امت مسلمہ کی 1400 سالہ ہسٹری
میں یہو و ہنود نے جب کبھی امہ کو شکست سے دوچار کیا تب انہوں نے مسلمانوں
کی رگوں میں فسق و فجور اور نفاق کا زہر گھولا۔ امت مسلمہ جب تک یک جان رہی
کوئی مائی کا لال جہاد کی سرشاری کو ہرانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ امت کی
موجودہ شرمناک اور رسوا کن تنزل پزیری باہمی انتشار کا نتیجہ ہے۔ عالم عرب
میں ہر لحظہ تبدیل ہونے والی صورتحال کی واضح نشان دہی تو مشکل ہے تاہم خطے
پر غیر یقینی کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ تیونس اور مصر کے انقلابات کے
بعد بھی افریقہ اور عرب خطے کے ارباب اختیار عدم اتحاد کی پالیسی پر گامزن
ہیں۔ اگر یہی روش جاری رہی تو عدم اتفاق کا شعلہ جوالہ مشرق وسطی کی طرح
مسلم دنیا کو بھسم کرسکتا ہے۔ تیونس اور مصر کے بعد یہ نہیں کہا جاسکتا کہ
یہوو ہنود عرب خطے میں دخیل نہیں ہونگے۔ مڈل ایسٹ میں تیل کے سمندروں پر
قبضے اور گریٹر اسرائیل کے احیا کے تناظر میں اگر یمن سے لیبیا تک کی کشیدہ
صورتحال کا بنظر غائر مشاہدہ کیا جائے تو یہ بھید کھلتا ہے کہ مشرق وسطی کو
نت نئے مسائل سے دوچار کرنے کی چالبازیاں یہو و ہنود کے سازشی ازہان کا
کریا کرم ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک امت مسلمہ کے مابین کشیدگی رنجش اور
مکرکرنیوں کو ہوا دے رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کو اپنے اسلامی بھائیوں کا خون
نچوڑنے کے مکروہ کھیل میں شامل کیا جائے۔ خلیجی ریاستوں اور ایران کو باہم
دست و گریبان کرنے کے لئے یہو و ہنود زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔
یمن میں پیدا ہونے والی شورش نے عربوں اور ایران کے تعلقات کو مزید گھمبیر
بنا دیا ہے۔ جی سی سی عرب خطے کے چھ ملکوں سعودی عرب کویت یو اے ای بحرین
عمان قطر پر مشتعمل تنظیم ہے۔جی سی سی کی 4 اپریل کو ریاض میں ہونے والی
کانفرنس میں ایران کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کی گئی ۔ جی سی سی کے
عہدیداروں نے تہران کو کویت اور بحرین کے داخلی امور میں مداخلت کرنے کا
دوشی قرار دیا۔ خلیج تعاون کونسل کا مدعا ہے کہ بحرین میں شیلڈ فورس کی
تعیناتی جی سی سی ممبران کے مابین ہونے والے دفاعی معاہدوں کی روشنی میں
درست اقدام ہے ۔ تہران نے خلیجی ریاستوں کے الزامات کو رد کرتے ہوئے اسے
مغربی ایجنسیوں کا کارنامہ کہا۔31 مارچ کو ایرانی پارلیمنٹ کی خارجہ کمیٹی
نے سعودی شہنشاہ شاہ فہد کو تنبہہ کی کہ وہ خلیج فارس میں آگ سے نہ کھیلیں۔
ایک ایسے وقت جب استعماری امت کو فرقہ واریت لسانیت اور مسالک کے نام پر
نیست و نابود کرنے کے چکر میں غرق ہیں کے موقع پر عربوں اور تہران کی باہمی
کشمکش اقوام مسلم کے لئے وبال جان اور پھانسی کے پھندے سے کم نہیں۔ یہود و
ہنود اور سرپنج امریکہ کوتیونس اور مصر میں انقلابی تبدیلیوں کے بعد ان
خدشات نے گھیر لیا کہ اگر انقلابی طوفان اسی نہج پر جکڑ دیتا رہا تو انکے
مفادات کو زک پہنچے گی۔ امریکی میڈیا نے تیونس و مصر کی انقلاب ساز تاریخ
کے بعد شوشہ چھوڑا کہ اب القاعدہ کے دہشت گرد عرب خطے پر راج کریں گے اور
اقتدار کی راہدریوں پر انکا قبضہ ہوگا۔صہیونی زرائع ابلاغ نے مسلمانوں کو
زہنی پستی , مایوسی و نراسیت سے دوچار کرنے کی خاطر جتنے ڈراؤنے خواب
دکھائے وہ کارگر نہ ہوئے تو پھر مسلمانوں کو اپس میں لڑوانے کی سازشیں
بنائی گئیں۔ لیبیا پر جس طرح UNO کی پراگندہ قرارداد کے توسط سے حملہ کیا
گیا تو اسی طرح دیگر مسلم ملکوں کی تکہ بوٹی کرنے کے لئے کوئی جواز گھڑا
جاسکتا ہے۔ قذافی جنگ بندی پر راضی نہیں۔ وہ کسی قیمت پر سرنڈر کرنے یا
اقتدار چھوڑنے پر امادہ نہیں۔ مغربی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق لیبیا میں
جمہوری و شخصی حقوق غصب ہیں۔شہریوں کے مکانات اور رہائش گاہیں سرکاری ملکیت
ہیں۔کوئی شہری دو مکانات رکھنے کا حق نہیں رکھتا۔قذافی کے پاس 70 بلین ڈالر
کی جائیداد اب بھی موجود ہے۔ قذافی نے اقتدار سنبھالا تو قوم سے وعدہ کیا
