ہیمنت سورین وزیراعلیٰ کیسے بن گئے ؟

جھارکھنڈ ایک کثیر لسانی اور متنوع تہذیب کی حامل ریاست ہے۔ یہاں پر ۶۲ فیصد افراد ہندی بولتے ہیں مگر دس فیصد سنتھالی اور بنگالی زبان بولنے والے بھی قیام کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ ۶ فیصد عوام کی مادری زبان اردو ہے۔ قبائلی زبانیں جیسے ہو، منداری اور کوروخ کے بولنے والے تین تین فیصد ہیں۔ جنوب میں اڑیہ اور شامل میں میتھلی بولنے والوں کی تعداد بھی بالترتیب ڈیڑھ اور نصف فیصد ہے۔ اس صوبے کی اکثریت یعنی ۶۸ فیصد ہندو ضرور ہے لیکن یہاں ۵ء۱۴ فیصد مسلمان بھی ہیں ۔ ان کے بعد دوسری سب سے بڑی اقلیت کا مذہب سرنائزم ہے جو ۱۳ فیصد ہیں۔ عیسائیوں کی تعداد ساڑھے چار فیصد سے بھی کم ہے۔ اس فرق کے سبب یہاں پر کسی ایک جماعت کو کبھی بھی واضح اکثریت حاصل نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اب کی بار ۶۵ پار کا نعرہ لگانے والی بی جے پی ۲۵ بھی پار نہیں کرسکی ۔ ۲۰۱۴؁ کے مقابلے اس کو ۱۲ نشستوں کا نقصان ہوا اور وہ شکست فاش سے دوچار ہو گئی ۔

بی جے پی کی طرح اس کے سابق حلیف بھی نقصان میں رہے۔ ان میں جھارکھنڈ وکاس مورچہ ۸ سے گھٹ کر ۳ پر آگیا یعنی اس کو ۵ نشستوں کا نقصان اٹھانا پڑا ۔ اسی طرح اے جے ایس یو کو بھی ۳ نشستوں کا گھاٹا ہوا اور وہ ۵ سے ۲ پر جاپہنچی ۔ اس کے برعکس بی جے پی کا گھاٹا جھارکھنڈ مکتی مورچہ کا فائدہ بن گیا اور وہ ۱۹ سے بڑھ کر ۳۰ پر پہنچ گئی ۔ جے ایم ایم سے بھی بڑا فائدہ کانگریس کا ہوا جس کی نشستوں میں ۱۰ کا اضافہ ہوا اس طرح وہ ۶ سے بڑھ کر ۱۶ پر جاپہنچی۔ اس مہاگٹھ بندھن میں شامل آر جے ڈی نے بھی اپنا کھاتا کھولا اور ایک نشست پر کامیابی درج کرائی ۔ ان دونوں سے الگ تھلگ اپنے بل بوتے انتخاب لڑنے والی جنتا دل (یو) ، ایک جے پی اور بہوجن سماج پارٹی اپنا کھاتا تک نہیں کھول سکے ۔ایم آئی ایم کوتو نوٹا سے کم ووٹ ملے۔

یہ تبدیلی تو بظاہر نظر آتی ہے لیکن ایسا کیوں ہوا؟ یہ جاننے کے لیے ان عوامل کا جائزہ لینا ہوگا جو نتائج پر اثر انداز ہوئے ۔ بہار سے الگ ہونے کے بعد جھارکھنڈ میں چار مرتبہ انتخابات ہوئے مگر کبھی بھی کسی ایک جماعت کو واضح اکثریت نہیں مل سکی ۔ ۲۰۰۵؁ میں بی جے پی کو ۳۰ نشستوں پر کامیابی ملی اور ۱۱ کی کمی رہ گئی ۔ ۲۰۰۹؁ میں جے ایم ایم اور بی جے پی کو ۱۸ سیٹیں ملیں اور ان کو حکومت سازی میں ۲۳ کی کمی پوری کرنی پڑی۔ ۲۰۱۴؁ میں بی جے پی نے ۳۷ نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی پھر بھی چار نشستوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اسے اے جے ایس یو کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا ۔ اس بار جھارکھنڈ مکتی مورچہ کو ۳۰ نشستیں ملی ہیں لیکن انتخاب سے قبل اس کے ساتھ الحاق کرنے والی کانگریس اور جے ڈی یو کے ساتھ اسے اکثریت حاصل ہے۔ ان اعدادو شمار کو پیش کرنے کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ اس صوبے میں دیگر جماعتوں کو ساتھ لیے بغیر ابھی تک حکومت سازی ممکن نہیں رہی ۔ اسی لیے انتخاب سے پہلے ہی جھارکھنڈ مکتی مورچہ نے کانگریس اور آر جے ڈی کے ساتھ مہاگٹھ بندھن تشکیل دے دیا ۔ اس کے برعکس بی جے پی نے اے جے ایس یو کے ساتھ اپنا الحاق ختم کردیا اور جھارکھنڈ وکاس مورچہ کو بھی توڑ کر اپنا دشمن بنالیا۔

