ناول ’’مرگ انبوہ‘‘ ایک تاثر

(مشرف عالم ذوقی کا ایک شاہکار ناول)

مشرف عالم ذوقی اپنی بے باک تحریروں کے لئے لمبے عرصے سے جانے جاتے ہیں۔ ہرطرح کی ظلم و زیادتی ، سماجی، سیاسی برائیوں اور تہذیبی گراوٹ کی طرف عوام اور پڑھے لکھے طبقوں کا دھیان متوجہ کراتے رہتے ہیں۔ ان خوبیوں کی وجہ سے قارئین ان کی تحریروں کو بڑے دھیان سے پڑھتے ہیں ۔اپنے بے لاک اظہار خیال کے لئے وہ ہمیشہ سرخیوں میں بنے رہتے ہیں۔
ان کا پیش نظر ناول ’’مرگ انبوہ‘‘ بھی سماجی اور سیاسی ناکامیوں کو پیش کرنے کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
اس ناول کے دونوں فلیپ پر شہناز شور (مسی ساگا، کناڈا) کی بہت ہی پُر مغز رائے شامل ہے۔ اس میں انہوں نے تحریر کیا ہے:
’’ذوقی نے ہندوستان کے منظر نامے میں رہتے ہوئے دنیا کے کینوس پر اتنا بڑا ناول لکھ ڈالا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا کے حوالے سے اردو ادب میں اس سے زیادہ بلیغ ، واضح اور فلسفیانہ ناول دوسرا اب تک نہیں لکھ پایا ہے۔ ہوسکتا ہے چند لوگ اسے سیاسی ناول کہہ کر اس ناول کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کریں مگر میرا سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کا بڑا ناول غیر سیاسی بھی ہے؟ میری دانست میں ماڈرن اردو لٹریچر کا یہ پہلا ناول ہے جسے جتنی جلد ممکن ہو انگریزی میں ترجمہ کیا جانا چاہئے کہ اس الیمے سے اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کا ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا گزر رہی ہے۔ ‘‘
مندرجہ بالا خیالات یقینی طور پر مناسب ہیں۔ ناول کے مطالعے سے ایسا لگتا ہے کہ اس میں درج المیے صرف ہندوستانی سطح پر رونمانہیں ہورہے ہیں بلکہ یہ سارے مسائل عالمی سطح کے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں چند برسوں میں افراتفری کے حالات پیدا ہوئے ہیں اس لئے یہاں کے مختلف حالات کی عکاسی یہ ناول پوری طرح سے کرتا ہے۔
پیش نظر ناول ’’مرگ انبوہ‘‘ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی ایک حقیقی کہانی ہے جس میں ان کے احوال اور مستقبل کی جھلک نمایاں طور پر دیکھنے کوملتی ہے۔ اس ناول میں سماجی، سیاسی، ثقافتی، اخلاقی، مذہبی اور اقتصادی منظرنامے کی جھلک ہے جس سے آج ہندوستان کا مسلمان و دیگر کچھ طبقہ بری طرح پریشان اور ہراساں ہے۔ شہروں، شاہراؤں ، قصبوں اور محلوں کے نام بدلے جارہے ہیں ۔ یہ سیاسی ناکامی ایک ایک سچی تصویرپیش کرتا ہے۔ گنہہ گار اور بدنما داغ والے چہرے آج سیاست کی اونچی کرسیوں پر براجمان ہیں۔ وہ ملک کی ترقی کے اہل نہیں ہیں اس لئے اپنی ہر ناکامی کو چھپانے کے لیے کوئی نہ کوئی نیا حربہ اختیار کرتے رہتے ہیں۔ کبھی لوجہاد ، کبھی دفعہ ۳۷۰ کے نام پر، کبھی تین طلاق کے نام پر، کبھی این آر سی، این پی آر اور سی اے اے تو کبھی یکساں سول کوڈ کے نام پر ملک کے باشندوں کے درمیان نفرت پھیلا کر سیاست کی روٹی گرم کرنے میں لگے ہیں۔ ان سارے معاملات کو مشرف عالم ذوقی نے بڑی چابکدستی سے اپنے ناول کا موضوع بنایا ہے۔ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا جھوٹا نعرہ دے کر جگہ جگہ ریپ کا بازار گرم ہے۔ ریپ کرنے والے کے خلاف نہ کوئی کیس نہ کوئی مقدمہ الٹے ان کے سپورٹ میں جلوس نکالے جاتے ہیں اور اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو یا تو جیلوں میں رکھ دیا جاتا ہے یا موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اس کے خلاف مشرف عالم ذوقی نے بے باکانہ انداز میں اپنے ناول کے ذریعہ ایک زور دار آواز بلند کی ہے۔
