(دلوں کو ہلا دینے والی سچی داستان جس کا
فیصلہ قرآن نے کیا)
تحریر :بی بی (عذرا فیض)
سردار رحمت چاچی کا ارادہ بھانپ گیا اور فٹ سے دھمکی امیز لہجے میں امیراں
کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ خاندان کی عزت کا سوال ہے بی بی رحمتے اگر تم نے
ایسا نہ کیا تو دوسری بیٹی کے مرنے کی تم خود زمہ دار ہوگی۔۔۔رحمت چاچی نے
دکھ سے لمبی سانس لی اور نزیراں کو اپنے قریب کر لیا اب اس کے پاس کوئی
چارہ نہیں تھا۔۔
ادا منظور باعزت بری ہوگیا تھا ۔سردار نے اس کوسب گاؤں والوں کے سامنے پگ
پہنائی اور سب سے کہا اس کو کہتے ہیں دلیر،غیرت مند۔ارے مرد کیا جس کا ہاتھ
کسی کی شہ رگ کاٹتے ہوئے کانپے یہ آسان نہیں صرف اصلی مرد ہی کرسکتا ہے
ایسا۔۔واہ بابا واہ دشمن کو شیر بن کر مارا ہے ۔۔آئے تھے ہمارے خاندان سے
پنگاہ لینے ۔۔اب ان کو پتا چلا ہوگا کہ ادھر تو مائیں شیر پیدا کرتی ہیں۔۔
ادے منطور کا قد شملہ سے تو بڑھا ہی تھا گردن بھی اور تن گئی تھی ایک ساتھ
دو قتل کئے تھے آخر کو۔۔۔
اقبال کو بھی امیراں کا دکھ تھا لیکن پینو تو اس دکھ سے نکل ہی نہیں پارہی
تھی ،پینو کے جیٹھ اور جٹھانی کو یہ بات اچھی نہیں لگ رہی تھی اقبال کے
بھائی اللہ وسایا نے ایک دن اقبال کو بلا کراس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا
ٌ بالی یہ تیری زنانی ہر وقت رورہی ہوتی ہے سمجھادے اس کو کالیوں پر رونا
نحوست ہے ۔ہمارے قبیلے کی ریت نہیں ہے یہ ۔سمجھادے اس کو ورنہ مجھے آتا ہے
سمجھانا۔۔چاچا اور منظور کو یہ بات اچھی نہیں لگے گی۔۔یہ کہہ کر اللہ وسایا
نے اپنی بندوق کو کندھے پر لٹکایا اور باہر کی طرف رخ کر لیا ۔
پینو چولہے میں بجھتی آگ کو جلانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن آگ جلنے کا
نام نہیں لے رہی تھی ،پھونکیں مار مار کر پینو کی بری حالت ہوگئی تھی ،بالی
جو کہ سامنے صحن میں بچھی چارپائی پر اوندھے مونہہ لیٹے پینو کو دیکھ رہا
تھا اس کی مدد کو کچن میں آن پہنچا۔ کچن کیا تھا صحن کے ایک طرف دو فٹ
اونچی چھوٹی سی کچی دیواروں سے بنا ہوا اور یہی دیواریں بیٹھنے کے لیئے بھی
اور کچن کو صحن سے علیحدہ کرنے کا کام بھی کرتی تھیں اس میں دو مٹی کے
چولہے تھے جبکہ تندور صحن میں دوسری طرف تھا جہاں پینو کی جٹھانی روٹیاں
لگا رہی تھی اور پینو کی ساس صحن کے آخر میں بیرونی دروازے کے پاس جہاں
بھینس ،گائے اور بکریاں بندھی تھیں ان کو چارہ ڈال رہی تھی۔ بالی کا بھتیجا
مرغیوں کو ان کے دڑبے کی طرف لانے کی تگ و دو کررہا ہے ۔بالی نے صحن میں
چاروں طرف بغور دیکھا اور پینو کو چولہے سے ہٹنے کو کہا اور اس کی جگہ بیٹھ
