بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مقبوضہ
کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کے تحفظ کے حوالے سے خصوصی اجلاس بلانے کا فیصلہ
کیا ہے۔یہ اجلاس وزرائے خارجہ کی سطح کا ہو گا اور یہ برادر اسلامی ملک
سعودی عرب کی جانب سے طلب کیا جائے گا۔ سعودی وزیر خارجہ نے چند دن قبل
پاکستان کا دورہ کیا اوروزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی
سے خصوصی ملاقاتیں کیں۔ اس دوران او آئی سی اجلاس بلانے پر بھی تبادلہ خیال
کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ہونے والا او آئی
سی کا یہ اجلاس اپریل میں بلایا جاسکتا ہے۔ اوآئی سی اجلاس کی میزبانی
پاکستان کو ملنے پر اسے حکومت کی ایک اور اہم سفارتی کامیابی قرار دیا
جارہا ہے۔
بھارت میں بی جے پی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے
تقریبا پانچ ماہ ہو چکے ہیں لیکن مسلسل کرفیو اور لاک ڈاؤن کا سلسلہ تاحال
جاری ہے۔ بھارتی حکومت دنیا کو گمراہ کرنے کیلئے کرفیو ختم کرنے کے جھوٹے
دعوے بھی کرتی ہے اور سوشل میڈیا پر سڑکوں پر ٹریفک کی پرانی تصاویر شیئر
کر کے دھوکہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ جس دن
بھارتی فوج نے کرفیو ختم کیا کشمیر کی سڑکوں پر لاکھوں لوگ نکلیں گے اور
پھر اس احتجاج کو کنٹرول کرنا بھارت کے بس میں نہیں ہو گا۔ آرٹیکل 370ختم
کرنے کے بعد سے بھارت سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد سرچ آپریشن کے
دوران قتل عام میں بھی شدت پیدا کر رکھی ہے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ
کشمیری نوجوانوں کو گھروں سے زبردستی اغواء اور پھر انہیں رہا کرنے کیلئے
بھاری تاوان وصول کیا جارہا ہے جس پر مقامی کشمیریوں نے شدید احتجاج کیا
ہے۔مسلسل کرفیو اور لاک ڈاؤن سے کشمیر میں بدترین غذائی بحران پیدا ہو چکا
ہے۔ گھروں میں محصور رہنے سے کشمیریوں کی بڑی تعداد بیمار ہے اور طبی امداد
اور ادویات نہ ملنے سے ہزاروں کشمیریوں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئی ہیں۔
ادویات نہ ہونے سے ہسپتالوں میں اہم آپریشن منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ انٹرنیٹ
اور پری پیڈ سروسز مکمل طور پر معطل ہیں جس سے طلباء، ڈاکٹرز، تاجروں،
صحافیوں اور دیگر شعبہ جات سے وابستہ افراد کوبہت زیادہ مشکلات کا سامنا
ہے۔ سخت سردی اور برفباری سے ایک طرف جھیلیں منجمدہو چکیں، سری نگر جموں
شاہراہ بند ہونے سے وادی کشمیر کا بیرونی دنیا سے زمینی رابطہ منقطع ہو چکا
ہے اور دوسری جانب لوگوں کے گھروں میں اشیاء ضروریہ کی سخت قلت ہے ۔بھارتی
فوج اور حکومت کشمیریوں کو تحریک آزادی سے دور کرنے کیلئے مظالم ڈھانے کے
سبھی ہتھکنڈے آزما رہی ہے لیکن کشمیری صبرو استقامت کا پہاڑ بن کر بھارتی
دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں اور میدانوں میں برسر پیکار ہیں ۔ مقبوضہ
کشمیر کی طرح بھارت کی صورتحال بھی سخت خراب ہے۔ شہریت ترمیمی بل کی منظوری
کے بعد بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔ ہندوستانی
مسلمانوں، مختلف اقلیتوں اور اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے احتجاج کیا جارہا
ہے تو دوسری جانب حالات یہ ہے کہ ہندوانتہاپسند تنظیمیں بھارتی مسلمانوں کا
بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایک بار پھر گجرات قتل عام
کی تاریخ دہرانے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ ہندوانتہاپسند سرکاری سرپرستی میں
مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر حملے کر رہے ہیں اور خواتین کی عزتوں سے
کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ انتہاپسندوں کی درندگی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بھارت
میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے انصاف پسند لوگ اس کے خلاف
آواز اٹھا رہے ہیں مگر مودی سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور وہ
مسلمانوں کو انڈیا سے بے دخل کرنے کی ہندوتواسوچ اور پالیسی پر عمل کرنے کے
درپے ہے۔ ایسی صورتحال میں اقوام متحدہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے بڑے ادارے
او آئی سی کی طرف سے کشمیر اور بھارت کے مظلوم مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے
ظلم و بربریت کے خلاف پاکستان میں او آئی سی کا اجلاس بلانے کے فیصلہ پر
خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے۔