کہ لیبیا میں شریعت نافذ ہوگی مگر ڈکٹیٹرشپ نے شریعت کو پچھاڑ دیا۔ قذافی
کی حاکمانہ دندناہٹ اور شخصی پالیسیوں کا عکس اسکی کتابTHE GREEN BOOK میں
بدرجہ اتم دیکھا جا سکتا ہے۔ معمر قذافی نے کتاب میں سرمایہ داریت اشتراکیت
اور اسلامی احکامات کی من مانی تشریح کی ہے جس کی تان قذافی کی ناگزیر
بادشاہت پر ٹوٹتی ہے۔ انٹرنیٹ اور سائنسی ٹیکنالوجی نے عرب خطے کی جوان نسل
کو خاصا شعور و اگہی سے نواز رکھا ہے۔ مڈل ایسٹ اور عریبین بیلٹ کی نوجوان
نسل کو بادشاہوں کی ترغیبات تصریحات تشریحات اور پیکجز سے کوئی دلچسپی نہیں
بلکہ وہ تو عہد کرچکے ہیں کہ بادشاہوں کی تبدیلی ناگزیر ہے۔ مسلم ریاستوں
میں جاری انقلابی عمل کو دوسرا رخ دیکر مغربی ممالک صورتحال کا پوری طرح
استحصال کرنے کی فکر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بادشاہوں کو پتہ لگ چکا ہے کہ
عوامی بیداری کے کارن وہ لوگوں کو اب زیادہ دیر اندھیرے میں نہیں رکھ سکتے
ہیں۔ مشرق وسطی اور عرب خطے کی تاریخ ،موجودہ انقلابی تحریکوں عالمی حالات
و واقعات اور امریکی مداخلت کے اسرار و رموز کا جائزہ لیا جائے تو تشویش
ناک منظر نامہ نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔ مستقبل قریب میں جو اندیشے
پائے جاتے ہیں کے مطابق کہیں انقلابی لہریں اور جذبہ انقلاب خانہ جنگی اور
سول نافرمانی کے اسباب پیدا نہ کردیں۔ عرب حکمران جس طرح عوامی آرا کو کچل
رہے ہیں۔ اپوزیشن کے مطالبات کو رد کیا جارہا ہے تو غالب امکان ہے کہ ان
ملکوں میں خانہ جنگی کا آتش فشاں دہک سکتا ہے۔ مشرق وسطی کو بارود کے ڈھیر
پر کھڑا کرنا مشرق وسطی کے جغرافئیے کو تبدیل کر کے اسکی اسر نو تشکیل
صہیونیوں کے دیرینہ خواب کی اہم وجہ ہے۔۔ اب جبکہ مسلم ریاستوں میں اضطراب
اور ہیجان انگیزی روز افزوں ہے تو یہود و ہنود مذموم خواہشات کی تکمیل کی
خاطریک جان ہوچکے ہیں۔ شام سے لیکر بحرین تک ہر روز ہونے والے انقلاب ساز
جلسوں عرب ڈکٹیٹرز کی ضد و انا ہٹ دھرمی حامیوں اور مخالفین میں جاری لڑائی
اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ امریکہ اور مغرب کو خلیج میں متوقع انقلابات
ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں ہوسکتے ۔ استعماری عالم اسلام کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے
درپے ہیں مگر دکھ تو یہ ہے کہ امت باہم دست و گریبان ہے۔اگر مسلم حکمرانوں
نے استعماری چالوں کو سمجھ کر بروقت تدارک کرنے کی پالیسی نہ اپنائی تو ایک
اور صلیبی جنگ نوشتہ دیوارہوگی۔ ترکی استعماری سازشوں کو پرکھ چکا ہے ۔
ترکی نے مشرق وسطی اور لیبیا میں برپا ہونے والے کشت و قتال کو روکنے کے
لئے لیبیائی شب خون کے طرفین کو انقرہ بلوایا۔ کہا جارہا ہے کہ لیبیا میں
جلد خانہ جنگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔شامی صدر بشار الااسد نے ایمرجنسی ختم
کردی ہے اور وہ یقین دلا چکے ہیں کہ عوامی خواہشات کو اولیت دی جائے گی۔
محولہ بالہ منظر نامے سے یہ نکتہ الم نشرح ہوتا ہے کہ مشرق وسطی اور عرب
ریاستوں کے انتشار زدہ حالات کو سدھارنے اور صلیبی عزائم کو پاش پاش کرنے
کے لئے امت مسلمہ کا اتحاد و اتفاق وقت کی ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ اگر یہو
و ہنود کی فرمانبرداری کو اولیت دیکر مسلمان ملکوں میں رقص بسمل کرتے ہوئے
بحرانوں کو قابو کرنے کی خاطر امت مسلمہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی نہیں
ہوسکتی تو پھر بیرونی طاقتوں کو تو سیع پسندانہ عزائم کو روبہ اول لاتے
ہوئے سارے خلیج پر اپنے خونیں پنجے گاڑھنے کا موقع مل سکتا ہے۔یوں امہ کے
بادشاہوں ڈکٹیٹروں اور حکمرانوں کو یہو و ہنود کے گھناوئنے کھیل کے سامنے
کمر بستہ ہونا پڑے گا تاکہ ہماری فضائیں بڑی طاقتوں کی غلامی کی زنجیروں کو
دھتکار کر ازادی اور خود مختیاری کی خوشبو سے معطر ہوجائیں۔ بحرف آخر ایران
کی دواندیش قیادت اور انقلابی کونسل بحرین اور خلیج تعاون کونسل کے ممبر
ممالک کے ساتھ وسیع القلبی کا انداز اپنائے اور ہرقسمی گھمبیرتا کو بارود
کی بجائے افہام و تفہیم سے سلجھائے۔ |