گیا اور پھونکنی سے آگ جلانے لگ گیا ۔تھوڑی ہی دیر میں چولہے میں آگ بھڑک
رہی تھی ۔ بالی اٹھ کر کچن کی دیوار پر بیٹھ گیا اور محبت بھری آواز میں
پینو سے گویا ہوا :ٌپینو کب تک سوگ مناؤگی؟ مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں
جاتا پگلی !ٌبالی اگر مجھے بھی مار دیا گیا تو بھی تم ایسے کہو گے ؟پینو
دکھ سے گندھے گلے کے ساتھ بولی۔ اللہ سائیں نہ کرے پینو !کیسی باتیں کرتی
ہو ۔کون تمہیں مارے گا ؟اور کیوں مارے گا ؟ وجہ تو امیراں کو مارنے کی بھی
کوئی نہیں تھی ۔پھر پھر اسے کیوں مارا گیا ۔پینو آنسوؤں سے لبریز آواز
میں بولی۔ پینو کی آنکھوں سے چند آنسو گرے اور چولہے میں جلتی آگ کا حصہ
بن گئے ۔
صحیح کہتے ہیں وقت سے بڑا کوئی مرہم نہیں ۔رحمت چاچی کے آنسو تو سوکھ گئے
لیکن ان کی آنکھوں کی نظر کم کر گئے اب وہ ہر گھر آنے والے کو مشکل سے
پہچانتی ہیں کچھ پرانی یادوں نے ان کی یاداشت پر گہرے اثر ڈالے ہیں۔
ادا منظور کو اب پنچیت میہں کافی عزت حاصل تھی۔سردار کے خاص بندوں میں شمار
ہونے لگا تھا۔پینو کا ماموں جو اب تک کئی لڑکیوں کو کالا کر کے شملہ اونچا
کر کے گھومتا تھا اور پنچیت میں سردار کے ساتھ بیٹھتا تھا اور سردار فخر سے
کہتا کہ یہ ہے ہمارے قبیلے کا سب سے بڑا جی دار بندہ ، غیرت اتنی کوٹ کوٹ
کر بھری ہے کہ عورت کے سر سے دوبٹہ بھی گرے تو یہ اس کا قتل کردے اسی لئیے
تو گاوئں کی ستر سالہ بڑھیا ہو یا چار سالہ لڑکی کس کے دوپٹہ لیتی ہیں اور
رمضان خان کے نام سے ہی تھر تھر کانپتی ہیں۔ سردار کا دوسرے علاقے کے
سرداروں کے سامنے رمضان کا یہ تعارف رمضان کا سر فخر سے بلند کردیتا ۔رمضان
کا خون جوش مار تا اور اس کا چہرہ اور ماتھا جس پہ جانے کتنے بے گناہوں کا
خون تھا خوشی اور غیرت سے لال ہوجاتا۔ اسے غیرت مندی کا ایسا چسکا پڑا تھا
کہ اس کی وحشی آنکھیں ہر وقت شکار کے لئیے متلاشی رہتیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو اس گاؤں میں سورج اپنی پوری آب وتاب سے چمکتا لیکن کبھی کبھی کسی
کے نصیب میں اندھیرا چھا جاتا ۔آج کا دن پینو کے نصیب کا سیا ہ دن ثابت
ہوا۔ ہوا کچھ یوں کہ گھر کے بڑے سے صحن میں جھاڑو لگانے کے بعد پینو نے
گندے برتنو کا ٹوکرا نلکے (ہینڈ پمپ)کے قریب رکھا جو کے بیری کے درخت کے
نیچے موجود تھا اور برتن دھونے کے لئیے گھر سے باہر کٹورے میں ریت لینے گئی
۔وہ ریت لے کر پلٹ ہی رہی تھی کہ ایک اجنبی شخص جو سامنے سے آرہا تھا ۔اس
گاؤں میں نیا تھا اس نے پینو سے کہا ٌ سنو ادی آپ کو رحیم خاں کے گھر کا
پتہ ہے ٌ پینو نے اپنے مونہہ کو دوپٹے سے اس طرح ڈھانکا کہ صرف ایک آنکھ
ہی نظر آرہی تھی اور اپنی انگلی سے کھیتوں کے اس پار بنے ہوئے چند گھروں