بی جے پی نے یہ حماقت کیوں کی ؟ اس کی وجہ پارلیمانی انتخاب کے اندر حاصل ہونے والی شاندار کامیابی میںچھپی ہوئی ہے۔ ۷ ماہ قبل قومی انتخاب میں بی جے پی کے ساتھ اے جے ایس یو کا اتحاد تھا تو اسے جملہ ۵۱ فیصد ووٹ ملے تھے ۔ اس کے نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۴ میں سے ۱۲ نشستوں پر اسے کامیابی مل گئی۔ ان میں سے ۱۱نشستیں بی جے پی کے حصے میں آئی تھیں اور ایک پر اے جے ایس یو نے فتح حاصل کی تھی۔ اس کامیابی نےبھاجپ کو رعونت کا شکار کردیا کیونکہ ۵۴ صوبائی حلقوں میں اس کو سبقت حاصل تھی۔ ان میں ۱۶ کے اندر ۹۰ ہزار تو ۳۵ میں اسے ۵۰ ہزار سے زیادہ ووٹ کی لیڈ تھی۔ یہ توقع کی جارہی تھی کہ صوبائی انتخاب میں ووٹ کا تناسب تقریباً ۱۰ فیصد گرجائے گا اس لیے اگر بی جے پی ۴۱ فیصد پر بھی آجائے تب بھی بہ آسانی اکثریت حاصل ہوجائے گی ۔ اس موقع پر بی جے پی نے اے جے ایس یو کو بھگا دیا جو ۸ فیصد ووٹ بھی لے گئی اور بی جے پی ۳۳ فیصد ووٹ پر سمٹ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۱۴؁ کی بہ نسبت ایک فیصد زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود بی جے پی ۱۲ نشستیں گنوا کر اقتدارکھو بیٹھی ۔ بھاجپ کے برعکس جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے ووٹ کا تناسب ۲ فیصد گھٹا اس کے باوجود اس کی نشستوں میں ۱۱ کا اضافہ ہوا کیونکہ اس کے ساتھ کانگریس تھی۔ کانگریس کا ووٹ شیئر ۴ فیصد بڑھا اور اس کی سیٹیں ۶ سے بڑھ کر ۱۶ پر پہنچ گئیں۔ آر جے ڈی کے بھی اس الحاق میں شامل ہونے کا تینوں کو فائدہ ملا۔

جھارکھنڈ کے اندر انتخاب جیتنے کے لیے بی جے پی نے اپنی حامی جماعتوں کو دھوکہ دینے کے بعد اپنے اسٹار پر چارکوں پر بھروسہ کیا ۔ ان میں پہلے نمبر وزیر اعظم نریندر مودی تھے ۔ اس کے بعد پارٹی کے صدر امیت شاہ اور ان دونوں کے بعد یوگی ادیتیہ ناتھ کی باری آتی ہے۔ ان تینوں نے مل کر جھارکھنڈ کی عوام پر سرجیکل اسٹرائیک کردیا ۔ نریندر مودی اورامیت شاہ میں سے ہر ایک نے ۹ ریلیاں کیں۔ اس کے ذریعہ ۸۱ میں سے ۶۰ سیٹوں کو کور کیا گیا مگر کل ۲۰ مقامات پر کامیابی ملی اور باقی ۴۰ پر بھاجپ ہار گئی ۔ اس کا مطلب ہے کہ اسٹرائیک ریٹ صرف ۳۳فیصد رہا ۔ راہل اور پرینکا نے جملہ ۶ خطابات عام کرکے۲۳ سیٹوں کو کور کیا اور ان میں ۶ پر کامیابی درج کرائی اس طرح وہ بھی ۳۳ فیصد پر رہے یعنی حساب برابر ہوگیا لیکن خاص بات یہ ہے کہ جہاں بی جے پی ۴۳ (ّ۳۷جمع ۶) سے ۲۵ پر آئی وہیں کانگریس ۶ سے ۱۶ پر گئی ۔ اس سے عروج و زوال کا اندازہ ہوتا ہے۔

