"سانحہ پشاور" غم کی سیاہی کو معصوم گلابوں کے خون سے رنگ ڈالا

سانحہ پشاور غم کی سیاہی کو معصوم گلابوں کہ خون سے رنگ ڈالا

پانچ برس بیت چکے ہیں ۔آج 16 دسمبر کی وہی رات ہے جس رات محب وطنوں کے دلوں پر غم کے سیاہ بادل چھائے رہتے ہیں۔ کیونکہ اس سیاہ رات کے بعد طلوع ہونے والے سورج کا دن بھی ایک سیاہ دن ہی ہوتا ہے۔ جب دل غمگین ہوں تو راتوں کو نیند نہیں آتی کچھ ایسا ہی عالم رات کے اس پہر کا بھی ہے۔

جب دل 16 دسمبر کی ان غمگین راتوں کو یاد کرکے رنجیدہ ہے سقوط ڈھاکا کے سیاہ بادل کیا کم تھے ان سرد راتوں میں غم سے آنکھیں عکش بار کرنے کو کہ ملک دشمن ظالم درندوں نے درندگی میں حیوانوں کو بھی اپنا ثانی نہ چھوڑتے ہوئے میرے وطن کے غموں کی ان سیاہی کو میرے وطن کے مستقبل کے میرے چمن کے پھولوں کے میرے باغوں کی کلیوں کے ان معصوم گلابوں کو میرے وطن کی ماؤں کے ان معصوم لعلوں کے خون سے رنگ ڈالا۔آج کی رات جب میں اپنے گلشن کے ان معصوم شہید پھولوں کو یاد کر رہا ہوں اور ان پر ڈھائے گئے مظالم کو پڑھ رہا ہوں تو میری زبان الفاظوں کا ساتھ نہیں دے پا رہی اور غم اس طرح تازہ ہو رہا ہے کے یہ کربلا ابھی ہی برپا ہو ر ہوا ہو۔میرے سامنے 146 شہیدوں کی زندگی کی داستانیں جن میں 132 وہ معصوم پھول جو مستقبل میں اس چمن کو سرسبز و شاداب بنانے کے لئے اپنے گلشن میں موجود تھے اور 14 وہ بہادر اساتذہ ان پھولوں کو خوبصورتی کے ساتھ تراشنے کا کام سرانجام دے رہے تھے موجود ہیں۔الفاظ ہی نہیں جو ان شہداء کے لواحقین کے دکھ پر مرہم رکھ سکیں اور ان کے دکھ کا مداوا کر سکیں الفاظ تو کیا میں اس ماں کی تکلیف کو محسوس تک نہیں کرسکتا جو اس دن اس پر اپنے لخت جگرکی جدائی کی صورت میں قیامت بن کر برپا ہوئی ہوگی ہوگی۔ روح کانپ جاتی ہے یہ سوچ کر کے ان چالیس ماؤں کا دکھ کتنا تکلیف دہ ہوگا جن کے پاس اپنے کلیجے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اس کا کوئی نعم البدل ہی نہیں رہا اب جس کے پاس اب کوئی اور اولاد ہی نہیں۔ان خاندانوں کی تکلیف جن کی نسل ہی ختم کردی گئی۔ان معصوم شہداء کی ماؤں کے لیے ہر دن ہی قیامت ہوتا ہوگا جب وہ اپنے لخت جگر کو یاد کرتی ہوگی اسے آواز دیتی ہوں گی لیکن اب وہ اس کے آنچل سے نہیں چمٹتا ہوگا کی اور اگلے ہی لمحے اسے احساس ہوتا ہوگا کہ اب تو اس کا لخت جگر اس کا وہ معصوم پھول جنت کے باغیچے کا پھول بن چکا ہے ۔

اس باپ کی تکلیف کا کیا عالم ہوگا جو مشکل سے مشکل حالات اور تکلیف میں آنسو نہیں بہاتا لیکن لخت جگر کی جدائی کے غم نے اس کے برداشت کا مادہ ہی ختم کردیا ہوگا وہ بے بس باپ جو آنسو بہا بہا کر اپنے لخت جگر کے ساتھ ہونے والے مظالم پر انصاف کی بھیک مانگ رہا ہوگا اور انصاف بھی وہ جو اسے نہ اسکا لخت جگر واپس کر سکتا ہے نہ دکھ کا کوئی مداوا ۔

