تھڑوں پر بیٹھے رہنے والے نکمے نوجوانوں اور گھروں میں
بیٹھ کر ’’منجیاں‘‘توڑتے رہنے والے ویہلے بابوں کی متفقہ رائے ہے کہ آلو
سبزیوں کا سرتاج،بھنڈی ملکہ اور ساگ پھوپھا ہے۔آلو ،بھنڈی تو ہم زلف کی طرح
ایک دن ہی کے لئے تشریف لاتے ہیں لیکن ساگ اور پھوپھا آ جائیں تو پندرہ دن
سے قبل واپسی کا ٹکٹ کبھی نہیں کٹواتے۔بلکہ ساگ اور پھوپھا سے بچوں کے
ذریعے پوچھنا پڑتا ہے کہ ’’پھر کب ملیں گے‘‘۔بات ہے بھی مبنی بر صداقت کہ
آلو پرائی شادی میں عبداﷲ دیوانہ کی طرح پاک پتن دربار کے ’’ملنگوں‘‘کی طرح
خوامخواہ دھمال ڈالتے ہوئے ہر سبزی میں ڈال لیا جاتا ہے۔خواہ اس کا ’’میل
ملاپ‘‘بنتا ہو کہ نہ ہو۔اب آپ ہی بتائیں کہ بھنڈی میں آلو کون ڈالتا ہے،مگر
ہمارے ہاں بطور ثواب ڈال لیا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ اس کے بنا سبزی کا
ٹور(شان) نہیں نکلتا۔حالانکہ ہم زلف کا ساتھ اور آلو بھنڈی کا ملاپ کبھی
سرے نہیں چڑھتا۔چلئے کڑوا گھونٹ سمجھ کر اس اتصال کو تو ہم پی گئے لیکن
اپنے ایک دوست کے ہاں جب پایہ کبیرہ میں آلوؤں کو تیرتے اور ڈبکیاں لیتے
دیکھا تو یہ کسی طور ہضم نہ ہو سکا۔میزبان سے پوچھا تو فرمانے لگے کہ میری
بیوی کا خیال ہے کہ آلو ،شوربہ کو گاڑھا کر دیتے ہیں اور گاڑھا شوربہ مقوی
قلب ومعدہ ہوتا ہے۔یہ بات سنتے ہی بے ساختہ میرے منہ سے نکل گیا کہ سبزیوں
کے ملاپ کی طرف نہیں بیوی کے خیال کی طرف دھیان دو،نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے
گھر کے کھانے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم ہو گیا۔
غذائیت کے اعتبار سے ساگ کا شمار ہرے پتے والی سبزیوں میں ہوتا ہے جس میں
وٹامنز اور فولاد کی مقدار بکثرت پائی جاتی ہے،گاؤں میں عموما اسے چارہ اور
شہروں میں خصوصاً سوغات سمجھ کر کھایا جاتا ہے اسی لئے میرے پینڈوبھائی اسے
اسی مقدار میں کھاتے ہیں جتنی مقدار میں جانور چارہ جبکہ شہری بابو اسے
اتنا ہی کھاتے ہیں جتنا ہضم کیا جا سکے کیونکہ کہتے ہیں کہ کھوتے کو کبھی
گل قند ہضم نہیں ہوتی۔ساگ کی تمام اقسام ،جیسے میتھی ،باتھو،سوئے،مسور،قلفہ
اور چولائی کے ساگ میں ایک قدر مشترک ہوتی ہے کہ سب قبض کشا ہوتے ہیں اور
قبض کشائی غذاؤں کی قدر، ان سے پوچھئے جو اس کا شکار ہیں،ان کا خیال ہے کہ
قبض کشائی،کشور کشائی سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ساگ نظام انہضام میں ایسے ہی
ممدومعاون ہے جیسے جمہوری سیاسی نظام میں ملک ریاض،حالیہ سیاستدانوں کی
خفیہ شادیوں اورجائیدادوں کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ سب کی مرغوب غذا ہی ساگ
ہے جو ہضم ہونے میں اس قدر معاونت فرما رہا ہے کہ پتھر ،لکڑ سب ہضم،اسی لئے
میں نے عرض کیا کہ ساگ اور ’’ریاض‘‘(ریاض کو موسیقی والا ریاض سمجھا جائے)
ہی سب کے ہاضمے کی درستی کی باعث ہیں۔
ساگ کا سبزی مائل تاج پنجاب کے سر سجایا جاتا ہے،پنجاب سے اگر کوئی دیگر
صوبوں میں بنا ساگ جائے تو اسے پنجابی خیال نہیں کیا جاتا،پنجابی ساگ کی
بھی اتنی ہی عزت،توقیر وتکریم کرتے ہیں جتنی کہ ساس کی،ساگ اور ساس کا نام
لیتے ہوئے بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اگر احتیاط نہ برتی جائے تو دونوں
میں کڑواہٹ بھی آسکتی ہے جو معدہ اور ازدواجی زندگی دونوں کے لئے خطرہ کا
