قانون شکن عناصر میں تمیز کرنا ہوگی ․․!

ریاست پاکستان کا صرف ایک مسئلہ ہے،وہ ہے نا انصافی۔ملک میں قانون کی حکمرانی کبھی بھی نہیں رہی ہے۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا رویہ عام رہا ہے۔انصاف کا نعرہ تو گاہے بہ گاہے لگایا گیا،مگر یہ نعرہ صرف اپنے ذاتی مقاصد کے حصول تک رہا،لیکن وقت آنے پر قانون کی حکمرانی قائم کرنے والوں نے ہی اپنے پاؤں کے نیچے روندا ہے۔اپنی حکمرانی بچانے کے لئے وہی جوڑ توڑ کا چلن جاری رکھا ہے۔پارلیمانی طرز حکومت پر سب سے بڑا الزام یہی آتا ہے کہ جوڑ توڑ اس کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)کی حکومت پر تحریک انصاف نے جوڑ توڑ کے الزامات لگائے ۔انہیں این آر او دینے پر چیخ و پکار کی اور ملک دشمنی کہا ۔این آر اوکو جنرل (ر) پرویز مشرف نے بھی اپنی زندگی کی بڑی غلطی ہونے کا اعتراف کیا۔

ہمارے ہاں نا انصافی اور این آر او کی لمبی فہرست ہے۔این آر او کی تفصیل عوام سے چھپانے کی کوشش کی گئی،مگر آخر یہ تمام تر واقعیات ایک ایک کر کے سامنے آتی رہی ہیں۔یہ تمام این آر او حکمرانوں نے اپنے اپنے وقت میں اپنے مفادات کے لئے کیے ۔ریمنڈ ڈیوس، مصطفٰی کانجو،آسیہ مسیح،میاں نواز شریف،آصف علی زرداری وغیرہ ایسی ہی مثالیں ہیں ۔عمران خان کے اسلام آباد دھرنے کے دوران پی ٹی وی پر قبضے اور پارلیمنٹ پر حملے کا مقدمہ سارے شواہد کے باوجود سرد خانے میں پڑا ہے۔تحریک انصاف سمیت کئی سیاسی پارٹیوں کے مشکوک فارن فنڈنگ کے کیس بھی سرد خانے میں منجمند ہیں۔سانحہ ساہیوال کی تفتیش نے عوام کا حکومت پر سے اعتماد ہی ختم کر دیا ہے۔یہاں کوئی بااثر شخصیت قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتی ہے ۔اس سے پوچھا جاتا ہے کہ ’’بتا تیری رضا کیا ہے‘‘،اور اسی کی مرضی کے مطابق اسے راضی کر دیا جاتا ہے۔

یہ نا انصافیوں اور غیر قانونی حرکات کا سلسلہ ملک بھر میں با اثر اشخاص نے جاری رکھا ہوا ہے۔وزیر اعظم عمران خان دوسروں پر تنقید کرتے کوئی حد متعین نہیں رکھتے،مگر خود جہاں بنی گالہ میں رہائش پزیر ہیں،وہاں غیر قانونی تعمیرات کر رکھی ہیں۔انہیں کی وجہ سے بنی گالہ کے دیگر با اثر لوگوں نے بھی غیر قانونی تعمیرات کر رکھی ہیں ۔اصولی طور پر ان تمام تعمیرات کو بلڈوز کرنے کا حکم آنا چاہیے تھا،لیکن ایسا نہیں ہوا بل کہ بنی گالہ میں ہونے والی غیر قانونی تعمیرات کو ریگولرائز کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔اگر بنی گالہ کی تعمیرات جائز ہیں تو ملک بھر میں اس قانون کا اطلاق ہوتے ہوئے تمام غیر قانونی تعمیرات کو ریگولرائز کر دینا چاہیے تھا۔

عمران خان کی شعبدہ بازی عوام کے سامنے کھل چکی ہے۔ان کا مرکزی نعرہ تھاکہ ’’این آر او نہیں دوں گا‘‘۔لیکن گزشتہ چند ہفتوں میں عوام نے دیکھا کہ یہ نعرہ ہوا ہو چکا ہے۔میاں نواز شریف نے ڈنکے کی چوٹ پر جن سے این آر او لینا تھا لے کر شان سے نہ صرف خود گئے بل کہ اپنے بھائی میاں شہباز شریف کو ہنگامی صورت حال کے خدشات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ساتھ لے کر گئے ہیں ۔اب ان کی صاحبزادی نے بھی لندن جانے کے لئے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔وہ بھی چلی جائیں گی۔آصف علی زرداری کو بھی ضمانت پر رہائی ملک گئی ہے۔ان پر سنگین جرائم کے مقدمات ہیں،لیکن اب وہ ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔اگر چاہیں گے تو وہ ملک سے باہر بھی چلے جائیں گے ۔

ماضی میں کرپشن کے بڑے بڑے الزامات لگا کر پہلے اقتدار پر قبضہ کیا جاتا ،سابق حکمران جیلوں میں بند کئے جاتے اور پھر جوڑ توڑ کے بعد ایک معاہدہ ہوتا اور معتوب سیاست دان بیرونِ ملک بھیج دیئے جاتے تھے ۔فی الحال معاہدے کی بات مارکیٹ میں نہیں آئی ،لیکن حقیقت یہی ہے کہ معاہدہ یا این آر او کچھ بھی کہا جائے،طے پا چکے ہیں۔ریاست میں ایک بار پھر اپنی آئینی رٹ قائم کرنے کی بجائے سمجھوتوں والی پرانی روایت دہرانے جا رہی ہے۔ایک وقت ایک حریف پارسا ہوتا ہے اور دوسرے بار دوسرا پارسائی کا دیوتا بن جاتا ہے ۔

عمران خان اور ان کی حکومت سے سوال یہ ہے کہ آپ تو تبدیلی کا ایجنڈا لے کر اقتدار میں آئے تھے،مگر ریاست کے حالات تو پہلے سے بھی بد ترین ہو چکے ہیں۔یہاں وہ کچھ ہو رہا ہے جو ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ایسی شرمناک واردات ریکارڈ ہوئیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔اپنی ناکامی کو مان جائیں ۔آپ ریاست کی رٹ قائم نہیں کر سکے ۔مجرموں کو بلا تفریق جرائم کی سزا قانون کے مطابق دینے کا رواج شروع کرنا پڑے گا۔مجرموں کو کب یقین ہو گا کہ قانون کی پکڑ اور سزا سے کسی صورت نہیں بچ سکیں گے ۔عام عوام پاکستان میں ریاست کی رٹ قائم ہوتا دیکھنا چاہتی ہے ۔اسی لئے انہوں نے آپ کی باتوں میں آ کر آپ کو ووٹ دیا اور اقتدار کے مسند تک پہنچانے میں مدد کی،ویسے تو آپ نے یہاں تک پہنچ ہی جانا تھا لیکن عوام کا ساتھ بھی بہر حال بہت بڑا رہا ہے ۔اب بہت ہو چکا ،قانون کا احترام کرنے والوں اور قانون شکن عناصر میں تمیز کی جائے۔جس نے قانون کے خلاف کام کیا ہے اسے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔وہ چاہے بادشاہ عمران خان ہو یا بادشاہ خان ریڑھی والا ہو۔مزید ٹال مٹول نہ کی جائے ۔
 
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95613 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.