جھارکھنڈ میں ہیمنت سورین دوسری مرتبہ وزیراعلیٰ بننے جارہے ہیں ۔ اس سے قبل تین تین مرتبہ ان کے والد شیبو سورین اور بی جے پی کے ارجن منڈا کی حلف برداری ہوچکی ہے۔ان کے علاوہ ایک ایک بار بابولال مرانڈی ، رگھوبیر داس، ہیمنت سورین اور مدھو کوڑا بھی وزیر اعلیٰ بنے مگر وہ اب بدعنوانی کے الزام میں جیل کی چکی پیس رہے ہیں۔ عدم استحکام کے سبب ریاست میں تین بار صدر راج بھی لگا لیکن عوام کے مسائل حل نہیں ہوئے اس لیے کہ کسی سرکار نے اس کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی ۔ اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہوسکتی ہے کہ چالیس فیصد معدنی ذخائر کے حامل ریاست کی انتالیس فیصد آبادی غربت کے خط سے نیچے ہو۔ اس صوبے تقریباً ۲۰ فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں ۔ جھارکھنڈ کی معیشت (جی ڈی پی : ۱۰ فیصد سے زیادہ) ملک کے دیگر صوبوں سے بہترہے مگر سارا دھن دولت چند لوگوں کی تجوری میں بند ہوجاتا ہے اور عوام ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔

اس معاشی عدم مساوات کی وجہ سے جھارکھنڈ ماو نواز وں کا گہوارہ رہا ہے۔ ۱۹۶۷؁ کے بعد سے اب تک ۶ ہزارافراد (جن میں فوج اور پولس کے اہلکار بھی شامل ہیں) اس تشدد کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس صوبے ۹۲ ہزار مربع کلومیٹر علاقہ نکسلواد سے متاثر ہے جہاں ۲۰ ہزار جنگجو بستے ہیں۔مارچ ۲۰۰۷؁ میں رکن پارلیمان سنیل مہتو کو ہولی کے دن فٹبال کے میدان میں کھیل دیکھتے ہوئے مارڈالا گیا۔ نکسلوادی چونکہ قبائلی عوام کے سرکاری ظلم و استحصال سے حفاظت کے دعویدار ہیں اس لیے انہیں عوام کی ہمدردی اور حمایت حاصل ہوجاتی ہے۔ غریب عوام کی جانب سے امیر صنعتکاروں کے خلاف ان کی مسلح کشمکش ہمیشہ جاری رہتی ہے ۔

یہی وہ صوبہ ہے جہاں ۲۰۱۷؁ میں سنتوشی نامی ۱۱ سالہ بچی بھوک سے اس لیے مرگئی تھی کہ اس کے راشن کارڈ کو آدھار کارڈ سے جوڑا نہیں جاسکا تھا ۔ اس کی ماں کوئلی دیوی کے گھر میں اس دن نمک اور چائے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ مودی جی کے من کا جھوٹ اسی صوبے میں افشاء کرنے والے پونیہ پرسون واجپائی کو حق گوئی کے سبب اے بی پی چینل نے ملازمت سے نکال باہر کیا تھا۔اس انتخاب میں عوام نے ان ساری ناانصافیوں کا حساب چکا دیا ۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ مل کر بھی قبائلیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے وزیر اعلیٰ رگھوبر داس کوانتخاب جتانے میں ناکام رہے ۔ رگھوبر داس کے ۱۶ میں سے ۱۲ وزیر اپنی سیٹ نہیں بچا سکے۔ اس طرح عوام نے بتا دیا کہ آپ ٹیلی ویژن پر کسی صحافی آواز تو دبا سکتے ہو لیکن ای وی ایم کی انگلی نہیں پکڑ سکتے ۔ طاقت کے استعمال سے ظلم و جبر تو کیا جاسکتا ہے مگر دل نہیں جیتا جاسکتا۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1231967 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.