کثيرالمکانی کائنات

سائنسی انقلابات انسانی شعور کو ہميشہ چيلنج کرتے چلے آئے ہيں- اگر ہمارے سارے شعوری نقطۂ نظر کائنات کے بارے ميں درست ہوتے تو سائنس کائنات کے سارے اسرار ہزاروں سال پہلے ہی حل کر چکی ہوتی- سائنس کا مقصد ہی يہ ہے کہ وہ اشياء کے ظاہری پردوں کی تہوں کو کھرچے اور ان کے اندر چھپے ہوۓ قدرت کے مظاہر کو آشکار کرے- شايد اس دنيا کے بارے ميں سب سے بڑا چيلنج انسانی عقل کی گہرائيوں ميں رچا بسا ہوا يہی احساس ہے کہ يہ کائنات سہ جہتی(تھری ڈائمینشنل) ہے!

يہ کہنے کی ضرورت نہيں ہے کہ ہماری اس بظاہر نظر آنے والی کائنات ميں لمبائی، چوڑائی اور موٹائی کی جہتیں کسی بھی شے کا حليہ بيان کرنے کے لئے کافی ہيں-

بچّوں اور جانوروں پر کيئے گئے تجربات بتاتے ہيں کہ ہم اس دنيا کے سہ جہتی ہونے کے گہرے اور وديعت کيے ہوئے احساس کے ساتھ پيدا ہوئے ہيں-

اگر ہم وقت کو بھی ايک جہت مان ليں تو پھر يہ چار جہتيں ہماری کائنات ميں ہونے والے ہر واقعہ کو بيان کرنے کے ليے کافی ہيں- کائنات ميں جہاں جہاں تک بھی ہمارے آلات کی پہنچ ہو سکی ہے، يعنی ايٹم کی اتھاہ گہرائيوں سے لے کر بعيد ترين کہکشاؤں کے گچہّوں تک، ہميں ہر جگہ انہی چار جہتوں کے ثبوت ملے ہيں-

اسکے علی الرّغم ساری دنيا کے سامنے يہ دعویٰ کرنا کہ کائنات ميں مزيد جہتيں بھی ہو سکتی ہيں يا ہماری کائنات کچھ اور جہتوں کے ساتھ بھی اپنا وجود رکھتی ہے، اپنے ليے دھتکار کو دعوت دينے کے مترادف ہے-

اس دنيا کے بارے ميں ہمارے اندر رچا بسا يہ تعصّب(يعنی کائنات کے تين سمتی ہونے کا پيدائشی احساس) جو کہ سب سے پہلے آج سے دو ہزار سال قبل يونانی علماء اور فلسفيوں نے نظری طور پہ تسليم کيا تھا، سائنس کی ترقّی کے ليے تقريباً موت ہے!

موجودہ سائنسی انقلاب اسی بارے ميں ہے جو " کثيرالجہتی مکاں" کے نظريے کے تحت پيدا ہوا ہے- جو بيان کرتا ہے کہ قبول عام چار جہتوں(يعنی تين مکانی اور ايک زمانی) کے علاوہ اور جہتيں بھی ہيں جو اپنا وجود رکھتی ہیں!

دنیا بھر میں طبعیات دانوں کے درمیان، بشمول کئی عالی مرتبت شخصیات کے، یہ بڑھتا ہوا اعتراف پایا جاتا ہے کہ یہ کائنات دراصل مزید بلند جہتوں میں اپنا وجود رکھ سکتی ہے- اگر یہ نظریہ درست ثابت ہو جاتا ہے تو اس کائنات کے متعلّق ہماری سمجھ میں ایک بہت گہرا ذہنی اور فلسفیانہ انقلاب پیدا کرے گا- سائنسی طور پر کثیرالمکانی نظریہ" مافوق الکشش" اور" نظریۂ کالوزہ کلائن" کے ناموں کا مرہون منّت ہے مگر اپنی جدید شکل میں اسے "نظریۂ مہا تانت" یا 'سپر سٹرنگ تھیوری' کہا جاتا ہے، جو کہ یہاں تک پیشن گوئی کرتا ہے کہ جہتوں کی تعداد 'دس' ہے-تین مکانی جہتوں یعنی لمبائی،چوڑائی اور موٹائی اور ایک زمانی جہت یعنی وقت کے علاوہ چھ اور مکانی جہتوں کا اضافہ ہو گیا ہے-

ہم متنبّہ کرتے ہیں کہ کثیرالمکانی نظریہ ابھی تک تجرباتی طور پر ثابت نہیں کیا گیا ہےاور تجربہ گاہ میں اسکا ثابت کرنا ایک بہت مشکل کام ہو گا- بحرحال اس نظریہ نے طبعیات کی بڑی بڑی تجربہ گاہوں کو پہلے ہی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور جدید طبعیات کےمیدان کا نقشہ ہمیشہ کے لیے بدل کے رکھ دیا ہے- تحقیقاتی مقالوں کی ا یک حیرت انگیز تعداد کو جنم دیا ہے-(ایک اندازہ کے مطابق پانچ ہزار سے بھی زیادہ!)- لیکن ایک عام آدمی کے لیے بہرحال کچھ نہیں لکّھا گیا کہ وہ کثیرالجہتی مکاں کی سحر انگیز خصوصیات کو سمجھ سکے-اسی لیے عام لوگ اس انقلاب کے بارے میں بہت کم واقفیت رکھتے ہیں- دراصل معروف ثقافت میں مزید جہتوں اور متوازی کائنات کی طرف چرب زبان حوالے اکثر بھٹکانے والے ہیں- یہ قا بل افسوس ہے کیونکہ اس نظریہ کی اہمیت اسکی اس قوّت میں مضمر ہے جو تمام معلوم طبیعی مظاہر کو ایک حیران کن سادہ نظام کی وحدت میں جوڑتی ہے-

پچھلی کئی دھائیوں سے طبعیات داں متعجّب ہیں کہ فطرت کی چار قوّتیں اتنی نامربوط کیوں نظر آتی ہیں! اس غیر مشابہت کی بنیادی وجہ یہ ہے ھم اس کو اپنے بند ذہن کے پنجرےمیں رکھ کر دیکھتے رہے ہیں- ہماری سہ جہتی تجربہ گاہیں اصول طبیعیات کے لیے بنجر اور بے ثمر پنجرے ہیں- مگر جب ھم ان اصولوں کو اعلیٰ زمانی- مکانی جہتوں میں محسوب کرتے ہیں تو ہم انکی اصل توانائی اور نفاست دیکھتے ہیں ، ان کی اپنی فطری جولانگاہوں میں- قوانین سہل اور طاقتور ہو جاتے ہیں- جو انقلاب اب طبعیات کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے وہ یہ احساس ہے کہ طبعیاتی قوانین کا فطری گھر کثیرالمکانیت میں ہے-
Tariq Zafar Khan
About the Author: Tariq Zafar Khan Read More Articles by Tariq Zafar Khan: 25 Articles with 46889 views I am a passionate free lance writer. Science , technolgy and religion are my topics. Ihave a Master degree in applied physics. I have a 35 + years exp.. View More