چراغِ چشت

منکرین روحانیت و تصوف ہر دور میں اہل حق پر طعنہ زنی کے نشتر لگاتے آتے ہیں سجادہ نشینوں کی شاہانہ زندگی دیکھ کر تنقید کے پتھر بر سائے شروع کر دیتے ہیں جبکہ سچ تو یہ ہے کہ حقیقی اہل تصوف جو تاریخ انسانی کے حقیقی روشن ستارے ہیں انہوں نے بچپن جوانی میں تزکیہ نفس کے آگ برساتے ریگستان میں مجاہدے کئے عبادات ریاضت مجاہدے فاقہ کشی راتوں کو جاگنا کم بولنا کم سونا کم کھانا اپنی زندگی کا معمول بنا ئے رکھا یہاں تک کہ کثافت سے لطافت کے نور میں ڈھل گئے تربیت کا عمل پورا ہوا تو اشارہ غیبی کے تحت کسی خاص علاقے میں جا کر جلو ہ گر ہو گئے تو دنیاوی آسائشوں کی بارش ہو گئی اہل دنیا پروانوں کی طرح ٹو ٹ پڑے سلاطین وقت اور عام مخلوق غلاموں کی طرح ہر وقت اِن خاک نشینوں کے در پر گر دنیں جھکائے نظر آئے لیکن قرب الٰہی کے متوالے یہ عظیم نفوس قدسیہ پھر بھی فقیرانہ طرز معاشرت اور فاقہ کشی ہی کر تے نظر آئیں تو ہم کہہ سکتے ہیں تصوف مسلسل ریاضت اور اپنے محاسبے کا نام ہے جب کو ئی اہل حق مر جع خلائق بن جاتا ہے مخلوق کے دلوں کا حقیقی راجہ تو اُس وقت بھی اولیاء کرام پھٹے پرانے پیوند لگے کپڑوں میں ہی نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ پھر اِیسے لوگوں کو قیامت تک کے لیے شہرت کے آسمان پر امر کر دیتا ہے خاندان چشتیہ کے عظیم بزرگ بابا فریدؒ کے آخری آیام کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ آپ ؒ زندگی کے پچانویں سال میں داخل ہو چکے ہو تے ہیں جب جسم آرام طلب ہو جاتا ہے ریاضت عبادت مجاہدہ ممکن نہیں رہتا لیکن یہ عظیم درویش آخر میں بھی جوانی والے مقام پر ہی نظر آتا ہے آپ ؒ کی ریاضت عبادت اور رت جگوں کا یہ عالم کہ عشاء کے وضو سے ہی نماز فجر بھی ادا کر تے مطالعہ قرآن اور محبت کا یہ عالم کہ آخری عمر میں بھی ہر رات دو قرآن مجید کا ورد جاری رکھا ہوا تھا اور اگر رمضان المبارک کا مہینہ آجاتا تو نماز تراویح میں دو قرآن ہررات سنایا کر تے اِس کے علاوہ طویل سجدوں کی بات الگ ہے جب آپ حق تعالی کی بارگاہ میں اپناسر زمین پر رکھ دیتے اور دیر تک بارگاہ الٰہی میں دعامانگتے رہے ریاضت کا یہ عالم کہ پڑھاپے کی تراویح بیٹھ کر اور نماز فرض کھڑے ہو کر ادا کر تے تھے دوران عبادت نقاہت جذب سکر استغراق آپ پر غالب آجاتا تو کوئی غلام آکر عرض کرتا حضرت آپ ؒ کے فرزند شیخ نظام الدین ؒ نے آپ ؒ کو سلام بھیجا ہے آپ ؒ کا وہ فرزند جو آپ ؒ سے دور پٹیالی میں رہتا تھا اور آپ ؒ اُس سے والہانہ بہت زیادہ پیار کر تے تھے تو جذب کے عالم میں فرماتے کون نظام الدین تو غلام عرض کر تا شیخ آپ ؒ کا لاڈلہ بیٹا نظام الدین ؒ توآپ ؒ فرماتے کون بیٹا جب بار بار آپ ؒ کو بتایا جاتا تو آپ ؒ پہچان جاتے اور فرماتے نظام الدین ؒ خیریت سے تو ہے ناں ؟ کثرت عبادت جذب سکراستغراق آپ ؒ کو بقا کی طرف لے کر جارہے تھے حضرت نظام الدین ؒ فرمایا کر تے تھے کہ میرے شیخ شہنشاہ کو خلہّ بیماری تھی جس میں جوڑوں کا دور بہت ہو تا ہے بیماری کی شدت میں بھی بابا فریدؒ عبادت ریاضت ترک نہ کر تے بلکہ دن رات استغراقی غلبے کے باوجود زیادہ وقت جائے نماز پر ہی گزارتے پھر اِس عظیم بزرگ کا آخری وقت آن پہنچا آپؒ کے خلیفہ لاڈلہ مرید حضرت نظام الدین اولیاء ؒ سے کسی نے پوچھا یا شیخ کیا آپ ؒ اپنے مرشد کے آخری وقت اُن کے پاس تھے تو شدت کر ب ہجر سے حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب مو سلا دھار بارش کی طرح برسنے لگا اور گلو گیر لہجے میں بو لے میرے شہنشاہ میرے مالک نے شوال کے مہینے میں مجھے دہلی جانے کا حکم دیا آپ ؒ کی وفات پانچ محرم کو ہو ئی آخری وقت میں شیخ کے پاس نہیں تھا تو کسی نے مجھ غلام کی یاد دلائی تو شیخ مجھے یاد کر نے لگے اورپوچھا میں اِس وقت کہاں ہوں تو حاضرین نے بتایاکہ نظام الدین دہلی میں ہے تو فرمایا میں بھی شیخ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے وصال کے وقت ہانسی میں تھا اُن کے پاس نہیں تھا یہ بات کر کے حضرت نظام الدین ؒ بید مجنوں کی طرح لرزتے ہو ئے زاروقطار رونے لگے کہ حاضرین مجلس بھی رونے لگے تاسف کا اظہار کر نے لگے کاش اُس وقت میں اپنے شیخ کے قدموں سے لپٹا ہو تا شیخ کے قدموں کی دھول میرے ماتھے پر ہو تی لیکن میں تو شیخ کے حکم پر دہلی میں تھا پھر آپ ؒ شیخ کے آخری وقت کا ذکر کر تے ہو ئے فرمانے لگے پانچویں محرم کو میرے شیخ کی بیماری کی شدت اور بڑھ گئی تو میرے کل کائنات میرے شیخ نے نماز عشاء با جماعت اد ا کی اور پھر کمزوری اور بیماری کی شدت سے بے ہو ش ہو گئے ایک گھنٹے بعد ہو ش میں آگئے تو پہلا سوال یہ کیا کہ میں نے عشا ء کی نماز پڑھ لی تو خادموں نے روتے ہوئے عرض کیا یا شیخ آپ ؒ نماز عشاء باجماعت اداکر چکے ہیں لیکن بابا فرید ؒ پھر بھی نماز کی بات کر تے ہیں پھر دوبارہ نماز عشاء ادا کر تے ہیں اور بیماری کمزوری کے باعث پھر بے ہوش ہو جاتے ہیں آج کے مادیت پرست منکرین روحانیت اور تصوف جب اولیاء کرام پر تنقید کے پتھر برساتے ہیں تو اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ بابا فریدؒپچانویں سال کی عمر میں جب یاداشت بھی ساتھ چھوڑ چکی بیماری اور کمزوری نے بر ی طرح جکڑ رکھا ہے نماز بھی پڑھ لی ہے لیکن پھر بھی نماز کی فکر ہے کہ میں نے نماز پڑھی ہے یا نہیں شک ہے تو دوبارہ نماز پڑھ لی نماز کے بعد پھر آپ ؒ کمزوری اور بیماری کی شدت سے دوبارہ بے ہوش ہو جاتے ہیں اِ س بار بے ہو شی کا وقفہ زیا دہ طویل ہو جاتا ہے کافی دیر بعد حواس بحال ہو ئے تو آپ ؒ ہوش میں آگئے ہوش میں آتے ہی پہلا سوال پھر یہ کیا کہ کیا میں نے نماز پڑھ لی ہے تو