پاکستان کے پاس خدا کی طرف سے عطاء کردہ
زرخیز زمین موجود ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم کروڑوں روپے کا زرمبادلہ
کما سکتے ہیں۔ پاکستان کی ساٹھ سے ستر فیصد آبادی زراعت کے پیشے سے منسلک
ہے۔پاکستان اپنی فصلوں کے بل بوتے پر دنیا میں راج کر سکتا ہے۔ ہمارے ملک
پاکستان کی زرعی اجناس دنیا کے بیشتر ممالک کو فروخت کی جاتی ہیں، ان میں
کپاس، چاول، چینی اور دوسری اشیاء شامل ہیں۔ پاکستانی چاول دنیا کے بیشتر
ممالک کے عوام پسند کرتے ہیں۔ پاکستان میں متعدد اقسام کی تیل دار اجناس
بھی کاشت کی جاتی ہیں مگر ان کی مقدار ملکی خوردنی تیل کی ضروریات کو پورا
کرنے کے لئے ناکافی ہے۔
دنیا میں خوردنی تیل روزمرہ زندگی میں سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستان عوام کے لئے خوردنی تیل نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان ہر سال
اربوں روپے کا زرمبادلہ خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ کر دیتا ہے جبکہ
پاکستان میں تیل دار اجناس کی کاشت کو فروغ دیتے ہوئے تیل کی وسیع پیداوار
کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی آبادی سولہ کروڑ سے زائد ہے جبکہ اس
تعداد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آبادی کے بڑھنے کے
ساتھ ساتھ خوردنی تیل کی ضروریات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ پاکستان کو خوردنی
تیل کی کل ضروریات کا صرف ایک تہائی حصہ خود پیدا کرتا ہے جبکہ باقی
دوتہائی زرِمبادلہ کو خرچ کر کے بیرونی منڈیوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ہر سال
اربوں روپے کا تیل بیرونی منڈیوں سے خریدنے کی وجہ سے مہنگائی میں بھی
اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان میں تیل دار اقسام کی کاشت زیادہ تر خریف اور ربیع
کے موسم میں کی جاتی ہے ۔ پاکستان میں کاشت کی جانے والی اہم اجناس کینولہ،
توریا، سرسوں، تارامیرا، السی اور سورج مکھی جبکہ زیتون کی کاشت بھی کی
جاتی ہے۔ ان سے حاصل ہونے والا تیل کھانا پکانے، صنعتی مصنوعات اور دیگر
گھریلو ضروریات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ خوردنی تیل کی طلب میں ہر سال
اضافہ ہو رہا ہے۔ تیل کی طلب کو پورا کرنے کے لئے پاکستان میں تیل دار
اجناس کی زیادہ سے زیادہ کاشت کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں خوردنی تیل کی
پیداوار کے فروغ کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان کے کن علاقوں میں کون
کونسی تیل دار اقسام کاشت کی جاتی ہیں۔
توریا۔ اے تیل دار اجناس کی ایک قسم ہے جو کہ نوے سے سو دن کے اندر پک کر
تیار ہو جاتی ہے۔فصل پندرہ اگست سے پانچ ستمبر تک کاشت کی جا سکتی ہے۔ اس
فصل کی کاشت کے فوراً بعد کپاس کی فصل باآسانی کاشت کی جا سکتی ہے۔ وسطی
پنجاب اور لاہور کے نواحی علاقوں پتوکی، چونیاں اور قصور میں اس کی کاشت کی
جاتی ہے، فصل میں تیل کی مقدار چوالیس فیصد ہوتی ہے جبکہ اوسطً پیداوار نو
سے اسی سے بارہ سو کلو گرام فی ہیکڑ ہے۔ رایا انمول تیل دار اجناس کی قسم
ہے، نوے سے اےک سو پانچ دنوں میں تیار ہو جاتی ہے۔ اس فصل کو پچیس اگست سے
پندرہ ستمبر تک کاشت کیا جا سکتا ہے۔ رایا انمول توریا۔اے کی نسبت زیادہ
پیداوار دیتی ہے۔ یہ فصل ٹوبہ ٹیک سنگھ، گوجرانوالہ، ساہیوال، شیخوپورہ،
فیصل آباد اور اوکاڑہ کے اضلاع میں کاشت کی جاتی ہے۔رایا انمول کی اوسطً
پیداوار ایک ہزار پانچسو سے ایک ہزار آٹھ سو کلو گرام فی ایکڑ ہے جبکہ فصل
میں تیل کی چالیس فیصد مقدار پائی جاتی ہے۔ پیلا رایا تیل دار اجناس کی ایک
اور قسم ہے، اس کے دانوں کا رنگ پیلا ہوتا ہے اس لئے آسانی سے پہچانی جا
سکتی ہے۔ پاکستان کے ایسے علاقہ جہاں آبپاشی کم کی جاتی ہے وہاں اس فصل کو
کاشت کیا جاتا ہے۔فصل کی کاشت یکم اکتوبر سے اکتیس اکتوبر تک کی جاتی ہے۔
