گزشتہ ہفتے سے ہمارا میڈیا جو
پنجاب کی عوام کو انقلاب کی نوید سنا رہا تھا بالآخر اس کا انجام مداری کے
طرح اکٹھے کئے ہوئے مجمع پر اختتام پزیر ہوا۔ سامعین کے کانوں کو بھی آرام
آیا اور ٹی وی چینلز کے چیختے چلاتے میزبانوں اور نام نہاد اینکرز کی
زبانوں کو بھی لگام دے گیا۔
انقلاب کی گونج جھوٹی تقریروں اور بے مقصد دعوؤں میں ایسی الجھی کہ ایم کیو
ایم نے اپنی خفت مٹانے کے لئے کراچی میں جشن شروع کرا دیا ۔ ایک
"کامیاب"جلسہ پر جشن ، انقلاب کی نوید کا جشن ، ایم کیو ایم کے پنجاب میں
داخل ہونے کا جشن ، مگر ان بھنگڑوں اور ڈھول کی تھاپ پر ناچنے والے بیچارے
کارکن کو یہ بھی نہ پتہ چلا کہ کراچی سے لائے ہوئے اندھے کارکنوں ، سبزی
منڈی کے مزدوروں ، دار الامان سے لائی گئی طلاق یافتہ اور بیواؤں ، لاہور
کی سیر اور داتا دربار پر حاضری کی غرض سے بلائے گئے لوگوں سے جو پنڈال
بھرنے کی کوشش کی گئی اس پر لاہور کی عوام ہنس ہنس کر بے حال ہو رہی ہے ۔
یقین مانئے مجھے ابھی تک پاکستانی میڈیا کے سر پیر کا پتہ نہیں چلا کہ ان
کے مقاصد کیا ہیں اور ان کا مطمع نظر کیا ہے ۔ یہاں پر اتنے گھمبیر مسائل
ہیں لیکن مجال ہے کہ میڈیا اتنی پر زور مہم چلائے ان کے خلاف لیکن اگر یہ
میڈیا بولتا ہے تو ایسی باتوں پر جن کا عوام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔
پیسے پر چلنے والے یہ اینکرز اور پروگرامات بیچنے والے مالکان کو صرف اپنے
پیٹ اور بینک بیلنس کی فکر ہے ان کو یہ تک نہیں پتہ کہ ہمارے اس گھناؤنے
کردار سے عوام کو کتنا نفع یا نقصان ہو رہا ہے ۔
اور آفرین ہے ایسے مشہور کالم نگاروں پر جو کسی وقت ہاکر تھے پھر وہ صحافی
بنے پھر کالم نگار اور اب وہ گھروں کے نہیں محلات کے مالک بن بیٹھے ہیں ،
اور ان کو یہاں تک پہنچانے والے یہی سیاسی گروہ ہیں جو محنت کی بجائے سستی
شہرت کو سہارا بنا کر میڈیا پر پیسہ لگا کر ایک رات میں لیڈر بننا چاہتے
ہیں ۔ ان کو ایسے ایمان فروش کالم نگار سستے بھاؤ مل جاتے ہیں جن کی اوقات
ہی اتنی ہے کہ ہڈی ڈالو اور اپنی مرضی کے کالم لکھوا لو۔
کچھ عرصہ قبل اسی میڈیا کا ایک اینکر پرسن اس بات پر رونا رو رہا تھا کہ اب
عوام پر میڈیا کا اثر کیوں نہیں ہوتا اور وہ حوالہ دے رہا تھا کہ جمشید
دستی کا جس کے خلاف پورا میڈیا ایک ہوگیا لیکن پھر بھی وہ جیت گیا ۔ تو
مجھے سن کر ہنسی آنے لگی کہ ان بیوقوفوں کو کون سمجھائے کہ اپنی قیمت وصول
کرنے والوں کی قدرو قیمت ، فٹ پاتھ پر لگی ہوئی پرانی کتابوں سے زیادہ نہیں
ہوتی جو دوبارہ اصل قیمت پر دستیاب نہیں ہو سکتیں ۔
اور اس کا زندہ ثبوت گزشتہ رات ایم کیو ایم کے جلسے سے بھی ثابت ہو گیا کہ
اب عوام کا میڈیا پر اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ اشتہار نما خبروں ،
جذباتی کلمات ، نام نہاد اپیلوں اور نمائندگان کی طرف سے جھوٹے واویلے کے
باوجود اتنا ناکام جلسہ ہوا کہ جو اینکرز یا کا لم نگار لوگوں کو انقلاب کی
نوید سنا کر اپنی قیمت وصول کرنا چاہتے تھی وہ شاہد اگلی دو تین راتیں سکون
سے سو بھی سکیں ۔
آخر میں ، میں پنجاب کی عوام کو مبارک باد پیش کرنا چاہتا تھا کہ کس طرح
انہوں نے بے جان لاش کا جنازہ بھی اٹھانے کی زحمت نہیں کی لیکن پھر سوچتا
کہ جب پنجاب کی عوام کو ان جیسوں کی پرواہ بھی نہیں تو پھر مبارکباد کیسی
۔۔۔۔۔؟ |