وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ
الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡـِٕدَۃَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ
اور اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے لیکن تم پھر
بھی کم شکر گزار ہو
قرآنی تعلیمات میں جا بجا اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ تخلیق و تدبیر
قابل تفریق نہیں ہیں۔ اس آیت میں یہی واضح فرمایا ہے کہ اللہ ہی نے انسانی
زندگی جاری رکھنے کے لیے چند ایک چیزیں فراہم فرمائیں۔
مثلا قوت سماعت جس کے ذریعے انسان آوازوں کو درک کرتا ہے۔ اگر یہ قوت نہ
ہوتی تو انسان بیرونی دنیا سے ان حقائق کا ادراک نہ کر سکتا جو آوازوں سے
مربوط ہیں۔ خواہ ان آوازوں میں الفاظ و معانی ہوں یا صرف آواز ہو، دونوں
سے استفادہ کرتا ہے۔
لیکن وہ آواز جو الفاظ و معانی پر مشتمل ہو انسان کے لیے اللہ کی بہت بڑی
نعمت ہے چونکہ اگر یہ آواز اور الفاظ نہ ہوتے تو افہام و تفہیم کا مسئلہ
بعض اوقات مشکل اور بعض اوقات ناممکن بھی۔
چنانچہ الفاظ نہ ہونے کی صورت میں کسی معنی کو کسی کے ذہن میں منتقل کرنے
کے لیے خود معنی کو پیش کرنا پڑتا۔ مثلاً کسی کو پانی بتانا ہو تو خود پانی
کو اس کے سامنے پیش کرنا پڑتا۔ اب ہم لفظ کے ذریعے آسانی سے معنی پیش کرتے
ہیں اور بعض معانی کا پیش کرنا ممکن نہ ہوتا۔ مثلاً کعبہ پیش کرنا ممکن ہی
نہ ہوتا۔ چنانچہ انسان معنی کو لفظ کے ذریعے اور لفظ کو کتابت کے ذریعہ
دوسروں کی طرف منتقل کرتا ہے۔
قوت بصارت کے ذریعے انسان رنگوں کا ادراک کرتا ہے۔ قوت بصارت اس کائنات میں
اللہ تعالیٰ کا عظیم اور محیر العقول معجزہ ہے جس سے انسان اپنے وجود سے
بیرون اشیاء کا ادراک کرتا ہے۔ ان کا رنگ، حجم اور شکل معلوم کرتا ہے۔ اگر
بصارت نہ ہوتی تو انسان کائنات کی رعنائیوں کو نہ سمجھ سکتا۔
لغت میں دل صنوبری شکل کے عضو کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے
بیرونی دنیا اور عقل کے درمیان حواس خمسہ کے ذریعے روابط قائم کیے ہیں۔ ان
میں سرفہرست سماعت اور بصارت ہے۔ چنانچہ ان رابطوں کے بغیر عقل اشیاء کا
ادراک نہیں کر سکتی۔ جس چیز کو انسان نے حواس سے درک نہیں کیا ہے اسے عقل
نہیں سمجھ سکتی۔ مثلاً اگر پانی کا وجود نہ ہوتا تو عقل پانی کو سمجھنے سے
قاصر ہوتی۔ یہاں سے یہ قول مشہور ہے: جس کے پاس حواس میں سے کوئی ایک حس
نہیں اس کے پاس اس سے مربوط علم نہیں ہوتا ہے۔
یہ ناشکرا انسان نہ صرف ان نعمتوں کا شکر نہیں کرتا بلکہ ان نعمتوں کے وجود
کا احساس تک نہیں کرتا جب تک یہ نعمت چھن نہ جائے۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
یہ انسان تعجب کے قابل ہے وہ چربی سے دیکھتا ہے اور گوشت کے لوتھڑے سے
بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے
یہ بندہ جو گورکھ دھندہ ہے کیسا اندھا ہے کہ یہ شکر نہیں بس شکوہ کرتا ہے ۔
کچھ مل جائے تو چرچا نہیں کرتا اور کچھ لے لیا جائے یہ نہ دیا جائے تو
واویلا کرتے نہیں تھکتا ۔ کامیابی کو ذاتی کمال اور ناکامی کو قدرت کا وبال
کہتا ہے
خوشی ملے تو اوقات بھول جاتا ہے اور غم آئے تو سابقہ احسانات
اعتراف نہیں کرتا اعتراض کرتا ہے ۔ مانتا نہیں جھٹلاتا ہے ۔
نعمتوں کا شمار نہیں کر سکتا ہاں انکار ضرور کر سکتا ہے اور کرتا ہے .
سورہ رحمان گواہ ہے کہ رب نے اپنی مختلف نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک ہی
مخصوص جملہ بار بار اور کثرت سے دہرایا کہ
" تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کا انکار کرو گے
کون کون سی نعمت جھٹلاؤ گے ۔
گویا جھٹلانا انکار کرنا رد کرنا ناشکری کرنا بے صبری پر اتر آنا خوشی کے
وقت بھلانا اور دکھ کے وقت بے صبری دکھانا انسان کی شاید گھٹی میں پڑا ہے ۔
شاید شیخ سعدی نے یہ کمال بات کہی ہے کہ دانت رب کی نعمتیں کھا کھا کر گھس
گئے لیکن زبان کو شکر کا کلمہ پڑھنا نہ آیا
اور پیارے پڑھنے والے آپ جائزہ لگائیں اور دیکھیں کہ آج کتنے لوگ ایسے
ہمارے اردگرد پائے جاتے ہیں جو اس بات کا دعویٰ کر سکتے ہیں کہ
شکر ہے کہ ہم نے شکوہ نہیں کیا
|