاہئے۔بھارت کے لیے ’ڈیڈی ‘ ٹرمپ‘ کی مہربانی سے تو مل ہی
گئے ہیں۔
یہ بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ کوئی کھلے آسمان کے نیچے دھوپ میں کھڑا ہو
اور سرپر کوئی سایہ نہ ہو۔ 2سے 303 ہو گئے ۔نسل آگے بڑھی ہے لیکن پیچھے صرف
کورا کاغذ ہے۔اس کورے کاغذ پر کچھ نہیں لکھا جا سکتا ہے لیکن چوری کر کے
دیدہ دلیری ضرور کی جا سکتی ہے کہ فلاں شخص ہمارا تھا لیکن وہ لوک لاج کی
وجہ سے فلاں پارٹی میں چلا گیا تھا۔کچھ یہی جذبہ حکمراں پارٹی کا سردار
ولبھ بھائی پٹیل جی کے لیے بھی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ چونکہ ان کے نظریات
پنڈت جواہر لعل نہرو سے نہیں ملتے تھے اس لیے سردار صاحب ہمارے ہیں۔تھوڑ ی
دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ دونوں شخصیات کے نظیریات نہیں ملتے تھے تو اس
کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ سردار صاحب کے نظریات گولوالکر سے ملتے تھے؟ اگر
ایسا ہوتا تو ٹائمس آف انڈیا ۲۷؍اکتوبر۲۰۰۹ء کے مطابق آر․ایس․ایس․ کے
ہیڈکوارٹر پرسردار پٹیل مخالف کتابیں فروخت نہ ہوتیں۔آر․ایس․ایس․کے بہت ہی
اہم مصنف ’سشادری‘ نے اپنی ایک کتاب میں بھارت کی تقسیم کا ذمہ دار سردار
پٹیل کو ٹھہرایا ہے۔اس کتاب کی کئی ہزار کاپیاں آر․ایس․ایس․کے ہیڈ کوارٹر
پر ۲۰۰۹ء تک فروخت ہوئی ہیں۔
ذرا پچھلا وقت یاد کریں! جب سردار پٹیل نے سنگھیوں پر پابندی لگائی تھی تو
سب سے زیادہ سنگھی سردار پٹیل کو دشمن مانتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ سردار
صاحب کے آخری سفر میں گولو الکر،ساورکر،ڈاکٹر مکھرجی،دین دیال اپادھیاے
وغیرہ اور ہندو مہاسبھائی شامل نہیں ہوئے تھے۔ مہاتما گاندھی کے قتل کے
بعدآزاد بھارت میں وزیر داخلہ سردار پٹیل نے آر․ایس․ایس․پر پابندی لگا ئی
تھی۔سردار پٹیل نے ڈاکڑمکھرجی اور گووالکر کو لکھے ہوئے خطوط میں صاف طور
سے یہ لکھا ہے’’سنگھیوں کے ذریعہ ملک میں پھیلائی گئی فرقہ وارانہ نفرت کے
نتیجہ میں ہی گاندھی جی کا قتل ہوا‘‘،اور اب یہ کہتے ہیں کہ سردار پٹیل
ہمارے ہیں۔جو ابھی تک غیر تھا اس کو اپنا کہنا بڑے وصف کی بات ہے اور اگر
یہی بات عام ہو جائے تو بھارت جنت نشاں بن جائے۔
لیکن ان کو ایک خاص فرقہ سے ہی بغض نہیں ہے بلکہ اپنو ں پربھی نالاں
ہیں۔ایک بزرگ صحافی جناب حفیظ نعمانی صاحب اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں
’’ٹائمس آف انڈیانے ان کے ایک مضمون کے حوالہ سے بتایا ہے کہ یہ وہی ہیں
جنہوں نے ہندوتوکی اصطلاح رائج کی تھی اور وہی ہندوتو کے نظریہ کے بانی
ہیں۔یہ و ہی اصطلاح ہے جسے بی․جے․پی․نے اپنی آئڈیالوجی کا درجہ دے رکھا
ہے۔ویر ساورکر ہندو مہا سبھا کے صدر بھی رہے ہیں ۔1930میں ایک مراٹھی رسالہ