کربلا کے اس منظر میں ایک معصوم بچی خولہہ بی بی بھی تھی جو اس کربلا کی سب سے ننھی شہید اور واحد لڑکی تھی جس کی عمر صرف چھ سال تھی جس کے اسکول کا پہلا دن تھا اس معصوم خولہہ کی ماں کی ممتا کا کیا عالم ہوگا جو پھوٹ پھوٹ کر صرف یہ دوہایاں دے رہی ہوگی کہ اس نے اپنی بچی کو اسکول ہی کیوں بھیجا ۔اس ماں کے دل کا کیا عالم ہوگا جس کا بچہ اپنی سالگرہ کے دن ہی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ارے اس ماں کے دکھ کا کیا عالم ہوگا جس نے اپنے بچے کو یہ کہہ کر اسکول بھیجا تھا کہ واپس آؤ گے تو تمہاری پسند کا کھانا بنا کے رکھوں گی اس معصوم کی پسند کا کھانا ہی اس کے جنازے کا کڑوا کھانا بن گیا ۔ان معصوم شہداء اور ان کے لواحقین کی تکلیف اور ان پر ڈھائے گئے مظالم اور ان کی داستانوں پر روشنی تک ڈالنا بہت بڑے ضبط کا کام ہے۔آج رات جب میرا ان معصوم شہداء و کی تکلیفوں اور ان پر ڈھائے گئے مظالم پر روشنی ڈالتے ہوئے دل اتنا غمگین اور تکلیف دہ ہے تو آج کی رات ان ماں باپ کے لئے کتنی تکلیف دہ رات ہوگی جو صرف وہی جانتے ہیں اور کوئی محسوس بھی نہیں کرسکتا ۔

وہ مستقبل کے معمار مستقبل میں کیا بننا چاہتے تھے۔سب کی اپنی ایک الگ خواہش تھی کچھ خواب تھے جن کہ جلد پورا ہونے کی وہ دعائیں کرتے ہونگے۔ لیکن زندگی نے تو ان کے لئے کچھ اور ہی طے کیا ہوا تھا یا پھر جنت نے ان پھولوں کو پہلے ہی مانگ لیا ہوگابس اب تو یہی باتیں دکھ کا مداوا کرتی ہیں۔
 
اس واقع کو صرف ایک واقع سمجھ کر بھلا دینا ان معصوم شہدا کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔ درندگی کی اس سے بد ترین مثال ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی جب ملک دشمن قوتوں نے آرمی پبلک اسکول کہ معصوم طالب علموں کے خون سے ہولی کھیلی۔ان مناظر کو دیکھنا اتنا تکلیف دے ہے جس میں معصوم بچوں کا خون پانی کی طرح فرش پر بکھرا ہوا ہے۔ اسکول کی کلاسز ہو اسمبلی ہال ہو یا کوئی اور جگہ ہر طرف لاشیں ہی لاشے ہیں۔یہ خونی مناظر آج بھی ہمارے سامنے ہہیں۔اور چیخ چیخ ریاست کو متحد ہو کر ملک دشمن قوتوں سے مقابلہ کرنے اور اس ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کی دہائیاں دے رہاہے۔ہماری فوج ہماری محافظ سرحدو پر اس سانحہ کے بعد سے ہی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں اور ہزاروں دہشت گردوں کو اب تک جہنم واصل کر چکے ہیں۔اس غمگین دل اور نم آنکھوں سے بس خدا سے یہی التجہ ہے کہ خدا اس سانحہ سے منسلق شہدا کے تمام لواحقین کو صبر عطا کرے اور وطن عزیز کو دشمنوں کی تمام ساشزوں سے محفوظ رکھے ۔آمین
 

Muhammad Ibrahim Jethwa
About the Author: Muhammad Ibrahim Jethwa Read More Articles by Muhammad Ibrahim Jethwa: 5 Articles with 12978 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.