جمہوریت

جب سے انسان نے اس دنیا پر قدم رکھا ہے، وہ زندہ رہنے کے لیے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ چاہے اسے اس کے لیے اپنے بھائی کو مارنا پڑے۔ انسان جدوجہد کرتا رہا اور کھوج کرتا رہا۔ زندگی گزارنے کے مختلف طریقے تلاش کرتا رہا۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ہیں کہ انسان ایک سوشل اینیمل ہے، وہ اکیلا نہیں رہ سکتا۔ تو اسی بنا پر قبیلے بنتے رہے۔اور قبیلوں کے سرعار اپنے قبیلے کے سب فیصلے کرنے لگے، بلکہ سردار کو باپ کا درجہ دیا جانا شروع کردیا گیا، کیونکہ قبیلے کی فلاح کے بارے میں سوچنا اسی کی زمہ داری ہوا کرتی تھی۔ پھر جیسے جیسے آبادی بڑھتی گئی گی، رنگ و نسل کی تفریق شروع ہوگی۔ آپس میں جنگ و جدل برپا ہونے لگیں۔ لیکن کھوج ہمیشہ جاری رہی، اور وہ کھوج ایک اچھی زندگی کی کھوج تھی، ایک پرسکون زندگی اور ایک بہترین طرز حکومت کی کھوج تھی۔

کبھی بادشاہت آزمائی گی تو کبھی آمریت، کبھی روم میں سینٹ فیصلہ کرتے تھے تو کبھی انسان کمیونزم کیپیٹلزم گیزم اور پتہ نہیں کون کون سے ازم میں پھنستا رہا۔

جب عربی جہالت میں تھے تو یہ کھوج یونان میں چل رہی تھی۔ جب یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا تو عرب کی دنیا میں نئی تحقیق ہورہی تھی، نئے علوم پڑھے جارہے تھے۔ اسی طرح جب اسلامی دنیا زوال پذیر ہوئی، تو یورپ نے اس کھوج کو آگے بڑھایا، اور آج ہم جہاں کھڑے ہیں یہ ہزاروں سال کے تجربات کا نچوڑ ہے۔ اور ان تجربات سے یہ ثابت ہوا کہ جمہوریت بہترین طرز حکومت ہے، اگر وہ اپنی اصل شکل میں نافذ ہو۔

اگر تحقیق کی جائے تو خلفائے راشدین کے دور کی خلافت بھی جمہوریت کی اولین شکل تھی اور عوامی نمائندے خلیفہ کا انتخاب کرتے تھے۔

وطن عزیز کو بنانے والے بھی یہاں جمہوریت کوہی پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری بیوروکریسی جو کہ انگریز کے کولونیل کونسپٹ کو ہی لے کے چل رہی تھی، سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں کے ساتھ چل نہیں پائی، اور ہماری جمہوریت پر پہلی ضرب اہک بیوروکریٹ نے ہی لگائی۔
اس کے بعد جیسے آئین ٹوٹا جیسے ملک ٹوٹا جیسے جیسے عوام کے منتخب نمائندوں کو سزائیں ملی کہ وہ عوام کی فلاح پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، اور وہ ادارے جن کو عوام کی خدمت و حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا سیولین بالادستی سے ان کی انا کی تسکین نہیں ہوتی، وہ سیاست قدغن لگاتے رہے۔ اس کی تفصیل میں جائے بغیر، سادہ الفاظ میں، انہیں اپنا کام کرنا چاہیے۔ جب کہ وہ سیاست میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ 35 سال تو آمریت رہی، ہماری جنگیں ان کی وجہ سے ہویں، اس یہ ملک ان کی وجہ سے ٹوٹا، اس ملک میں ہیروئن کلچر لانے والے یہ تھے، نوجوانوں کو اے کے فورٹی سیون تھمانے والے یہی تھے، انتہا پسندی کو فروغ دینے والے یہ تھے، طالبان پیدا انہوں نے کیے، بلکہ یہ جو ستر ہزار جانیں دہشت گردی کی نذر ہوئیں یہ انہی کی غلط پالیسی کا نتیجہ تھیں۔

ان کے ہاتھوں اپنے ہی لوگوں کے خون سے رنگے ہیں اور الزام آتا ہے تو عوامی نمائندوں پر۔

جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ نے یہ اقدام کیوں کیئے تو بڑی بے رحمی سے یہ اس کو نظریہ ضرورت یا کولیٹرل ڈیمیج کا نام دیتے ہیں۔

ستم ظریفی تو دیکھیے کہ اٹھارہ وزراۓ اعظم میں سے ایک بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکا، اور اس بار تو طریقہ واردات تھی بدلہ گیا، یعنی دکھاوے کی جمہوریت۔

دنیا کو دکھانے کے لئے ایک پتلی نماز شخص بٹھا دیا گیا مگر حکم انہیں کا چلتا ہے۔ تین بار کا وزیراعظم اور ایک بار کا صدر دونوں بے لوث خدمت کی سزائیں بھگت رہے ہیں۔جرم یہ ہے کہ ان سے ڈکٹیشن لینے سے انکار۔ بس نام کی جمہوریت ہے۔

ایک دوست نے کہا 'اس سے بہتر تھا کہ آمریت ہی نافذ ہوجاتی تو میرا جواب وہی تھا کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے ہزار درجہ بہتر ہے'۔
 

Adeel
About the Author: Adeel Read More Articles by Adeel: 5 Articles with 6566 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.