نعروں سے ریاست نہیں چلا کرتی بلکہ یہ ٹھوس منصوبہ بندی
اور بہتر حکمتِ عملی سے چلتی ہے۔اسے خونِ جگر سے چلایا جاتا ہے۔اس کے لئے
جرات و ہمت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔اسے عقل و دانش کی باریکیوں سے رنگا جاتا
ہے۔اس کے لئے مصلحت انگیزی کو خدا حافظ کہنا پڑ تا ہے ۔ اس کے لئے حکومت کی
بقا کو مدِ نظر نہیں رکھا جاتا۔ریاستی تسلسل ہر قسم کی سودے بازی سے با لا
تر ہوتاہے۔ریاست کے سامنے قائد کی جماعت اور ذات غیر اہم ہوتی ہے۔ریاست
کوبزدلی اور کم ہمتی سے رواں دواں نہیں رکھا جا سکتا۔کاروبارِ ریاست کی بجا
آواری میں دشمن کی ہیبت اور اس کی عددی اکثریت بھی سدِ راہ نہیں بنتی بلکہ
ایک اصول کی خاطرڈٹ جانا ہی ریاست کا تقاضہ قرار پاتا ہے ۔حالات کے جبر اور
دشمنوں کی یاوہ گوئی سے ریاستی پالیسی کو خیر آباد نہیں کیا جاتا۔پاکستان
کا بیانیہ ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور پاکستان کے اس موقف کی
تائید عالمی ضمیر بھی کرتا ہے۔سیکورٹی کونس کی قرار دادیں پاکستانی موقف کو
ھق بجانب قرار دیتی ہیں اور کشیرکی قسمت کا فیصلہ کشمیریوں کی رائے سے کرنے
کا اعادہ کرتی ہیں ۔ پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستانی ریاست اسی موقف کے ساتھ
کھڑی تھی اور بھارتی حکومت پاکستان کے موقف کے سامنے ٹھہرنے کی جرات نہ کر
سکتی تھی۔بھارت میں کئی حکومتیں آئیں لیکن کشمیر کو ہڑپ کرنے کی کوئی جرات
نہ کر سکا۔مودی بھی اپنے سابقہ دور میں کشمیر کو ہڑپ کرنے کا حوصلہ نہ کر
سکا اور یوں کشمیری امید کی لڑی میں پروئے آزادی کے خواب کوحقیقت میں
ڈھالنے کے لئے قرباانیوں کی داستان رقم کرتے رہے کیونکہ انھیں یقین تھا کہ
ان کی قربانیاں ایک دن انھیں آزادی کی نعمت سے سرفراز کریں گی۔لیکن پھر نہ
جانے کیا ہوا کہ چند ہفتے قبل بھارت نے آرٹیکل ۳۷۰ اے کا خاتمہ کر کے کشمیر
کی خصوصی حیثیت ختم کرڈالی اور یوں ستر سالوں سے متنازعہ علاقہ بھارتی عمل
داری میں چلا گیا۔یہ ایک غیر معمولی صورتِ حال تھی جس کے جھٹکے ریاست نے
محسوس کئے اور عوام غصے اور نفرت کی تصویر بن گے لیکن ان نازک اور تاریک
لمحات میں حکومت نے کمبل میں منہ چھپا لیا اور بھارت کو کھلی چھٹی دے دی کہ
وہ اپنے مذموم ایجنڈے کو تکمیل سے ہمکنار کر لے ۔بھارت کوکھلامیدان دیا گیا
تا کہ کشمیر کا مسئلہ سدا کے لئے عالمی منظر نامے سے ہٹ جائے ۔ حکومت اپنی
کمزور معاشی حالت اور غیر ذمہ دارانہ قیادت کی وجہ سے اقوامِ عالم میں
تماشہ بنا ہوا ہے۔بھارت سینہ تان کر کشمیر پر قابض ہو چکا ہے لیکن حکومت
محض بیانات کا سہارا لے کر عوام میں اپنی ساکھ بچانے کی کوشش کر رہی
ہے۔عوام حکومت سے جس طرح کی توقعات لگائے بیٹھے تھے انھیں مکمل مایوسی کا
سامنا کرنا پڑاہے ۔وہ بھارت کو للکارنا چاہتے ہیں لیکن حکومت بڑھکوں اور
بیانات کو ڈھال بنائے ہوئے ہے ۔کیا یہی اس مسئلہ کا حل ہے؟قومیں سچائی کا
ساتھ دینے سے عظیم بنتی ہیں ۔ویت نام میں امریکی تسلط کے خلاف جدو جہد کا
راستہ اپنانا ایک غیر معمولی فیصلہ تھا لیکن ہوچی منہ کی قیادت میں ویت
نامیوں نے مزاحمت کی راہ اپنانے کا فیصلہ کیا اور یوں کئی عشروں کی جدو جہد
کے بعد امریکہ کو ہزیمت سے ہمکنار ہو نا پڑا۔معمولے شہباز سے سدا نبرد آزما
رہے ہیں اور حتمی فتح معمولوں کا مقدر بنتی ہے کیونکہ تاریخ ہمیشہ جانبازوں
کی جراتوں کو تھپکی دیتی ہے۔
۹۰ سالہ کشمیری راہنما سید گیلانی کا عمران خان کے نام آخری خط دل دہلا
دینے والا ہے۔ان کا یہ کہنا کہ کشمیریوں کو گھروں سے اٹھا یا جا رہا ہے اور
انھیں کن نا معلوم مقامات پر منتقل کیاجا رہا ہے ہمیں بالکل علم نہیں ہے۔
اٹھائے جانے والوں میں قوم کی بیٹیاں بھی ہیں جو پاکستان کی عزت و آبرو ہیں
اور جب عزت و آبرو دشمن کی تحویل میں چلی جائے اور حکومت چپ کا روزہ رکھ لے
تو قومیں اپنا تشخص کھو دیتی ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ یہ میرا آخری خط ہے اور