کی طرف اشارہ کیا کے اس طرف کو ہے ۔اجنبی شخص نے شکریہ ادا کیا اور اس طرف
کو چل پڑا ۔ پینو کچھ حیران تھی کیونکہ گاؤں میں اس طرح باہر کا کوئی شخص
نہیں آتا تھا اور اس پورے گاؤں میں اس کے رشتہ دار اور قبیلے کے لوگ تھے
اور جہاں تک نظر پڑتی تھی سب زمینیں ان کی اور باقی رشتہ داروں کی تھیں کسی
غیر کو نہ تو وہاں گھر بنانے کی اجازت تھی اور نہ ہی زمین خریدنے کی ۔بہت
دور باغوں کے اس پار نہر کے کنارے اس گاؤں کے شروع میں ایک ڈیرہ تھا جہاں
باہر کے لوگ آسکتے تھے لیکن گاؤں کے اندر تو سوال نہیں پیدا ہوتا تھا اس
لئیے پینو بھی حیران تھی اسی شش و پنج میں وہ واپس گھر کی طرف پلٹی ۔دروازے
پر اس کی جٹھانی کھڑی تھی اور جو اس شخص کی پینو کے ساتھ بات کرنے کو جانے
کیا رنگ دے چکی تھی جھٹ سے بولی یہ کون تھا؟ تمہارا آشنا تھا؟ تم سے ملنے
آیا تھا ؟ پینو کا چہرہ غصے اور دکھ سے لال ہوگیا ۔۔بھرجائی کیسی گھٹیا
باتیں کر رہی ہو۔۔مجھے کیا پتہ وہ کون تھا ۔۔وہ تو رحیم مامے کا پوچھ رہا
تھا ۔۔ لیکن پینو کی جٹھانی بھلا کیسے اس کی بات سمجھتی وہ تو ویسے بھی
پینو کی خوبصورتی سے جلتی تھی اور پینو کا اپنی ساس اور سسر کا ہاتھ کا
چھالا بننا اسے کھلتا تھا لہذا یہ موقع وہ ہاتھ سے کیسے جانے دیتی ۔پینو کے
ساتھ تکرار کی آواز چاچی کے کانوں تک آئیں وہ جو بھینسوں کو چارہ ڈال رہی
تھیں بھاگتی ہوئی دروازے کی طرف پہنچیں، پینو کی جٹھانی لکڑی کے دروازے کے
بیچوں بیچ کھڑی تھی اور پینو ہاتھ میں ریت کا کٹورا لئیے باہر کھڑی تھی
۔چاچی نے نسرین یعنی پینو کی جٹھانی کو دروازے سے ہٹایا اور اندر آکر بات
کرنے کا کہا۔۔ماسی آپ کو نہیں پتہ یہ کالی ہے میں نے خود اسے غیر مرد کے
ساتھ دیکھا ہے،،،چاچی چیخیں یہ کیا بکواس کر رہی ہو۔۔پینو نے چاچی کے
ہاتھوں کو پکڑتے ہوئے کہا نہیں چاچی یہ جھوٹ بول رہی ہیں ۔مجھے اللہ سائیں
کی قسم ،قرآن کی قسم ،چاچی مجھے اماں کی قسم میں اس شخص کو نہیں جانتی۔۔وہ
تو خالی راستہ پوچھ رہا تھا۔۔میں تو۔۔میں تو اسے راستہ بتا رہی تھی
۔۔۔بھرجائی جھوٹ بول رہی ہے۔۔۔نسرین نے ہاتھ نچا نچا کر کہا ۔۔ہاں تو تجھ
سے کیوں پوچھا تیرا جاننے والا تھا کیا ۔۔چاچی نے نسرین کو ہٹایا اور چپ
رہنے کے لئیے اس کے آگے ہاتھ جوڑے اور پینو کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے آئی
۔۔نسرین بڑبڑاتی ہوئی اندر چلی گئی ،پینو رو رو کر ہلکان ہورہی تھی اور
چاچی کے چہرے کی لکیریں آنے والے وقت کی فکر اور دکھ سے اور گہری ہو
گئیں۔۔
(کیا ہوگا پینو کے ساتھ؟ کیا بالی بھی اس کو قصور وار سمجھے گا یا پینو پر
یقین کرے گا؟ اگلی قسط میں پڑھیں)
|