گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں قائد حزبِ
اختلاف چوہدری نثار علی خان نے صدر کے خطاب پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے اپنے
خطاب میں جس شعلہ بیانی کا مظاہرہ کیا ہے یقینی طور پر ا یسا انداز ِبیاں
اپنانے پر یہ پوری قوم سے د اد وصول کرنے کے مستحق ہیں کیوں کہ قوم اِن کے
اِس خطاب کے بعد بڑی پُراُمید ہے اِس لئے کہ چوہدری نثار علی خان نے اپنے
خطاب میں جو کچھ کہا وہ حکمرانِ وقت کے لئے ایک ایسے صاف وشفاف آئینے کے
مانند ہے جس سے حکمران اپنا احتساب کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں اور اِس کے
ساتھ ہی یہ کہنے میں مجھے ذرا برابر بھی عار محسوس نہیں ہو رہی ہے کہ بقول
شاعر
ہم نے شعلوں کو شراروں کو بہت دیکھا ہے
ہم نے تقدیر کے ماروں کو بہت دیکھا ہے
اَب تمّنا ّہے کہ دورِ گلِ خنداں آجائے
ہم نے افسردہ بہاروں کا بہت دیکھا ہے
باوجود اِس کے کہ آج چوہدری نثارعلی خان جو قائد حزبِ اختلاف بھی ہیں اور
اِس ناطے یہ اپنی اُن ذمہ داریوں کا حق کچھ بہتر انداز سے کبھی کبھار ادا
کرتے رہتے ہیں ورنہ اکثروبیشتر اِن کی سیاست بھی کسی کنوئیں کے مینڈک کی
طرح لگنے لگتی ہے خاص طور پر سندھ کی سیاسی جماعتوں جیسے حکمران جماعت
پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے متعلق جب بھی اِنہوں
نے اپنی زبان کھولی اور لب ہلائے ہیں تو ہر بار اِنہوں نے اِن کی خصوصیات
کے برعکس ہی کہا ہے جب ہی تو ہم نے اِن کے سیاسی تدبر کو کنوئیں کے مینڈک
سے تعبیر کیا ہے کیوں کہ ہمیں تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے یہ اور اِن کی
جماعت والوں کے خیالات اور سوچیں سندھ کے حوالے سے ایسے ہی ہیں جیسے کنوئیں
کے مینڈک ........ بہرکیف!اِس سے قطع نظر کہ یہ حقیقت ہے کہ چوہدری نثار
علی خان نے قومی اسمبلی میں اپنے عہدے کا پاس رکھتے ہوئے جس انداز سے کھل
کر 22مارچ کی صدر مملکت کی مشترکہ پارلیمانی تقریر پر بحث کرتے ہوئے جو کچھ
کہا وہ اِن کی نہ صرف سیاسی پختگی کا بین ثبوت ہے بلکہ اِن کا یہ انداز اُس
اعلیٰ ظرفی کا بلند پایہ مظہر ہے جو ہمارے یہاں بہت کم قائد حزبِ اختلاف کے
حصے میں آیا ہے۔کیونکہ اِن کے خیالات نے آج یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ اِن
جیسے جن لوگوں کے ذہن میں اچھے خیالات آباد ہوتے ہیں وہ کبھی بھی تنہا نہیں
ہوتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ قائد حزبِ اختلاف ایک نڈر اور بیباک سیاستدان
ہیں وہ کسی بھی معاملے میں کھل کر کہنے کی خداداد صلاحیت رکھتے ہیں اور اِس
کے علاوہ یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ چوہدری نثار علی خان کسی کے خیالات
کو اپنے خیالات سے پوری طرح شکست دینے کے بھی سیاسی میدان میں بڑے ماہر
جانے جاتے ہیں اِس ہی لئے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف
نے اِنہیں قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف کے لئے اِن کا چناؤ کر کے ہر
حکومتی معاملے میں جا بجا نکتہ چینی کرنے اور تنقید کرنے کی ذمہ داری