میں ایک مضمون شائع ہوا تھاجس میں کہا گیا تھا جو گائے کو ماں سمجھے حقیقت
میں وہی ہندو ہے۔ ہندو کی اس تعریف پر ساورکر نے سخت اعتراض کیا تھا اور
کہا تھااگر گائے کسی کی ماں ہو سکتی ہے تو وہ صرف بیل ہے، ہندو
نہیں۔ویرساورکرنے گائے کو مقدس سمجھ کر اس کی پوجا کرنے والوں پر بھی سخت
اعتراض کیا تھا۔1989میں ہندوتوکو آئڈیالوجی کا درجہ دینے والے ویر ساورگائے
کی پوجا کے سخت خلاف تھے لیکن وہ گائے کو انتہائی مفید جانور قرار دیتے
تھے۔گائے کی پوجا کوبھولا پن قرار دے کر اس کی پوجا کو ترک کرنے پو زور دیا
تھا۔ساورکر جی نے کہا تھا کہ اس سے زیادہ مذہب کی توہین کیا ہوگی کہ لوگ یہ
سمجھیں کہ 33کروڑ دیوی دیوتا گائے کے پیٹ میں گھسے ہوئے ہیں۔
اٹل بہاری واجپائی کی سربراہی میں تین باربی․جے․پی․کی حکومت بنی اور مودی
جی کی سربراہی میں دو بار۔بہت سے صوبوں میں بی․جے․پی․کی حکومت پہلے بھی رہی
اور اب بھی ہے لیکن کسی بھی سرکاری منصوبوں کا نام ساورکر جی کے نام پر
نہیں رکھا گیاجبکہ کئی منصوبوں کا نام دین دیال اپادھیائے کے نام پررکھا
گیا۔ساورکر جی بھلے ہی معافی مانگ کر جیل سے چھوٹے ہوں لیکن انھوں نے سالوں
کالا پانی کی سخت سزا جھیلی۔دوسری طرف دین دیال اپادھائے تحریک آزادی کے
وقت جوان تھے لیکن انھوں نے تحریک آزادی میں کبھی حصہ نہیں لیا۔بی․جے․پی․
کی میٹنگ، اجلاس وغیرہ کے موقوع پرڈائس پر ساورکر جی کی تصویر کبھی نہیں
لگائی گئی۔
یہ بھی لکھا گیا ہے جو حقیقت بھی ہے کہ ساورکر جی کے نام سے کانگریس حکومت
نے ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا اور اندرا گاندھی نے ایک بار ان کی مالی مدد بھی
کی تھی۔لیکن اب مودی حکومت ان کو سیدھے ’بھارت رتن ‘ دینا چاہتی ہے حالانکہ
ایک کوشش پہلے بھی واجپائی حکومت میں کی جا چکی ہے لیکن صدر جمہوریہ عالی
جناب کے․آر․نارائنن نے نا منظور کر دیا تھا۔
سوشل میڈیا میں پنکج چترویدی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ’ ’ساورکر نہ تو
ویر تھے اور نہ ہی ان کا آزادی کی لڑائی میں شمولیت تھی، وہ ایاش زندگی
گزارتے تھے جس میں ناشتے میں انڈے اور رات کے کھانے میں چٹپٹی مچھلی کے
ساتھ مے نوشی بھی شامل رہتی تھی۔ وہ گائے گوبر،گنگا چھاپ ہندوتو کو نہیں
مانتے تھے اور ہندوتو کو ایک ہتھیار بند گروہ کی شکل میں اکٹھا کرنا کہتے
تھے۔جسے ماننا ہو بھارت رتن یا اور کچھ مان لے، لیکن ہم نہ تو ویر مانتے
ہیں اور نہ کسی قسم کا رتن‘‘۔
نیلانجن مکھوپادھیاے دلّی کے ایک صحافی اور ہندو قوم پرست سیاست داں لکھتے
ہیں کہ ’’ ہم نہیں بھول سکتے کہ گاندھی کے قتل میں ان کے خلاف کیس چلا تھا
، وہ چھوٹ ضرور گئے تھے لیکن ان کی زندگی میں ہی انکوئری کے لیے کپور کمیشن
