مولانا فضل الرحمان کے 'آزادی مارچ' کے بعد ایسی ایسی 'ان
ہونیاں' وقوع پذیر ہو رہی ہیں کہ ملکی تاریخ میں اس کی نظیر ڈھونڈنا مشکل
ہو جاتی ہے۔ ملکی حاکمیت کی کھینچا تانی میں ڈرامائی موڑ یکے بعد دیگرے
سامنے آنے لگے۔ بات آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے معیاد عہدہ میں مزید
تین سالہ مدت کی توسیع سے شروع ہوئی۔وزیر اعظم کی طرف سے فائل بازی کے
باوجود معاملہ یکسو نہ ہوا ۔سپریم کورٹ نے ڈرامائی طور پر ایک درخواست پر
از خود نوٹس لیا ۔ نئی امیدیں جاگ اٹھیں۔آرمی چیف کی معیاد میں چھ ماہ کی
مشروط توسیع کرتے ہوئے اس عرصے میں قانون سازی کا حکم صادر کیا۔ کابینہ نے
آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظور دی اور ساتھ ہی دو بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم
لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی طرف سے آرمی ایکٹ کی ترامیم کی حمایت کا اعلان
کر دیاگیا۔
پھر سوشل میڈیا پہ عوامی ردعمل کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ مسلم لیگ(ن) اور
پیپلز پارٹی کا عوامی تنقید سے محفوظ رہنے کا 'ہنی مون ' پیریڈ ختم ہوتا
دکھائی دے رہا ہے۔ یہ دونوں بڑی پارلیمانی اپوزیشن جماعتیں سخت عوامی تنقید
کا نشانہ بنی ہوئی ہیں جس سے ان جماعتوں کی عوامی ساکھ متاثر ہونے کی
صورتحال بھی درپیش ہو سکتی ہے۔ لوگ کھل کر ان دونوں پارٹیوں کے رہنمائوں کی
پالیسیوں،ان کے طرز عمل کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں ۔یہی شعور اور ملک و عوام
سے اخلاص کا بہترین اظہار ہے ۔ یقینا شعور ایسی چیز نہیں جسے شکست سے دوچار
کیا جا سکے۔
بعض حلقوں کی طرف سے ان جماعتوں کے رہنمائوں کے اس طریقہ کار کو مجبوری سے
تعبیر کرتے ہوئے ان کے فیصلوں کو قبولیت کا درجہ دیئے جانے کے حامی نظر آتے
ہیں ۔ بالخصوص چند حلقوں کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے کہا جا رہا ہے
کہ اس کے رہنمائوں کو جیلوں میں قید کیا گیا،اب اگلا مرحلہ موت کا ہی ہو
سکتا تھا۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ عوام نے ان کا بھر پور ساتھ نہیں دیا ۔وہ
اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے
جانے پر عوام سڑک پر نکل آئے تھے لیکن لیگی قیادت نے عوامی طاقت کی رہنمائی
کرتے ہوئے سسٹم کو 'چیلنج' کرنے کے بجائے ' لو پروفائل' حکمت عملی اختیار
کی۔ اگر رہنما ظلم و جبر سے مجبور ہونے کا جواز پیش کرتے ہیں تو پھر کس نے
کہا ہے کہ سیاست کریں ۔ سیاست ملکی و عوامی مفاد کے لئے کام کرنے کاطریقہ
کار ہے،کوئی دھندہ،کاروبار یا مادی مفادات کے حصول کے ذریعے کا نام نہیں
ہے۔
چند ماہ پہلے ہی یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ ملکی سیاسی جماعتیں'بار گینگ'
کی پوزیشن تو رکھتی ہیں لیکن پارلیمنٹ کی بالادستی کے مطالبے میں کردار کے
مظاہرے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ جو لوگ کسی سیاسی رہنما کی وجہ سے عوامی
نمائندہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کر رہے تھے،وہ نئے حالات و وقعات کے
مطابق اپنے بیانیہ کی تشکیل نو پر توجہ دیں۔ جو ملک میں عوامی حاکمیت قائم
کرنے کے متلاشی ہیں، ان کے لئے مزید کٹھن صورتحال کی توقع ہے۔ عوامی
نمائندہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے مطالبے میں ملکی سیاسی چہروں کی ''سسٹم''
سے مفاہمت کے بعد ،ذمہ داری سول سوسائٹی پر آ گئی ہے۔ یہ حقیقت بھی واضح ہے
کہ ملک کے وسیع تر مفاد کے برعکس غاصبانہ حاکمیت سے مفاہمت کرتے ہوئے قومی
موقف سے پسپائی اختیار کرنے والے قومی قائدین نہیں کہلا سکتے۔
بلاشبہ ظلم اور جبر کی شدت نے حاکمیت اور حکومت کے لئے سیاسی میدان ہموار
کر دیا ہے۔ لیکن رہنمائوں کی مجبور سیاست کے طرز عمل کے باوجود ملک میں
عوامی شعور نے شکست نہیں کھائی۔ ملکی تاریخ کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جب
جنرل ایوب کی آمریت نے سیاست کو شکست فاش دیتے ہوئے فتح کر لیا تھا، تب
جنرل ایوب کی آمرانہ حکومت کو مہنگائی کی وجہ سے عوامی مظاہروں نے خاتمے کی
راہ دکھلائی تھی ۔ بدترین سازشیں ، بدترین آمریتوں کے نت نئے ظلم وجبر کے
تجربات ، کسی کو مار دیا کسی کو مروا دیا۔ ایک ہوتا ہے جبر اور ایک ہوتا ہے
ظالمانہ جبر۔ جو بار گینگ کے بجائے چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہو، وہ یا تو
مر جاتے ہیں یا نشان عبرت بنا دیئے جاتے ہیں۔ کسی کو عاجز ،کسی کو مجبور کر
دیا، کسی کو خرید لیا ،کسی سے ' بار گینگ ' کر لی لیکن عوامی نمائندہ
پارلیمنٹ کی مکمل اور حتمی بالادستی کے تصور کو شکست نہیں دی جا سکی۔
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ملکی سیاست کو مکمل طور پر مغلوب کر لیا گیا ہے۔
فضل الرحمان کی پارٹی ڈٹی ہوئی ہے اور وزیر اعظم عمران خان کی مزاحمت کرتے
ہوئے حکومت کی لئے بدستور خطرہ بنی ہوئی ہے۔ ساتھ ہی جماعت اسلامی بھی
مزاحمت کی راہ اختیار کرنے کی جانب مائل دکھائی دیتی ہے۔ مختصر یہ کہ عوامی
حلقوں کی طرف سے مزاحمت وہ نوشتہ دیوار ہے جس کا ادراک اور احترام کرنا
ملکی انتظامیہ کی طرف سے ملک کے حق میں دانشمندی کا اظہار ہو سکتا ہے۔ |