اِنہیں سونپ کر حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرنے والا اِنہیں ایک کامیاب قائد
حزب ِ اختلاب بنا دیا ہے ۔جبکہ یہاں ہمارا خیال یہ ہے کہ ہونا تو یہ چاہئے
تھا کہ اِس لولی لنگڑی جمہوری حکومت کے صدر کے خطاب پر بحث کچھ اِس طرح کی
جاتی کہ صدر بھی خوش ہوجاتے اور چوہدری نثار علی خان کا صدر کی تقریر پر
بحث کا شوق بھی پورا ہوجاتا اِنہیں صدر کی گھسی پٹی تقریر پر یوں ولولہ
انگیز بحث کرنے کا اِن سے کہیں زیادہ فائدہ صدر اور اِن کی جماعت کو پہنچا
ہے جس سے صدر اور اِنکی تقریر کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے جبکہ اِس موقع پر
قائد حزبِ اختلاف کے لئے ہمارا مشورہ شاعر کے اِس شعر کی شکل میں ہے کہ
ضبط کہتا ہے ابھی رکھیے زباں کو خاموش
درد کہتا ہے کہ ہونٹوں کے دریچے کھولو
دل کا ارشاد کرو رسم ِ وفا کی باتیں
حق کا فرمان محبت کے صحیفے کھولو
جبکہ ہم ایک مرتبہ پھر یہی کہیں گے کہ چوہدری نثار علی خان نے صدر کی تقریر
پر بحث کر کے جہاں اپنا بحث کا شوق اور جنون پورا کیا تو وہیں اُنہوں نے
ایوان کا وقت بھی ضیاع کیا کیونکہ وہ دوسری طرف اپنی اِس بحث سے قوم کو یہ
بتانے اور جتانے کی بھی کوشش کرتے رہے کہ خدایا قوم اَب ہمیں فرینڈلی
اپوزیشن کا طعنہ نہ دے اِس لئے کہ ہم اَب حکومت کے ہر معاملے میں کھل کر
کہنے اور سُنانے کی ہمت رکھتے ہیں جیسا گزشتہ دنوں ایوان میں صدر کی تقریر
پر بحث کر کے اِنہوں اپنا موقف عوام کی عدالت میں پیش کیا ہے۔اگرچہ اِس میں
کوئی شک نہیں کہ ہمارے حکمرانوں کو مسندِاقتدار سنبھالنے سے پہلے اِس اہم
ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے نبھانے کی تربیت بھی حاصل کرلینی چاہئے تھی تاکہ
یہ اپنی نااہلی کے باعث ایسی کسی بھی ناقص کارکردگی کا ہرگز مظاہرہ نہ کرتے
جیسی اِنہوں نے گزشتہ تین سالوں کے دوران پیش کی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج
یہ ایوانوں سے لے کر ملک کے دوردراز کسی صحرا میں بنی چھونپڑی میں رہنے
والے ایک عام اور غریب پاکستانی کے نزدیک بھی ہدفِ تنقید بنے ہوئے ہیں اور
آج ہر پاکستانی خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتا ہو وہ اپنے حکمرانوں
کی نااہلی اور اِن کی حکومت کی ناقص کارکردگی کی بنا پر اِن پر انگلیاں
اٹھانا اپنا فریضہ سمجھتا ہے اپنے حکمرانوں کی یہ لاچارگی ،اِن کی نااہلی
اور تین سالہ دورِاقتدار میں اِن کی ناقص کارکردگی اور اِن کے عوام کے ساتھ
روا رکھے گئے روکھے پھیکے رویوں کو دیکھ کر آخر میں ہماری اپنے اللہ سے بس
یہی ایک دعا ہے کہ ربِ کائنات ہمارے حکمرانوں کو باقی کے دو سال اِس شعر کی
روشنی میں گزارنے کی توفیق دے کہ
عطا کی ہے حکومت جس کو یارب
اُسے رمزِ حکومت بھی عطا کر
سلیقہ دے اُسے شا ئستگی کا
اُسے حُسنِ متانت بھی عطا کر
جس پر پورا اتر کر یہ اپنی حکومت کے سابقہ تین سالوں میں خود پر لگنے والے
وہ تمام داغ بھی مٹا سکیں گے اور اِس طرح یہ اپنی حکومت کی بقیہ مدت ٹھیک
طرح سے گزار کر عوام میں پھر کوئی اچھا منہ لے کر جانے قابل ہوجائیں گے۔ |