۴۴۰ صفحات پر مشتمل اس ناول ’’مرگ انبوہ‘‘ کا انتساب مشرف عالم ذوقی نے ’فکشن کی عظمت کے نشان اور عظیم انسان سید محمد اشرف‘ کے نام کیا ہے۔ اپنے اس ناول کو انہوں نے پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ باب اول ’’موت سے مکالمہ‘‘ ، باب دوم ’’جہانگیر مرزا کی ڈائری‘‘، باب سوم ’’موت سے سامنا‘‘ ، باب چہارم ’’ مرگ انبوہ‘‘ اور باب پنجم ’’ نیند میں چلنے والے‘‘ کے عنوان سے ہے۔
والدین اور بچوں کے درمیان بڑھتی ہوئی دوریاں بھی اس ناول کا اہم حصہ ہیں۔ آج عام طور سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ والدین اور بچوں کے خیالات کے درمیان کافی تضاد پایا جاتا ہے۔یہ تضادات اخلاقیات کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ موبائیل کا ضرورت سے زیادہ استعمال، انٹرنیٹ ، ٹیلی ویژن، فیس بک کے بے جا استعمال نے بچوں کے ذہنیت کو بیمار بنادیا ہے۔ وہ ذہنی دیوالیہ پن کے شکار ہوتے جارہے ہیں۔ اس وجہ سے والدین بچوں کے حالات سے کافی خوف زدہ نظر آتے ہیں۔ مشرف عالم ذوقی جیسے ناول نگار کا حساس ذہن بھلا ایسے نازک مسئلے سے دورکیسے رہ سکتا ہے۔ انہوں نے اس مسئلے پر اپنے ناول میں کئی انداز سے گفتگو کی ہے۔ اپنے ناول ’’مرگ انبوہ‘‘ میں مکالمہ کی شکل میں اس گلوبل مسائل کو بڑے ہی اچھوتے اندا زمیں پیش کیا ہے:
’’تو یہ تمہاری غلطی تھی نا، کہ تم نے باپ کو فرشتہ سمجھا ۔ جبکہ باپ بھی انسان ہوتے ہیں۔ باپ سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔ باپ سے بھی گناہ اور جرم سرزد ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود باپ اپنے بیٹوں کو پیار کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کی اپنی ذات اور بیوی بیٹے کے لیے اس کی موجودگی ترازو کے دو پلڑوں کی طرح ہوتی ہے۔ تو تمہارے خیال سے․․․․․․․؟
میں نے اس بار نظر اٹھاکر پاشا کی طرف دیکھا۔
پاشا اب بھی میرے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
تو تمہارے خیال سے ایک باپ کو زیادہ ہنسنا نہیں چاہئے․․․․․․
’’کیوں نہیں چاہئے‘‘۔
’’باپ کو فیشن نہیں کرنا چاہئے۔ باپ کو اڑنا ن ہیں چاہئے۔ باپ کو ایک بزرگ کی طرح رہنا چاہئے۔ باپ کو عشق نہیں کرنا چاہئے۔‘‘
پاشا کی آنکھوں میں اچانک چمک پیدا ہوئی تھی۔ اس بار میرا چہرہ ہر طرح کے تاثرات سے عاری تھا۔
تم کیوں سمجھتے ہو کہ تم میرے بیٹے ہو تو میری اپنی ذات کی چمک ختم ہوگئی ؟ ایک انسانی جسم تمہارے پاس بھی ہے اور میرے پاس بھی۔ اور اس انسانی جسم کا فاصلہ ۲۵ سال سے زیادہ کا نہیں ہے۔ تم مجھ سے پچیس سال چھوٹے ہو بس․․․․․․․․‘‘
