ملک بھر میں شہریت ترمیم قوانین کےخلاف احتجاج کی جو
جھلکیاں دیکھ رہے ہیں وہ بالکل اُسی طرح سے دکھائی دے رہے ہیں جس طرح سے
ہندوستان کی آزادی میں ہندوستانیوںنے انگریز حکومت کے خلاف مورچہ کھولا
تھا،اس وقت بھی ہندوستانی نوجوان سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرتے رہے او رآج
بھی ہندوستان کے نوجوان سڑکوں پر اترکر دستور بچانے کی مانگ کررہے ہیں۔یہ
الگ بات ہے کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت دوسروںکی سننے کی عادی نہیں ہے
بلکہ وہ95 سال قبل بنائے گئے سنگھ پریوار کے اصولوں کو سنتی ہے اور اُسی پر
چلتی ہے۔ہندوستان بھر میں آج جس طرح سے نفسی نفسی کا عالم پیدا ہو اہے وہ
ماضی میں شائد ہی کبھی پیدا ہو اتھا،ایمرجنسی کا دور پہلے بھی گذرا ہے،لیکن
جس طرح سے اب ملک کے حالات بدتر ہوچکے ہیں اُس طرح کے حالات کبھی ہندوستان
میں پیش نہیں آئے۔آج بھارت بھر میںپیدا ہونے والےحالات کے ذمہ دار جہاں
سنگھ پریوار ہے وہیںہم عام بھارتی بھی ہیں۔ہمارا شکوہ ہے کہ سنگھ پریوار
دیش بدلنے چلا ہے،دستور بدلنے چلا ہے،ملک کی جمہوریت کو بدلنے کیلئے سنگھ
پریوار کوشش کررہا ہے۔دراصل سنگھ پریوارکی یہ کوشش2014 یا2004 سے نہیں ہوئی
ہے بلکہ یہ کوشش1925 سے شروع ہوئی،اُس وقت سے لیکر آج تک یہ اپنے مقصد کو
حاصل کرنے کیلئے مسلسل کوششیں کرتے رہے،جدوجہد کرتے رہے اورکئی طرح کی
قربانیاں دی ہیں۔ان95 سالوںمیں سنگھ پریوارنے براہ راست حکومت قائم کرنے کا
اعلان نہیں کیا،بلکہ سب سے پہلے انہوںنے بھارتیہ ہندوئوںکی ذہن سازی
کی،گوالکر،ہیڈگیوار نے مل کر ملک میں سنگھ پریوارکی شاخوںکی توسیع کیلئے
کام کیا ہے۔یہ دو لوگ ہی مل کر آج بھارت کی سب سے بڑی جماعت بنانے میں
کامیاب ہوئے ہیں۔ان لوگوںکی پہل اُن لوگوںکیلئے جواب ہے جو اکثرحوصلوںکی
پیمائش کرنے کے بجائے تعدادکا جائزہ لیتے ہیں۔دوسری جانب بھارت کی سب سے
بڑی اقلیت کہی جانے والی مسلمانوںنے اس ملک کے تئیں کتنی سنجیدگی سے کام
کیا ہے،یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔آج بھارت کےسرکاری دفاترمیں کتنے مسلم
افسران کام کررہے ہیں؟پولیس میں کتنے مسلم نوجوان خدمات انجام دے رہے
ہیں؟سی آرپی ایف،ایس آرپی،آر اے ایف اور فوج میں کتنے مسلم نوجوان خدمات
انجام دے رہے ہیں؟یہ بھی سوچ لیں۔جب سنگھ پریوارنےہندوراشٹربنانے کے عزم کو
لیکر اپنے ہندوئوں کو ان محکموںو سرکاری کاموںپر تعینات کرتے ہوئے اپنی
راہیںہموار کرلی ہیں،تو کیونکر مسلمانوںنے اپنے دفاع و جمہوریت کی بقاء
کیلئے کبھی اپنی نسلوں کو سرکاری ملازمتوںمیں بھیجنے کا عزم نہیں
کیاہے؟ہماری قوم کو صرف دینار،ریال اور درہم سے مطلب رہا ہے،یہی وجہ ہے کہ
آج یہ قوم پوری طرح سے بے رحم ہوچکی ہے اور کوئی ا س پر رحم کرنے والانہیں
ہے۔آج ہم غیروں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کی بات کررہے ہیںاور
غیروںکا ساتھ لینے کیلئے بڑی بڑی تقرریں کررہے ہیں۔لیکن آزادی کے75 سال
بعد سے ہم نے کتنے دلتوںو پسماندہ طبقات کو لیکر اُن کی تحریکوںمیں حصہ
لیا۔جب دلت کو مارا جاتا تھا تو ہم یہ کہہ کر سائڈ میں کھڑے ہوجاتے ہیںکہ
یہ تو اُن کا آپسی معاملہ ہے،اور آج جب مسلمانوں کو بے گھر کرنے کی تیاری
ہورہی ہے تو ہم اُن کا ساتھ مانگ رہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں
کو اب تو ہوش میںآکر اپنی نسلوں کو درہم وریال کمانے کیلئے گھروں سے دور
نہ کریں ورنہ زندگی بھر انہیں ملک سے دور ہی رہنا پڑیگا اور اگر ہم بھی غیر
مسلموں سے دور ہیں گے تو وہ ہمارے قریب اُس وقت آئینگے جب ہمارے جنازے
اٹھیں گے۔
|