اس کی اوسط ًپیداوار دو ہزار سے پچےس ہزارکلو گرام فی ایکڑ ہے جبکہ فصل میں
تیل کی مقداربےالےس فیصد ہوتی ہے۔ سرسوں ڈی جی ایل بھی تیل دار اجناس کی
ایک قسم ہے۔ اس قسم کو پنجاب کے تمام اضلاع میں کاشت کیا جاتا ہے۔ فصل کی
اوسط ًپیداوار ایک ہزار سے پندہ سو کلو گرام فی ایکڑ ہے اورفصل میں تیل کی
مقدار چالیس سے بیالیس فیصد تک پائی جاتی ہے۔ چکوال رایا کا شمار بھی تیل
دارفصلوں میں کیا جاتا ہے ۔ اس کی اوسط ًپیداوار دو ہزار چھ سو سے تین ہزار
ایک سوکلو گرام فی ایکڑ ہے جبکہ فصل میں تیل کی انتالیس فیصد مقدار پائی
جاتی ہے۔ یہ قسم بھی پنجاب میں پائی جاتی ہے۔ خان پوررایا تیل دار فصلوں
میں ایک اور اہم نام ہے، اس کی اوسطً پیداوار ایک ہزار آٹھ سو پچاس کلو
گرام فی ایکڑ ہے۔فصل کی کاشت یکم اکتوبر سے اکتیس اکتوبر تک کاشت کی جاتی
ہے جبکہ فصل میں تیل کی بیالیس فیصد مقدار پائی جاتی ہے۔ ان تمام اقسام کے
علاوہ متعدد اقسام پاکستان کے مختلف علاقوں میں کاشت کی جاتی ہیں۔ یہ اقسام
نہ صرف تیل بلکہ جانورں کے چارے اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں سورج مکھی کی پیداوار سال سنہ دوہزار دس کے دوران بہتر رہی ہے۔
سنہ دوہزار دس میں آنے والے بدترین سیلاب نے جہاںفصلوں کو نقصان پہنچایا
وہاں سورج مکھی کے زیر کاشت رقبے میں اضافہ کر دیا۔ سورج مکھی کی فصل کے
لئے زرخیز زمین درکار ہوتی ہے اور سیلاب نے زمین کو زرخیز کر دیا جو کہ
سورج مکھی اور کینولہ جیسی فصلوں کے لئے موذوں ہے۔ سندھ آباد گار بورڈ کے
چیئر مین عبدالمجید نظامانی کے مطابق زیریں سندھ کے وہ علاقے جہاں سیلاب کے
باعث چاول کی فصل کو نقصان ہوا تھا زیادہ بہتر طور پر زرخیز ہو گئے ہیں اسی
لئے سورج مکھی اور کینولہ کے لئے بہتر ہیں۔ یہ رقبہ تقریبا ًایک ا عشاریہ
پانچ ملین ایکڑ ہے اورسورج مکھی کی اس پیمانے پر کاشت کی بدولت تقریباَ
ساٹھ بلین روپے کا ملکی پیداوار میں اضافہ ہوگا، اس کے علاوہ خوردنی تیل کی
پیداوار میں بھی اضافہ کیا جا سکے گا۔
ملک میں سورج مکھی کی اوسطَ پیداوار تین سو ساٹھ کلو گرام فی ایکڑ ہے اور
اسکی موجودہ قیمت ایک ہزار آٹھ سو روپے فی چالیس کلو گرام ہے۔ ان اعدادو
شمار کی روشنی میں سورج مکھی کی کاشت سے ہونے والی آمدنی تقریباَ سولہ ہزار
دو سو روپے فی ایکڑ ہے۔ مفروضے کے مطابق اگر تیرا اعشاریہ پانچ ملین ٹن
سورج مکھی پیدا کیا جائے تو اس سے اڑتیس فیصد تیل حاصل کیا جاسکتا ہے۔
گزشتہ سال کے دوران خوردنی تیل کی کل ملکی ضروریات تین ہزار چھیاسٹھ ٹن تھی
جس میں آٹھ ہزار تیتیس ٹن ملکی پیداوار تھی جو کل ضررویات کا اٹھائیس فیصد
بنتی ہے۔ اس اعدادو شمار کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو خوردنی
تیل کے حصول کے لئے تیل دار اقسام کی کاشت کی کتنی ضرورت ہے۔
پاکستان میں جنگلی زیتون کے پانچ کروڑ سے زیادہ درخت ہیں، جن میں سے تین
کروڑ خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں ہیں۔ خیبر پختونخوا کے علاقے
سوات، مالاکنڈ، بونی، صوابی، مردان، پشاو ر، نوشہرہ، بنوں، کوہاٹ، کرک،
ہنگو اور ہزارہ زیتون کی کاشت کے لئے موزوں ہیں۔ اٹلی حکومت کے تعاون سے
ہونے والے ایک سروے کے مطابق خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے چودہ اضلاع میں
زیتون کی کاشت کی جا سکتی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی قابل کاشت اراضی
اعشاریہ چھ سات ملین ہیکٹرز میں سے اعشاریہ چار چار ملین ہیکٹرز پر زیتون
کاشت ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں خوردنی تیل کی پیداور کی سخت ضرورت ہے،
خوردنی تیل کی پیداوار میں کمی کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قابو کرنا مشکل
ہوتا جا رہا ہے۔ اگر جلد ہی تیل دار اجناس کی پیداوار پر توجہ نہ دی گئی تو
خوردنی تیل کی قیمتیں قابو کرنا مشکل ہو جائیں گی۔ |