ماب لنچنگ ہندوستان کا ایک بڑا المیہ ہے۔ جو گزشتہ دنوں سرخیوں میں تھا۔ اس کے ذریعہ سینکڑوں بے قصور مسلمانوں کی جانیں لی جاچکی ہیں۔ لوگ باہر سفر کرنے سے ڈرنے لگے ہیں۔اسے ناول نگار نے مکالمہ کی شکل میں اپنے ناول ’’مرگ انبوہ‘‘ میں پیش کیا ہے۔
پیش نظر ناول ’’مرگ انبوہ‘‘ کے مقصد کو سمجھنے کے لئے ’’مشرف عالم ذوقی سے ایک مختصر گفتگو ‘‘ جسے انٹرویو کی شکل میں سمیہ بشیر (کشمیر) نے لیا جو گذشتہ دنوں روزنامہ پندار ، پٹنہ میں میری نظروں سے گزرا کے چند سوال و جواب پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ قاری ناول کے تھیم کو سمجھ سکیں۔
ایک اہم سوال تھا ’’مرگ انبوہ‘‘ کا عنوان قاری کو خوفزدہ کرتا ہے۔ ناول کی کہانی سے یہ عنوان کس طرح مطابقت رکھتا ہے؟‘‘
مشرف عالم ذوقی جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہم خوفزدہ کرنے والے حالات میں جی رہے ہیں ، اس لئے میں گل و بلبل کی کہانی نہیں لکھ سکتا۔ مرگ انبوہ جسے انگریزی میں بالو کاسٹ کہا جاتا ہے دراصل دوسری جنگ عظیم کے دوران میں جرمنی کے چانسلر ہٹلر کی نازی افواج کے ہاتھوں مبینہ قتل عام کا شکار ہونے والے یہودیوں سے منسوب ہے ۔ اس کو یہودیوں کی نسل کشی بھی قرار دیا جاتاہے ۔ اس نسل کشی کے دوران لاکھوں یہودی مرد، عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ اشتراکیت پسندوں، پولینڈ کے مشترکہ قومیت کے حامل باشندے ، غلاموں، معذوروں، ہم جنس پرستوں ، سیاسی اورمذہبی اقلیتوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔
․․․․․․میں یہ ناول لکھا رہا تھا ملک کی سیاسی صورت حال نے کروٹ لی تو اقلیتوں کی زندگی میں طوفان آگیا ۔ صرف روہت ویمولہ اور نجیب نہیں ، پنسارے اور گوری لنکیش نہیں، پہلو خان اور اخلاق نہیں ، ایک پوری تہذیب زد میں آئی۔ ہلاکتیں بڑھیں ۔‘‘
اس طرح دیکھا جاسکتا ہے کہ ناول نگار کا دل لمبے عرصے سے ہر حادثات پر اپنی نگاہ جمائے ہوئے اور ان کا دل عوام اور تہذیبی نسل کشی کے درد میں بے چین ہے۔ وہ خوفزدہ ہیں کہ موجودہ نسلوں اور مستقبل میں آنے والی نسلوں کا کیا ہوگیا۔
انٹرویو کا دوسرا سوال تھا کہ ’’اس ناول کے ذریعہ آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟‘‘
ذوقی صاحب کہتے ہیں کہ ’’ناول کا مطلب کوئی پیغام دینا نہیں ہوتا ۔ ناول نگار اپنے عہد سے وابستہ ہوکر ویژن کے کیمرے سے بہت کچھ دیکھ لیتا ہے جو عام لوگ نہیں دیکھ پاتے۔ یہ سوچنا تو ہوگا کہ ہماری دنیا چلتے چلتے کہاں پہنچ گئی ہے۔ کیسا پیغام؟ جوہورہا ہے، اس پر خاموش نہیں رہا جاسکتا ۔ ہم اس بات پر بھی غور کریں کہ کہیں انجانے میں ہم آر ایس ایس مشن کی حمایت تو نہیں کر رہے ہیں؟‘‘
اس طرح مختصر طور پر یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مشرف عالم ذوقی نے اپنے ناول ’’مرگ انبوہ ‘‘میں جو پیغامات دیئے ہیں وہ بڑی جرأت کا کام ہے۔ ان کے باتیں لمبے عرصے تک حساس انسانوں کے ذہن کو جھنجھورتی رہیں گی۔ میری رائے ہے کہ اس ناول کا مطالعہ پڑھے لکھے حساس قارئین کو ضرور کرنا چاہئے۔
٭٭٭

Dr Ehsan Alam
About the Author: Dr Ehsan Alam Read More Articles by Dr Ehsan Alam: 13 Articles with 13508 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.