امریکی انتظامیہ افغانستان میں
طالبان کے پے درپے حملوں اور امریکی فوجیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر
اتاولی بنی ہوئی ہے۔ امریکہ نے پچھلے24 گھنٹوں میں پاکستان کو سیکنڈ وارننگ
دی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اوبامہ ایڈمنسٹریشن کے چند شعبدہ باز بنارسی ٹھگ
دونوں ملکوں کے مابین پہلے سے موجود کشید گی کی شدت کو بڑھاوا دینے کی ریشہ
دوانیاں کررہے ہیں۔ امریکہ کے دفتر خارجہ نے7 اپریل کو امریکہ افغان جنگ
اور پاک امریکہ ریلیشن شپ کے متعلق رپورٹ جاری کی جسکا لب لباب یہ تھا
افواج پاکستان پاک افغان سرحدوں اور فاٹا میں عسکریت پسندوں کو کچلنے میں
ناکام ہوگئی ہیں۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے پاس وہ دم خم نہیں کہ وہ
جنگجوؤں سے لڑ سکیں۔پاکستانی فوجی قیادت اور وزارت خارجہ نے وائٹ ہاؤس کے
شوشوں اور بغض معاویہ سے لبریز رپورٹ کو رد کرتے ہوئے وضاحت کی کہ کابل میں
ناٹو کی ناکامی کا نزلہ پاکستان پر ڈالنا درست نہیں۔ چند روز قبل امریکی
سنٹرل کمانڈ کے پردھان منتری جنرل جیمزسیٹس باہمی ریلیشن شپ اور افغان وار
پالیسی اور سیکیورٹی مسائل پر بات چیت کے لئے ایک روزہ دورہ پر اسلام آباد
دوڑے آئے۔ چیف اف آرمی سٹاف کیانی اور جوائنٹ چیفس کمیٹی کے سرخیل جنرل
شمیم نے امریکی سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر پر واضح کردیا تھا کہ افواج پاکستان
جنگ میں پوری قوت سے مصروف عمل ہیں۔ امریکہ کی جاری کردہ پہلی رپورٹ میں
افواج پاکستان کی صلاحیتوں پر تنقید کی گئی ۔ پاک فوجی ترجمان نے رپورٹ کو
مسترد کرتے ہوئے اسکے مندرجات کو ناقابل اعتبار کہا۔ اوبامہ کیمپ کی ریلیز
کردہ پہلی رپورٹ کی سیاہی ابھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ اگلے روز 8 اپریل
کو امریکی محکمہ خارجہ نے بھیانک قسم کی دوسری قسط جاری کردی۔ دوسری رپورٹ
میں کہا گیا ہے کہ محکمہ پولیس اور کار زار سیاست میں کرپشن عروج پر ہے۔
انسانی حقوق غصب ہوچکے۔ قاتلوں کو سزا نہیں دی جاتی۔ دوسری قسط پاکستان کو
بدنام کرنے کی سازشوں پر مشتمل ہے۔ امریکہ نے ایک طرف 8 اپریل کو دوسری قسط
ریلیز کی تو دوسری طرف اسی روز جنرل کیانی کی صدارت میں کور کمانڈر کانفرنس
منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے کمانڈرز اور شرکا اجلاس نے کھری کھری سناتے ہوئے
مطالبہ کیا کہ جنگ کے حوالے سے پاکستانی کردار کا احترام کیا جائے ورنہ
تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔ پاکستان کے حوالے سے شائع ہونے والی
دونوں رپورٹس پر سیاسی عوامی اور فوجی حلقوں میں ترش رد عمل سامنے آیا۔
امریکہ ایک طرف باہمی ریلیشن شپ پر پڑنے والی ریت کو جھاڑتا ہے تو دوسری
طرف گمراہ کن رپورٹس کی آڑ میں پاکستانی افواج پر تنقید کرتا ہے۔ کیا یہ
دوغلا پن نہیں؟ کیا دوغلی سپرپاور کو اقوام عالم کی قیادت کرنے کا کوئی حق
حاصل ہے؟ پاک سیکریٹری خارجہ سلیمان بشیر20 اپریل کو امریکی وزارت خارجہ کی
دعوت پر امریکہ کا رخت سفر باندھ رہے ہیں جہاں پاکستانی وفد اور امریکی
