مہاراشٹر سرکار اور حزب اختلاف کا دھرم سنکٹ

مہاراشٹر کی نومولود مخلوط حکومت کے لیے شہریت ترمیم کا بل پہلا دھرم سنکٹ بن کر آیا اور اس نے شیوسینا کے رہنما ادھو ٹھاکرے کو پل صراط پر کھڑا کردیا۔ اس بل کی شیوسینا کے ترجمان سامنا میں جم کر تنقید کی گئی اور حکومت سے کئی تیکھے سوالات کیے گئے مثلاً کشمیر میں کتنی سرمایہ کاری ہوئی ، کتنے پنڈت واپس گئے وغیرہ ۔ اس نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان "پوشیدہ تقسیم” کی کوشش کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ہندو غیر قانونی تارکین وطن کی "انتخابی قبولیت” ملک میں مذہبی جنگ کے محرک کا کام کرے گی۔ مقامی لوگوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے تارکین وطن کو پچیس سالوں تک ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھنے کی تجویز پیش کی ۔ اس سے یہ گمان ہونے لگا کہ مبادہ جب یہ بل لوک سبھا میں پیش ہوگا تو شیوسینا اس کی مخالفت کرے گی لیکن جس دن یہ اداریہ چھپا اسی روز ایوان زیریں میں شیوسینا نےبل کی حمایت کردی ۔ اس طرح ساری خوش فہمیاں دور ہوگئیں ۔

لوک سبھا میں سینا کے رکن پارلیمان اروند ساونت نے این ڈی ٹی وی کو بتایا ، "ہم نے قوم کے مفاد میں اس بل کی حمایت کی ہے۔ سی ایم پی (مشترکہ کم سے کم پروگرام) صرف مہاراشٹر میں لاگو ہےحالانکہ وہ اپنے رائے دہندگان سے ڈر گئے تھے۔ایوانِ زیریں میں تو خیر بی جے پی کو اکثریت حاصل ہے لیکن ایوان بالا میں فروری کے اندر یہ بل ناکام ہوگیا تھا اس لیے بہت سارے لوگوں کوا مید تھی کہ وہاں پر یہ قانون پاس نہیں ہوسکے گا ۔ اس کے لیے ایک ایک ووٹ اہم تھا یہی وجہ ہے کہ ممبئی کی مختلف مذہبی، ملی اور سماجی تنظیموں کے موقروفد نے شہریت ترمیمی بل ( CAB ) کے سلسلے مہاراشٹر کے وزیر اعلی اور شیوسینا کے صدر ادھو ٹھاکرے سے اُن کے سرکاری دفتر میں ملاقات کی ـ مولانا محمود دریا بادی کی قیادت میں وفد نے مجوزہ بل کے بارے میں وزیر اعلی کو بتایا کہ یہ ہندوستان کے آئین اور قانون کے خلاف ہے۔ وطن عزیز میں پہلی بار مذہبی بنیادوں پر تفریق کرنے والا قانون بننے جارہا ہے، اس قانون کے ذریعے ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو ان کے شہری حقوق سے محروم کرنے کی سازش کی جارہی ہے ـ اگر یہ قانون بن گیا تو اس سے ملک کی یکجہتی اور سالمیت خطرے میں پڑسکتی ہے۔

وزیراعلیٰ کو وفد نے خبردار کیا کہ اس کا فائدہ اٹھا کر ملک دشمن طاقتیں جعلی کاغذات کے ذریعہ ہندو، سکھ، عیسائی وغیرہ کے بھیس میں اپنے جاسوس بھیج سکتی ہیں جو خفیہ ایجنسیوں، پولیس، فوج وغیرہ میں ملازمت حاصل کرکے ملک کا تحفظ کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں ۔ مسلم وفد کی گفتگو سننے کے بعد وزیر اعلی نےیقین دلایا کہ وہ انسانیت کی بنیاد پر ملک کے حق میں ووٹ بنک کی پرواہ کئے بغیر کام کرتے ہیں، اسی لیے سینا نے لوک سبھا میں نئےشہریوں کے لیے پچیس سال تک ووٹ دینے کا حق نہ دینے کی تجویز رکھی تھی ۔ ا دھو ٹھاکرے نے مزید کہا کہ ملک کے وزیر داخلہ نے لوک سبھا میں سبھی سوالات کے جواب دئیے مگر شیوسینا کا کوئی جواب نہیں دیا ـ اس لئےانہوں نے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک سارے سوالات کا جواب نہیں مل جاتا تب تک اس بل کی راجیہ سبھا میں مخالفت کی جائے گی ۔ شیوسینا کے لیے اس وعدہ کی پاسداری بھی ممکن نہیں ہوسکی لیکن اس نے کم کہ حمایت کے بجائے واک آوٹ پر اکتفاء کیا۔ اس طرح ’پاسباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی‘ کی پالیسی پر عمل کیا گیا۔

