بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
سائنس اور مذہب کا جعلی جھگڑا کھڑا کرکے دونوں طرف مفاد پرستی اور دنیا
پرستی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ جب کہ حقیقت ان دونوں بیانیوں کے مختلف ہے۔
سائنس صرف قوانین قدرت و فطرت کو کشف کرتی ہے، قوانین کو تخلیق نہیں کرتی
ہے۔ اسی قوانین کی بنیاد پر میکینکس، انجینیرنگ یا دوسرے طبیعی و روحانی و
نفسیاتی علوم کی کتابیں تیار کی جاتی ہیں، فلسفی نظریات دیئے جاتےہیں۔ انہی
قدرتی قوانین کو جو تمام عالم کائنات میں ابتدائے آفرینش سے جاری و ساری
ہیں کشف کرنے کے بعد انہی کے فارمولے کی بنیاد پر انسان اپنی تخلیقی صلاحیت
سے ٹیکنالوجی تیار کرتاہے۔
ابتداً یہ کشفی کام (غور وفکر، تفکر و تدبر، تحقیق) مسلمانوں نے انجام دیا
بعد میں جب مسلمان سماج نفس پرستی، دنیا پرستی، عیش کوشی ، آرام طلبی اور
غیر سنجیدگی میں مست ہوگئے تو یہ کام مغرب کے رسمی مذاہب سے متنفر بظاہر
ملحد افراد نے انجام دیا۔ انہوں نے " میں خود سب کرسکتا ہوں" کے مقولے پر
عمل پیرا ہوکر خود اعتمادی کے بدلے خدا پرستی کو فراموش کردیا۔ مسلمانوں نے
بھی خود کو مقدس اور بخش دیئے جانے کے بے سروپا عقیدے کے تحت دنیا کا
انتظام و انصرام ترک کردیا کہ سب کچھ خدا کرتا اور مسلمان چونکہ اُس کے
حبیب ﷺ کی امت ہیں تو خدا سب کچھ خود کرے گا، جو کہ قرآن کریم کے منشور کے
سراسر برخلاف شیطانی نظریہ ہے۔ جب کہ حدیث رسول اکرم ﷺ موجود ہے کہ: "دنیا
ہی آخرت کی کھیتی ہے۔" جو کرنا ہے اسی دنیا میں کرنا ہے آخرت تو صرف نتیجے
کا مرحلہ ہے۔
"اور یہ کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔"(قرآن کریم
53:39)
"اللہ کبھی اس نعمت کو تبدیل نہیں کرتا جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہے جب
تک وہ خود اپنی حالت تبدیل نہ کر دیں اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا
ہے۔"(قرآن کریم 8:53)
جو محنت کرے گا تو اسی کو پھل بھی ملے گا۔ یہی آزمائش اور امتحان ہے اور
اسی کی بنیاد پر جنت (اچھے مستقبل) اور دوزخ (ناکام زندگی) کا فیصلہ کیا
جاتا ہے۔
دنیاوی انتظام و انصرام کا مقصد ہی کمزوروں کو ہمت دینا، مساکین کی پرورش،
اور مستضعفین کی مدد کرنا ہے، آسانیاں فراہم کرنا ہے چاہے وہ سیاست و حکومت
کے قیام کا مرحلہ ہو، علمی تحقیق و جدوجہد سے مربوط ہو، معاشی سرگرمیوں اور
تہذیبی رویوں میں نکھار کا موقع ہو۔انسانی نیت اگر مخلوق خدا کی خدمت سے
مربوط ہے اور دنیا پرست افعال یعنی استعماری و استثماری مقاصد نہیں رکھتی
تو سائنس بھی فائدہ مند ہے اور مذہب بھی۔
لیکن اگر مذہب اور انسانی مسرتوں کے صرف دعوے ہیں تو نہ مذہب آخرت میں
فائدہ مند ہے اور نہ ہی علم و دانش۔ اگر انسان چند سو سال علمی محنت و
تحقیق یا ریاضت و سلوک کی بنیاد پر خود کو ہی کچھ سمجھنے لگے تو یہ فکر
انسان کو خدا سے دور کرکے شیطان پرست بنادیتی ہے۔
انسانی نفسیات پر کسی SUPER NATURAL HUMAN AGENCY پر اعتقاد رکھنا فطری طور
پر واجب ہے لہذا اگر انسان خدا پرست نہیں ہے تو پھر وہ شیطان پرست ہے۔
شیطان انسان کو دنیا میں بھی ناکام کرتا ہے اور آخرت میں بھی رسوا کرتا ہے۔
عالم کائنات میں کوئی بھی چیز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے، نہ ہی علم عمل سے،
نہ سائنس مذہب سے، نہ مادّہ روحانیت سے ، نہ مشرق مغرب سےاور نہ ہی خدا
خلقت سے وغیرہ۔ ہر وجود ایک دوسرے سے مربوط ہے، کہیں واضع اور ظاہر ہے کہیں
دقت نظری کی ضرورت ہے۔
لہذا خواہ علوم کی ترویج کا موقع ہو، عمل کے میدان ہوں سب میں ہم آہنگی اور
یکجہتی کی ضرورت ہے۔
"بس تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو۔"(قرآن کریم 5:48)
تفرقہ کی فکر ہی شیطانی ہے جس کے پیچھے دنیا پرستی، نفس پرستی، عیش کوشی،
آرام طلبی، ناجائز منفعت اندوزی کی صفات پوشیدہ ہیں۔کائنات کی تخلیق بھی
مرحلہ بہ مرحلہ ایک پروسس کے تحت ہوئی اور جنت الفردوس کی تخلیق بھی انسان
کو مرحلہ بہ مرحلہ فطری قوانین کے تناظر میں اپنےاعمال سےانجام دینی ہے۔ جو
کچھ قرآن کریم میں ہے وہ قانون کائنات میں بھی جاری وساری ہے، وہی عقلیات
میں بھی ہے اور وہی سیر وسلوک میں بھی ہے۔
اگر کوئی نہیں بھی جانتا انسانی جسم پر میل کچیل کے علمی نقصانات کیا ہیں
اور وہ مذہبی نقطہ نظر سے غسل وغیرہ انجام دیتا ہے تو وہ بھی اس سے وہی
فائدہ اٹھائے گا جو علمی بصیرت کے ساتھ غسل انجام دیتا ہے۔ لہذا اچھائی اور
نیکی اسی کا نام ہے جو چاہے دینی حکم کی صورت میں یا سائنسی تحقیق کے تناظر
میں انجام دی جائے۔ البتہ دیانت داری، خلوص، صداقت اور ایمانداری ہر لحظہ
خود انسان کی "نیت " میں ہونی چاہیے۔ سب کچھ اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے
خدا کے علم و قدرت یعنی غیبی طاقت اور غیبی امداد پر بھی بھروسہ کرے۔ صرف
خود پر بھروسہ کرنے والا بہت جلد شیطان کا آلہ کار بن جاتاہے۔
انسان کو اپنی آخرت یعنی اطمینان بخش نتیجے کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے
دنیاوی اعمال میں سنجیدگی، خلوص، صداقت، دیانتداری پیدا کرے اور اپنی نیت
کو خالص کرے۔
"اور جو کوئی آخرت کا طلبگار ہوتا ہے اور اس کے لئے ایسی کوشش بھی کرے جیسی
کہ کرنی چاہیئے درآنحالیکہ وہ مؤمن بھی ہو تو یہ وہ ہیں جن کی کوشش مشکور
ہوگی۔"(قرآن کریم 17:19) |