اگر اب بھی اس پر کوئی اقدام نہ لیا گیا تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہے
گا۔حکومت کیا چاہتی ہے ؟ حکومت کی منصوبہ بندی کیا ہے؟حکومت کس طرح اس
مسئلے سے نپٹنا چاہتی ہے؟ حکومت کی خارجہ پالیسی کیا ہے؟ حکومت کہاں کھڑی
ہے؟ حکومت کس کے اشارے پر خاموش ہے؟حکومت کو عالمی سپر پاور سے کیا اشارے
ملے ہیں؟ حکومت کی ترجیحات کیا ہیں؟ کوئی شخص بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ
سکتا۔حکومت اپنے حال میں مست ہے اور اس کے ڈھنڈورچی اپنی کامیاب خارجہ
پالیسی کا ڈھنڈوراپیٹ رہے ہیں۔ان کی آواز میں آواز ملانے والوں کی کمی نہیں
ہے ۔مفادات کا سودا کرنے والوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے۔وہ شکست کو فتح کا
لباس پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔پوری قوم سوگ میں ہے کہ بھارت نے کشمیر کو
ہرپ کر لیا ہے اور کشمیری اذیت سے گزر رپے ہیں لیکن ہمارے وزیرِ اعظم
اپوزیشن کو للکارنے میں جٹے ہوئے ہیں ۔ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔میں سب
کو جیل میں بند کر دوں گا جبکہ آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف
پہلے ہی جیلوں سے رہائی پا چکے ہیں۔وزیرِ اعظم کی نعرہ بازی اپوزیشن کو
ڈرانے دھمکانے اور خوفزدہ کرنے کے لئے ہے لیکن اپوزیشن کسی خوف کا شکار
ہونے کی بجائے انھیں کھلے عام چیلنج کر رہی ہے۔کاش کوئی ایسا لمحہ بھی
آجاتا جب عمران خان بھارتی وزیرِ اعظم کو لکارتے اور انھیں متنبہ کرتے کہ
کشمیر پر بھارتی قبضہ اقوامِ متحد ہ کی قرار دادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے
اور پاکستانی قوم اس خلاف ورزی کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔اگر تم
نے اک مقررہ مدت میں کشمیر سے اپنی فوجیں واپس نہ بلائیں تو پاکستان کشمیر
میں اپنی فوجیں بھیجنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کریگا ۔ عالمی امن
ہمیں دل و جان سے عزیز ہے لیکن کشمیریوں کا مقدس خون اتنا ارزاں نہیں کہ
بھارت اپنی سفاکیت سے اسے سڑکوں پر بہاتا رہے۔اقوامِ متحدہ نے کشمیر کو
متناعہ علاقہ قرار دیا ہے لہذا اس پر یک طرفہ قبضہ امنِ عالم کے لئے ایک
خطرہ ہے۔اس خطرہ سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ بھارت کشمیر سے اپنی
افواج کو واپس بلائے اور کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق تفویض
کرے۔پاکستان کشمیر پر خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا کیونکہ اقوامِ متحدہ نے
اسے ایک فریق تسلیم کیا ہوا ہے ۔ بھارت کی کلائی مرو ڑنا جنگ کو ہوا دینا
نہیں بلکہ امن کو یقینی بنانا ہے۔ظالم کو ظلم سے روکنا حقیقی امن کو رائج
کرنا ہے۔ پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے
سامنے آہنی دیوار بن جائے ۔بھارت کو معذرت خوانہ موقف سے نہیں بلکہ جرات
مندانہ موقف سے ہی جھکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔جرات مندانہ موقف عظیم
قیا دت کا خاصہ ہوتا ہے جبکہ ہماری موجودہ قیادت ذ اتی مصلحتوں کی شکار
ہے۔وہ بھارت کو للکارنے کی بجائے طفل تسلیوں سے کام لے رہی ہے۔عمران خان دو
نیو کلئیر قوموں کے درمیان جنگ کی تباہ کاریوں پر لیکچر تو دیتے ہیں لیکن
کشمیریوں پر جو بیت رہی ہے اس کا نھیں کوئی احساس نہیں ہے۔ ۵ اگست ۲۰۱۹ سے
شروع ہونے والے کرفیو نے کشمیریوں کی ذات پر جو تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں
اس کی انھیں پرواہ نہیں ہے ۔ان کا حال سننے کیلئے وہ تیار نہیں ۔وہ
کشمیریوں کو آگ کے ایک ایسے اندھے کنویں میں دھکیل رہے ہیں جس کا منطقی
نتیجہ کشمیریوں کی تباہی ہے۔کاش کوئی کشمیریوں کو موت کی بجائے زندگی کی
نوید سنائے اور ان کے سامنے ایک ایسی بساط سجائے جس میں انھیں آزادی کی رمق
نظر آئے ۔
|