مہاراشٹر کا سرمائی اجلاس سے پہلے ایک روایتی چائے پارٹی میں میڈیا کے افراد سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ اُدھو ٹھاکرے نے کہا کہ اُن کی سرکار، عدلیہ کی طرف سے آئینی توثیق اور شہریت کے ترمیمی قانون کے بارے میں شیو سینا کی طرف سے اُٹھائے گئے سوالات کے نمٹارے کے بعد ہی اِس قانون کے نفاذ پر کوئی فیصلہ کرے گی۔ یعنی یہ بین بین جواب نہ تو ہاں میں ہے اور نہ ہی نہ میں ہے لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ سے متعلق ایک بیان دے کر ادھو ٹھاکرے نے سیاسی حلقوں میں دھماکہ کردیا ۔ انہوں نے کہا ملک اور صوبے میں عدم استحکام کا ماحول تیار کیا جارہا ہے۔ دہلی کی یونیورسٹی( جامعہ ملیہ) کے احاطے میں طلبا پر گولی باری دیکھ کر یہ شک ہوتا ہے کہ کیا ملک میں جلیانوالا باغ قتل عام جیسی ماحول سازی کی جاری ہے؟ وزیر اعظم بار بار یہ کہتے ہیں کہ عنقریب دنیا میں سب سے زیادہ نوجوانوں والا ملک ہندوستان ہوگا۔ یہ نوجوان قوت ایک بم کی طرح ہے۔اس کے فیتے کو چنگاری لگانے کی کوشش نہ کی جائے ۔وزیراعلیٰ نےانتباہ کیا کہ جس ملک کے نوجوان بپھر جائیں وہ مستحکم نہیں رہ سکتا ۔ نوجوان ملک کی طاقت اور مستقبل کا ستون ہیں ۔ اس لیے انہیں مشتعل نہ کیا جائے۔ بی جے پی پر اپنے سابق حلیف کی جانب سے یہ تنقید کس قدر گراں رہی ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

بی جے پی نے ریاستی اسمبلی کے سرمائی اجلاس سے قبل وزیراعلیٰ کی چائے پارٹی کا بائیکاٹ کرنے کے لیے ساورکر کا سہارا لیا ہے۔فردنویس نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ، کوئی وزیرنہیں، کوئی فیصلہ نہیں، یہ صرف ایڈجسمنٹ حکومت ہے۔ ویرساورکرکی توہین کرنے والوں کے ساتھ ہم چائے نہیں پی سکتے۔ انہوں نے لکھا کہ شیوسینا پہلے جیسی جارح نہیں رہی بلکہ اقتدارکےلئے بےبس ہے۔ راہل گاندھی ویرساورکرکی قربانی کو نہیں سمجھ سکتے، لیکن ملک اس کے خلاف مشتعل ہوچکا ہے۔ شیوسینا ایسی سودےبازی کرے گی، اس کا تصورہم (بی جے پی) نے نہیں کیا تھا۔دیویندرفردنویس نے کانگریس کے رہنماراہل گاندھی سے ان کے 'میرا نام راہل ساورکرنہیں' والے تبصرہ پر بلا شرط معافی مانگنے کا مضحکہ خیز مطالبہ کیا ہے جبکہ اس بیان میں یہ بات کہی گئی ہے کہ وہ مرجائیں گے مگر معافی نہیں مانگیں گے۔ اس طرح جذباتی مسائل کو اچھا ل کر بی جے پی شیوسینا کو گھیرنے کی کوشش کی ۔

ساوکر کی بابت جب وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے سے نامہ نگاروں نے وضاحت طلب کی تو انہوں اپنے رائے دہندگان اور حامی جماعتوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی سعی کی ۔ وہ بولے گاندھی جی اور پنڈت جواہر لال نہرو کی طرح ویر دامودر ساورکر بھی قوم کے لیے باعثِ افتخار ہیں۔ انہوں نے بھی ملک کی آزادی کے لیے زندگی قربان کی ہے لہٰذہ ساورکر کے احترام سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ اس بیان میں گاندھی کے ساتھ نہرو کا ذکر بی جے پی کے لیے سمِ قاتل سے کم نہیں ہے۔ اس کے بعد ادھو نے شہریت ترمیم قانون کو ساورکر کے نظریات کی خلاف ورزی بتاکر بی جے پی کو گھیرنے کی کوشش کی۔ وزیراعظم پر نشانہ سادھتے ہوئے ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ جس پارٹی کا رہنما ’چائے والا‘ہے اس کا عالمی چائے دن کے موقع پر چائے پارٹی کا بائیکاٹ کرنا افسوسناک ہے۔ بی جے پی کو گھیرنے کے لیے انہوں نے کہا کہ جنوبی ممبئی میں ہزاروں کروڈکی لاگت سے بننے والے چھترپتی شیواجی میموریل کی تعمیر میں کروڈوں کا گھپلا ہوا ہے جس کی اعلیٰ سطحی تفتیش ہوگی ۔

اسمبلی کے اندر دیویندر فردنویس نے اپنے خطاب میں سینا رہنما سنیل پربھو کے ذریعہ بال ٹھاکرے سے قبل شرد پوار کے ذکر پر اعتراض کرتے ہوئے بال ٹھاکرے کے تئیں ہندو ہردیہ سمراٹ کی حیثیت سے عقیدت کا اظہار کیا ۔ انہوں نے ماضی میں شیوسینا کے ترجمان سامنا کے اندر شرد پوار سے متعلق لکھے جانے والے تبصروں کا تراشے بھی پڑھ کر سنائے ۔ اس پر ارکان نے انہیں ان کا پرانابیان یاد دلایا کہ جس میں کہا گیا تھا کہ وہ سامنا نہیں پڑھتے۔ اس پر فردنویس بولے اب وہ اس کے خریدار بن گئے ہیں ۔ یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ جب شیوسینا ساتھ تھی تو اس کے ترجمان کو دیکھنا تک گوارہ نہیں تھا اور اب اس میں سے گڑے مردے اکھاڑے جارہے ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں فی الحال ایک دوسرے کی قبر کھودنے میں مصروف ہیں اس لیے ان کے حملوں سے کانگریس اور این سی پی پوری طرح محفوظ ہے ۔ زعفرانیوں کی یہ مہابھارت دن بہ دن دلچسپ ہوتی جارہی ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223634 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.