دفتر خارجہ کے پالیسی میکرز مئی2011 میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والے
STRETGIC DIALOGUE کا ایجنڈا تیار کریں گے۔ پاکستان نے توقع کا اظہار کیا
ہے کہ اس طرح زرداری کے دورہ امریکہ کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ امریکی محکمہ
خارجہ کے بازیگر مارک ٹونز نے شیخی بگھاری ہے کہ امریکہ پاکستان کے مضبوط
اور روشن مستقبل کی خاطر دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں افواج پاکستان سے
تعاون کررہا ہے مگر یہ کیسا تعاون اور دوستی ہے کہ وار آف ٹیرر میں ہلاک
ہونے والے فوجیوں کی قربانیوں کو نظر انداز کردیا جائے۔پاکستانی حکومت کے
اطوار پر پھبتیاں کسی جائیں۔ ریمنڈ ڈیوس کیس کے موقع پر پاکستان اور امریکہ
کے مابین رنجشوں کا گراف اسمان تک جا پہنچا۔ریمنڈ کی رہائی کے بعد دتہ خیل
میں مقامی جرگے پر ڈرون حملوں کے بعد کشیدگی کا گراف بڑ روز افزوں ہوتا رہا۔
کور کمانڈرز کانفرنس میں امریکہ کو دی جانیوالی وارننگ کے بعد حالات کا
دھارا کس جانب مڑتا ہے اسکا اندازہ اپریل کے اختتام تک ہوجائے گا۔ پاکستان
کی فوجی قیادت اور وزارت خارجہ کی جانب سے امریکی رپورٹس کو مسترد کرنے کے
بعد امریکہ کو جان لینا چاہیے کہ پاکستان قومی مفادات کے منافی کوئی شرط
تسلیم نہیں کرسکتا۔ امریکیوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان پر الزام تراشی کی
بجائے کابل میں اپنی عسکری حکمت عملی پر توجہ دیں۔ اوبامہ نے دو ماہ قبل
کہا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کا رشتہ باہمی مساوات عزت و احترام کی
بنیادوں پر قائم ہے۔دونوں فریق مساوات و رواداری دو طرفہ ہم آہنگی باہمی
مفادات اور اشتراک عمل کا احترام کریں۔ اگر صدر اوبامہ کے پاکستان سے متعلق
کہے گئے محولہ بالہ جملے کی خلاف ورزی کی گئی تو سب کچھ بھک سے اڑ سکتا ہے۔
بحرف آخر امریکی رپورٹ میں سچ راندہ درگاہ بن چکا ہے۔ دوسری قسط کی رپورٹ
میں پاکستان میں ماورائے قانون ہلاکتوں گم شدگیوں اور ازیت رسانی کے واقعات
کو مرچ مصالحے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔امریکی رزیل لکھتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر
وڈیو فلم نشر ہوئی جس میں فوجی وردیوں میں ملبوس جوان لوگوں پر گولیاں برسا
رہے ہیں۔ صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔پاکستانی سماج کو محاسبے سے بے
نیاز کلچر کا طعنہ دیا گیا ہے۔ حکومت امریکی رپورٹ کا سنجیدگی سے نوٹس
لے۔ایسی الزام تراشیوں کا مقصد پاکستانی سماج کو ایسی غیر اخلاقی بیماریوں
سے پاک کرنے کی بجائے پاکستان کو دباؤ میں لانے کی امریکی سازش ہے۔ تعجب تو
یہ ہے کہ بنیادی حقوق کی گردان کرنے والے صدام پر کیمیائی ہتھیاروں کا
بھونڈا الزام تھوپ کر لاکھوں عراقیوں کا خون کرنے والے بش کے محاسبے کا
مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ ایسی جعلی رپورٹیں تیار کرنے والوں پر حضرت
یسوع مسیح کا یہ قول صادق آتا ہے کہ وہ مچھر چھانتے اور اونٹ سموچے نگل
جاتے ہیں۔ بحرحال رپورٹ میں مسلم حکمرانوں کے لئے کثیر سامان عبرت موجود
ہے۔ |