بیٹھا تھا اور اس کی رپورٹ میں شک کی سوئی ساورکر سے ہٹی نہیں تھی‘‘۔
نرنجن تکلے، صحافی، لکھتے ہیں کہ ’’ساورکر اور’ وائسراے لن لتھگو‘کے ساتھ
لکھا پڑھی میں یہ سمجھوتا ہوا تھا کہ ان دونوں کا یکساں مقصد ہے کہ گاندھی،
کانگریس اور مسلمانوں کی مخالفت کرنا‘‘۔ اور یہ مخالفت آج تک چلی آ رہی ہے
۔انگریزساورکر کو ساٹھ روپئے ماہانہ پنشن بھی دیا کرتے تھے۔
’’11جولائی 1911کو ساورکر انڈمان پہنچے اور 29اگست کو انہوں نے ڈیڑھ ماہ کے
اندر اپنا پہلا معافی نامہ لکھا۔اس کے بعد 9سالوں میں انہوں نے
6بارانگریزوں کو معافی نامے دیے۔اپنے اوپر رحم کی مانگ کرتے ہوئے انھوں نے
حکومت سے خود کو بھارت کے کسی دوسرے جیل میں بھیجے جانے کی بات کہی تھی۔ اس
کے عیوض میں وہ کسی بھی حیثیت سے سرکار کے لیے کام کرنے کو تیار تھے۔
قیدی بیریندر گھوش نے بعدمیں لکھاکہ ساورکر ہم لوگوں کو جیلر کے خلاف تحریک
چلانے کو کہتے تھے اور جب ہم ان سے کہتے تھے کہ کھُل کر ہمارے ساتھ آئیے تو
وہ پیچھے ہو جاتے تھے۔ ان کو کوئی بھی مشکل کام کرنے کو نہیں دیا جاتا
تھا‘‘۔
1928میں جب ہندو مسلمان مل کر انگریزوں کے خلاف ملک کی آزادی کی جنگ لڑ رہے
تھے تب ساورکرنے کھلے عام یہ اعلان کیا تھاکہ ’بھارت میں دو راشٹر ہندو اور
مسلمان بستے ہیں‘، بھارت کے بٹوارے کا وچار یہیں سے جنم لیتا ہے۔
پرمود ملک اپنے ہندی مضمون تاریخی 25؍اگست 2019میں لکھتے ہیں کہ’’نیتا جی
سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج دوسری عالمی جنگ کے خاتمہ کے کچھ دن پہلی
ہی شمال مشرق پر حملہ کر انگریزی فوج کو شکست دینے کی کوشش کی تھی تو
ساورکر نے اُسی انگریزی فوج کی مدد کرنے کے لیے نوجوانوں کی بھرتی کی تھی
اور ان کو انگریزوں کے سپرد بھی کر دیا تھا‘‘۔
ملک کے الگ الگ حصوں میں کیمپ لگائے گئے جن میں ہندو نو جوانوں کی بھرتی کی
گئی اور وہ برٹش فوج میں شامل ہو گئے۔سمجھا جاتا ہے کہ تقریباً ایک لاکھ
رنگروٹوں کو تیار کر برٹش فوج کو سونپے گئے۔تاریخ گواہ ہے کہ آزاد ہند فوج
لڑتے ہوئے شمال مشرق میں داخل ہوئی تو انہیں روکنے کے لیے برٹش فوج نے
انہیں بھارتیہ رنگروٹوں کو تعینات کیا۔اس طرح ساف ہے کہ نیتا جی سبھاش چندر
بوس نے جو آزاد ہند فوج کھڑی کی اس کو ساورکر کے چنے ہوئے رنگروٹوں نے روکا
اور ہرایا‘‘۔
اس طرح ساورکر اوران کی پارٹی کی ہمدردیاں شروع سے ہی انگریزوں کے ساتھ
رہیں نیتا جی کے خلاف جنگ کے لیے کھڑے ہوئے،گاندھی جی کے قتل کی سازش میں
شامل رہے،آزادی کے متوالوں کے خلاف گواہیاں دے دلا کرسزائیں کرائیں۔اب جو
ملک کے لیے اتنا زیادہ کام کرے ’بھارت رتن‘ کا حقدار تو ہونا ہی چاہئے۔
مضامین ہندی :
۱۔ گوپال راٹھی،انل جین
۲۔ پنکج چترویدی کی پوسٹ
۳۔ اشوک کمار پانڈے،
۴۔ حفیظ نعمانی،
۵۔ پرمود ملک
|