باعث ہو سکتے ہیں۔ساگ کی کڑواہٹ سے ہی بندہ سوچنا شروع ہو جاتا ہے کہ کڑوے
ساگ کو چکھنا اور ساس کو گھر میں رکھنا کتنا مشکل ہے۔
آجکل کے بچے کھانا نہ کھائیں تو مائیں ان کے واری واری جاتی ہیں،ناز نخرے
اٹھاتی ہیں،شونا شونا کہتے ہوئے ان کی گالوں کو شلجم کی طرح زمیں سے
اکھاڑتے ہوئے ان کے گال ٹماٹر کی طرح کر دیتی ہیں اور سو سو بار پوچھتی ہیں
بیٹا روٹی ساگ نہیں کھانا تو کوئی بات نہیں پیزا،برگر،نوڈلزیا سینڈ وچ
منگوادوں،جبکہ ہماری ماں کے پاس دو ہی آپشنز ہوتے تھے’’ساگ کھانا ہے یا
چھتر‘‘ہم مستقل مزاجی سے پہلے ہنستے ہنستے چھتر کھا لیتے پھر روتے روتے
ساگ۔یعنی ’’سو چھتر وی تے سو گنڈے وی‘‘۔
شکرہے ساگ موسمِ سرما کی سبزی ہے جو زود ہضم ہونے کے باعث کھاتے ہی جسم اور
کمبل کو یک ساعت گرم کرنے کا باعث بنتاہے ،ذرا سوچیں موسم ِ گرمامیں ساگ
کھا کر وہ حشر ہوتاکہ روزِ محشر یاد آجاتا ۔سردیوں میں فیملی یا نجی محفل
میں کسی فرد کو بے چین ومضطرب پائیں تو سمجھ جائیں ساگ کی زود ہضمی اپنا
اثر دکھا رہی ہے اس سے قبل کہ آپ کو ’’ناک پکڑ کر‘‘محفل چھوڑنا پڑے
فوراًمضطرب شخص کو کان سے پکڑ کر محفل بدر کر دیا جائے ،ایسا کرنا سب کے
لئے بہتر ہوگا۔ساگ کی طرح،راگ اور آگ کا استعمال بھی سب سے زیادہ پنجاب میں
ہی کیا جاتا ہے،کہتے ہیں ساگ گھر میں پک جائے یا ساس دونوں سے پیچھا چھڑانا
مشکل ہوتا ہے،ساس اور ساگ شروع سرما میں گھر میں داخل ہوتے ہیں اور گرما
شروع تک ساتھ نبھاتے ہیں،آگ اور راگ بھی ایک بار چھڑ جائیں تو بھی اس وقت
تک جان نہیں چھوڑتے جب سب کچھ جل کر بھسم نہ ہو جائے،ساگ کی ایک خوبی یہ
بھی ہے کہ اسے جتنا بھی پکائیں سر سبز ہی رہتا ہے۔ساون کے اندھے کو جیسے سب
ہرا دکھائی دیتا ہے ایسے ہی ساگ کھانے کے شوقین کو سبز ہلالی پرچم بھی ساگ
کے اوپر مکھن کی طرح دکھتا ہے۔
ہمارے باورچی نے ایک دن ساگ،دوسرے دن پالک،تیسرے دن جب باتھو پکایا تو میرا
ہم عصر آصف بولا کہ حاجی اب تو ناف بھی ہری ہو گئی ہے اب تو بس
کرو،حاجی(باورچی) بولا کہ ان سب میں فولاد ہوتا ہے جس پر آصف نے مسکت جواب
دیا کہ بہتر ہے ہمیں گارڈر،سریا اور ٹی آئرن ہی لے دو،ساگ،باتھو اور پالک
پکانے کی ضرورت ہے۔کہنہ مشق گویا بننے کے لئے جس قدر راگ،الاپ اور ریاض کی
ضرورت ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ ساگ پکانے کے لئے آگ درکارہوتی ہے۔احتیاجِ
ریاض اور الاپ جتنا کلاکار کو کلاسیکل بناتا ہے آگ اتنا ہی ساگ کو کلاسیکل
بناتی ہے۔گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ آگ کی شدت ساگ کو اور’’ ریاض‘‘ کی ریاضت
کلاکار کو کلاسیکل بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔پنجاب کے بعض گھروں
میں اتنے افراداوربرتن نہیں ہوتے جتنی قسم اور مقدار میں ساگ فرج میں
dormancy period کو انجوائے کر رہا ہوتا ہے،یہ پیریڈ ایک ماہ سے ایک سال تک
ہو سکتا ہے۔
سردیوں میں رشتہ دار احباب اچانک سے آ دھمکیں تو بچے ،وائی فائی کا پاس
ورڈپوچھیں گے جبکہ بزرگ’’اوہ ساگ نوں تڑکا لایا کہ نئیں‘‘۔ساگ کے متعلق
تاریخ ایسے ہی خاموش ہے جیسے دھرنے کے بعد مولانا فضل الرحمن،فی زمانہ بچوں
میں وٹامنز ،کیلشیم کی کمی اور قیمتوں میں گرانی دیکھتے ہوئے میرا خیال ہے
کہ ہر گھر میں ایک فرج اور بے حساب ساگ ضرور ہونا چاہئے تاکہ مذکور کمی کو
پورا کر کے عوام اپنے اپنے حساب میں رہے۔
|