خادموں نے عرض کی حضرت آپ ؒ نماز عشاء دوبار پڑھ چکے ہیں تو اولیاء کرام کی تاریخ کا عظیم بزرگ پھر بو لتا ہے کہ میں ایک بار پھر نماز پڑھنا چاہتا ہوں کیونکہ اﷲ بہتر جانتا ہے اِس کے بعد پھر کیا ہو تا ہے اِسطرح پھر بابا فریدؒ نے تیسری با نماز عشاء ادا کی اِس ادا سے آپ ؒ جان سکتے ہیں کہ بابا فریدؒ کی زندگی میں نماز کی حقیقت کیا تھی دنیا کا کوئی اور خیال آخری وقت میں آپ کے دماغ میں نہیں تھا صرف ایک ہی خیال کہ نماز پڑھی ہے کہ پھر تیسری نماز کے دوران سجدے میں گئے تو حالتِ سجدہ میں ہی محبوب حق سے جاملے آخری وقت آپ ؒ کی زبان پر یاحیی یاقیوم کا ورد تھا ایک ایسا عظیم درویش جس کی زندگی کا آغاز نماز سے ہو تا ہے اور آخری سانس بھی سجدے میں لیتے ہیں سرور دوجہان ﷺ کا فرمان پورا ہوا کہ نماز مومن کی معراج ہے 666ھ میں بابا فریدؒ نے اِس جہان ِ فانی سے منہ مو ڑا اُس وقت آپ ؒ کی عمر مبارک پچانویں سال تھی وفات کے بعد آپ ؒ کے فرزند کا خیال تھا کہ آپ ؒ کو اجودھن کی فصیل کے باہر شہدا کے قبرستان میں آسودہ خاک کیا جائے لیکن عین آخری وقت آپ کے محبوب ترین فرزند حضرت شیخ نظام الدین ؒ تشریف لاتے ہیں جو پٹیال سے تشریف لاتے ہیں شیخ زاد ے نے چند دن پہلے خوا ب میں اپنے والد کو دیکھا تھا جو اُس کو یاد فرمارہے تھے صبح بیدار ہو تے ہیں فرزند اجودھن کی طرف روانہ ہو گئے وفات سے قبل بابا فریدؒ بار بار اپنے محبوب صاحبزادے کو یاد کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے آتو جائے گا لیکن مل نہیں سکتا یہی ہوا رات کو آپؒ کا انتقال ہوا تو صبح صاحبزادہ شیخ نظام الدین ؒ آگیا شیخ نظام الدین نے کہا اگر آپ ؒ شیخ کو باہر فصیل کے قریب دفن کرو گے تو لوگ باہر سے آکر فاتحہ پڑھ کر چلے جایا کریں گے اِس لیے شیخ کو اندر لایا گیا اور اُس جگہ پر دفن کیا گیا جہاں پر آپ ؒ کا آج مزار ہے حضرت نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں شیخ کی لحد کے لیے کچی اینٹیں تک نہیں تھیں جو پھر آپ ؒ کے مکان سے نکال کر لائی گئیں یہ حال تھا فقیری کا اُس عظیم درویش کا جس کے در پر امیر تیمور جیسا پتھر دل بھی آیا تو عقیدت میں سرجھکائے لر ز رہا تھا بعد میں اُسی تیمور کی اولاد میں سے اکبر اعظم پیدا ہواجس کو لا دین بنانے کی بہت کوشش کی گئی لیکن وہ اکبر ساری زندگی درویشوں کی عقیدت کر تا رہا خواجہ معین الدین ؒ کے مزار پر ننگے پاؤں جا تا اور کئی بار اجو دھن میں بھی غلاموں کی طرح سر جھکا کر آتا اور دعائیں مانگتا پھر اکبر اعظم نے اجو دھن کا نام پاک پتن رکھ دیا جو بابا فریدؒکی آخری آرام گاہ بھی ہے ایسا چراغ چشت جس نے لاکھوں اندھوں کو روشنی بخشی ۔

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735901 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.