سعودی عرب کی طرف سے او آئی سی کے اس اجلاس بلانے کے حوالہ سے بھی دیکھا
جائے تو مملکت سعودی عرب نے اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) کوہمیشہ بہت
زیادہ سپورٹ کیا ہے تاکہ یہ تنظیم مسلم دنیا کے مسائل کے حل کے لیے بہتر
انداز سے اپنا کردار ادا کر سکے۔ دنیا میں ایک اہم ملک ہونے کے اعتبار اور
حیثیت سے،برادر ملک کا اسلامی یکجہتی کے فروغ کے لیے ایک اہم اور با اثر
تزویراتی کردار رہاہے۔ بڑے اقدامات اور اہم کردار کی بدولت، مملکت سعودی
عرب توازن کا محور ہے، بطور خاص ان بے شمار مسائل اور اختلافات حل کرنے کے
سبب اور ان کی راہ میں رکاوٹ بننے کے سبب جو اسلامی ممالک میں بالواسطہ یا
بلا واسطہ دخل اندازی کی کوشش کرتے ہیں۔ مملکت سعودی عرب، مصیبت کی گھڑی
میں جب کبھی بھی امت مسلمہ سیاسی، معاشی، یا قدرتی آفات میں مبتلا ہوتی ہے،
تو اپنے بھائیوں کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھاتی ہے۔ خادم الحرمین شریفین ہمیشہ
عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان دوستی، اخوت اور یکجہتی کی فضا قائم رکھنے
کے لیے کوشاں رہتے ہیں، تاکہ مسلمانوں کی صفیں متحد رہیں اور ان کے درمیان
اختلافات نہ پیدا ہوں۔ اسلامی مسائل کے حل کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا
مقصد مسلمانوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کی فضا کو قائم رکھنا اور
باہمی تعلقات کو کدورتوں سے پاک رکھنا ہے تاکہ اسلامی یکجہتی کو مضبوط کیا
جا سکے۔ مملکت سعودی عرب، بانی شاہ عبدالعزیز کے دور سے لیکر آج خادم حرمین
شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور تک، امت مسلمہ کی پریشانیوں کا بغور
جائزہ لیتی رہی ہے اور اسلامی یکجہتی کو مضبوط بنانے کرنے کے لیے انتھک
کاوشیں کرتی رہی ہے۔ برادر ملک ہمیشہ امت مسلمہ کے مسائل کے خاتمے کے لیے
عالمی قوانین اور اسلامی سربراہی کانفرنسوں کی قراردودوں اور اسلامی ممالک
کے وزراء خارجہ کی ملاقاتوں کے ذریعہ اسلامی تعاون تنظیم کے سائے میں
منصفانہ حل تلاش کرتا رہا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد 57
ہے اور یہ رکن ممالک 4 بر اعظم پر پھیلے ہوئے ہیں۔یہ ادارہ بلاشبہ عالم
اسلام کی اجتماعی آواز ہے اور رکن ممالک کے لیے سرکاری چھتری ہے۔ اس تنظیم
کا مقصد مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا، مسلمانوں کو یک آواز رکھنا اور
قوموں کے تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔ مملکت سعودی عرب نے اپنے قیام سے لیکر
آج تک امت مسلمہ کے غموں کو اپنا غم تصور کیا ہے چناچہ اسلامی وحدت کا بیج
شاہ عبدالعزیز نے 1926 میں بویاجب انہوں نے مکہ مکرمہ میں اسلامی سربراہی
کانفرنس کے لیے پکارا جس کے نتیجے میں کئی قراردادیں سامنے آئیں اور اسلامی
وحدت کی راہ ہموار ہوئی۔
او آئی سی کی طرف سے پاکستان میں اجلاس بلانے کے فیصلہ کو اس لحاظ سے بہت
اہمیت دی جارہی ہے کہ اس کا اعلان ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب حال ہی میں
ملائشیا میں ایک نئی اسلامی کانفرنس کا اہتما م کیا گیا جس میں پاکستان،
سعودی عرب، مصر ، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات اور بعض دیگر ملکوں نے یہ
موقف اختیار کرتے ہوئے شرکت نہیں کی کہ وہ امت مسلمہ کو تقسیم کرنے والے
کسی نئے پلیٹ فارم کا حصہ نہیں بن سکتے۔ یقینی طور پرحکومت کا یہ فیصلہ
دانشمندی پر مبنی تھا ۔ اوآئی سی پر جتنی چاہے تنقید کر لی جائے مگر پھر
بھی اس ادارے کی اسلام اور مسلمانوں کیلئے بڑی خدمات ہیں۔ جن ملکوں نے
ملائشیا کانفرنس میں شرکت کی وہ او آئی سی میں بھی شامل ہیں اس لئے اس
کیلئے کوئی نیا مسلم بلاک بنانے کی کوششیں کسی طور درست نہیں ہیں اور ایسا
کرنے سے اسلامی یکجہتی کو فروغ نہیں ملے گا بلکہ مسلم دنیا میں مزید تقسیم
ہو گی لہٰذا مسلم امہ کے مسائل حل کرنے کیلئے جو کردار بھی اداکرنا ہے وہ
او آئی سی کے پلیٹ فارم سے ہی ہونا چاہیے۔ ویسے بھی او آئی سی جیسے ادارے
کی عالم اسلام کیلئے خدمات کو یکسر نظر انداز کر دیناکسی طور درست نہیں ہے۔
مسئلہ کشمیر اور بھارت میں شہریت ترمیمی بل نافذ کئے جانے کے بعد مسلمانوں
پر مظالم کیخلاف پاکستان میں اوا ٓئی سی کا اجلاس بلانے کے یقینی طور پر
دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور کشمیری و بھارتی مسلمانوں پر ظلم و دہشت گردی
کے خلاف بین الاقوامی سطح پر مضبوط آواز بلند کی جاسکے گی۔
|