صدر ٹرمپ افغانستان سے اپنی افواج واپس
بلانا چاہتے ہیں۔ ڈیموکریٹس اور امریکی عوام چاہتے ہیں کہ امریکی فوجی
افغانستان سے واپس آ جائیں۔ اور فوجی تو لازمی چاہتے ہیں کہ وہ افغانستان
سے نکلیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی کو یہ پتہ نہیں کہ یہ کام کیسے ہو
گا یا کیسے کیا جا سکتا ہے؟ بہت سے امریکی اور مغربی دانشور اس بات سے خوف
زدہ ہیں کہ افغانستان سے اچانک انخلا طاقت کا خلا پیدا کر دے گا اور طالبان
اس طاقت کے خلا کو پر کر لیں گے ۔ افغانی سر زمین جلد ہی نا قابل حکومت ہو
جائے گی۔ انارکی پھیلے گی ،القاعدہ لوٹ آئے گی اور امریکی اتحادی وسیع
پیمانے پر قتل کر دیئے جائیں گے۔ ایسے خیالات رکھنے والے یہ بتانے سے قاصر
ہیں کہ پھر کیا کیا جائے اور کیسے افغانستان سے جان چھڑوائی جائے۔ امریکی
اتنے اچھے اور با اخلاق نہیں ہیں اور وہ بھی مسلمانوں کے سلسلہ میں کہ
افغانستان سے نکلنے سے پہلے وہاں استحکام پیدا کر کے جائیں۔ اصولی طور پر
تو انہیں ایسا کر کے ہی جانا چاہیئے کہ انیس برس وہ افغانستان میں کیا کر
رہے تھے؟ اگران سے متفقہ مرکزی اور قومی حکومت ہی نہیں بن سکی۔افغانستان سے
انخلا کا راستہ موجود ہے اور اسے ٹرمپ کی مدت صدارت میں ہی عبور کیا جا
سکتا ہے۔ اس سارے معاملے کو واضح طور پر امریکی عوام و خواص کے سامنے رکھنے
کی ضرورت ہے تاکہ بعد میں کوئی غلط فہمی یا کوئی غلط ردعمل پیدا نہ کرے۔
اور وہ بات ہے ایک مستقل اور واضح تاریخ انخلا کی ۔ اگر امریکہ افغانستان
سے نکلنا چاہتا ہے تو اسے چاہیئے کہ ایک واضح تاریخ کا اعلان کر دے اور پھر
اس پر ڈٹ جائے اور قائم رہے۔ انخلا کی ایک واضح تاریخ ہی اس مسئلے سے جان
چھڑا سکتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے گورباچوف نے اعلان کر دیا تھا کہ روسی
فوجیں جنوری تک افغانستان سے نکل جائیں گی اور اسی مہینے اس نے نکال بھی
لیں۔ روس کی حمائت یافتہ حکومت جس کی سربراہی نجیب اللہ کر رہے تھے نے
امریکی توقعات سے زیادہ عرصہ اپنی حکومت قائم رکھی تھی بغیر روسیوں کی مدد
کے۔ ناقدین بہت چیخیں چلائیں گے کہ امریکہ نے اپنہ منصوبہ پہلے ہی بتا دیا
اور طالبان کو موقع مہیا کر دیا کہ وہ امریکی فوجیوں پر گھات لگائیں۔ انخلا
کے لئے اصل مسئلہ طالبان کا نہیں بلکہ اشرف غنی کا ہے۔ امریکیوں کو چاہیئے
کہ افغانستان سے نکلتے وقت اس کا اور اس کی حکومت کا کوئی ایسا انتظام کریں
کہ افغانستان میں پھر سے خانہ جنگی جیسی کیفیت نہ پیدا ہو جائے اور کابل
حکومت کو انخلا سے پہلے ہی کوئی اٹھا کر باہر پھینک دے۔
ایک مستقل تاریخ دینے اور اس پر قائم رہ کر ہی امریکہ اور اس کے افغانی
اتحادی اپنے مسائل سے نمٹ سکتے ہیں۔ اس سے ان کو یہ بات باور ہو جائے گی کہ
جانے والے اس دن چلے جائیں گے اور ہم نے اس دن سے پہلے پہلے افغانستان میں
ایسی حکومت قائم کرنی ہے جو امریکی انخلا کے بعد بھی سب کے لئے قابل قبول
ہو اور سب اس کو مانیں نہ کہ گوریلہ جنگ میں ملوث ہو جائیں۔ امریکہ کو
طالبان سے مذاکرات کرتے وقت یہ بات نظر میں رکھنی چاہئے کہ وہ وہاں سے جا
رہے ہیں اور ان کی اتحادی حکومت کو محض کٹھ پتلی سمجھا جاتا ہے جو امریکیوں
کے زور پر قائم ہے۔ اس تاثر کو ختم کرنا ہو گا اور اس کا واحد حل یہ ہے کہ
ایک حتمی تاریخ انخلا دے دی جائے اور اشرف غنی کو کھلی اجازت دے دی جائے کہ
وہ اپنی حکومت قائم رکھنے کے لئے اپنے ہاتھ پاوں مار لے۔ میرے خیال میں
طالبان سے مذاکرات اس بات پر کئے جاتے ہیں کہ وہ امریکی فوجوں کے انخلا میں
کیا کردار ادا کریں گے اور ان کے جانے کے بعد اشرف غنی کے ساتھ کیا سلوک
کیا جائے گا؟
امریکی خود مذاکرات کی بجائے اشرف غنی حکومت سے کہیں کہ وہ طالبان اور
دوسرے گروپوں سے گفت و شنید کر کے کوئی لائحہ عمل طے کرے جس میں حکومت بھی
بچی رہے اور امریکی بھی بخیروعافیت وہاں سے نکل آئیں۔ کب تک افغانی نیٹو
فورسز اور امریکی فوجیوں کے بھروسے پر اپنے ہی بھائی بندوں کے ساتھ دشمنی
بنائے رکھیں گے۔ امریکی ایک حتمی تاریخ کا اعلان کر دیں اور سارے معاملات
اشرف غنی کے سپرد کر دیں ۔ اسے خودمختار بنا دیں کہ وہ ان کے جانے کے بعد
اپنا ذمہ دار خود ہو گا۔یا تو وہ امریکیوں کے ساتھ ہی چلا جائے گا یا پھر
کوئی بہتر راستہ نکال لے گا۔ |