ہم ملک کے وزیراعظم نریندرمودی اور وزیر داخلہ امت
شاہ کے بے حد شکر گزار ہیں کہ ان دونوں نے شہریت ترمیمی قانون سامنے لاکر
نہ صرف ملک کے تمام امن پسند اور سیکولرازم پر یقین رکھنے والوں جگا دیا
بلکہ گزشتہ پانچ برسوں سے ملک کے مسلمانوں اور دلتوں پر ہو رہے ظلم و ستم
سے خوف و دہشت میں ڈوبے لوگوں کی خاموش اور گنگ زبان کو قوت گویائی دے دی
اور یہ احساس کرا دیا کہ بولو، چپ مت رہو، بقول فیض ؔکہ بول کے لب آزاد
ہیں ترے بول زباں اب تک تری ہے
ہم ملک کے موجودہ منظر نامہ پر ایک نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ ہندوستان
میں صدیوں سے اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہتے چلے آ رہے ہندؤں اور مسلمانوں کے
درمیان تفریق و منافرت پھیلا کر ان کے اتحاد و اتفاق کا شیرازہ بکھیرنے کی
جو کوشش اپنے سیاسی مفادات کے لئے کی جا ری تھی ۔ اسے اس شہریت ترمیمی
قانون کے باعث نہ صرف ان دونوں مذاہب کے لوگوں نے ،بلکہ سکھ و عیسائی بھی
حکومت کے مسلم مخالف رویئے کو دیکھتے ہوئے خلاف ہو گئے۔ دراصل بھارتیہ جنتا
پارٹی اور ان کی حکومت کے ذریعہ مسلسل ملک کے مسلمانوں اور دلتوں پر ہو رہے
ظلم و زیادتی اور استحصال کو دیکھتے ہوئے ہمارے برادران وطن کا اندر ہی
اندر بڑھتا غم و غصہ نیز ملک کے آئین کو مذہب کی بنیاد پر ترمیم کرنے کے
حکومت کے بڑھتے حوصلے نے نا قابل برداشت کر دیا اور پورا ملک جیسے غم و غصہ
سے ابل پڑا ۔ ملک کے کونے کونے میں ہزاروں کی نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد
میں لوگ اس کالے قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کے لئے سڑکوں پر اتر گئے۔
سب سے پہلا اور مؤثر احتجا ج جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی کے طلبأ و طالبات کے
ذریعہ سامنے آیا ۔ جسے مرکزی حکومت نے اقتدار کے نشہ میں چور، اس احتجاج کو
پوری طرح کچل دینے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ نہتے ،بے گناہ اور معصوم طلبأ و
طالبات پر حکومت کے واضح اشارے پر پولیس اور پولیس کے بھیس میں چھپے آر ایس
ایس کی واہنی نے تشدد اور بربریت کی انتہا کر دی،جس نے بقول وزیر اعلیٰ
مہاراشٹر، ادھو ٹھاکرے ، جلیان والا باغ کی یاد دلا دی ۔ ایسی ہی کوششیں
علی گڑھ مسلم یونورسیٹی اور اتر پردیش کے مختلف علاقوں میں یوگی نے کی۔ اس
ظلم و بربریت نے ملک کے کونے کونے میں پنپ رہے احتجاج کے اٹھتے شعلوں میں
گھی کا کام کیا۔ ملک کی کئی بڑی بڑی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا ٔ و
طالبات کے ساتھ ساتھ اساتذہ کرام بھی کھل کر اس قانون کی مخالفت اور حکومت
کے ذریعہ حیوانیت اور بربریت کے خلاف سامنے آ گئے ۔ ہزاروں ہزار کی تعداد
میں ملک کے بڑے بڑے دانشوروں، سائنسدانوں ، ادیبوں ، شاعروں، فلمی اداکاروں
، موسیقاروں ، فلم سازوں نے ان حالات کے خلاف اپنی سخت ناراضگی ظاہرکرتے
ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب و اقدار کو ختم
کرنے کی کوششوں سے باز آ جائے ، ورنہ ملک کا بڑا نقصان ہوگا ۔ بیرون مملک
میں بھی حکومت کے غیر آئینی، غیر انسانی اور غیر جمہوری عمل پر بڑے پیمانے
پر مذمت کی خبریں مسلسل آ رہی ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں پر ہو رہے مظالم کے
خلاف پہلی بار اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) نے اپنے شدید ردّ عمل کا
اظہار کرتے ہوئے بہت ہی واضح طور پر کہا ہے کہ ہندوستان کی حکومت مسلم
اقلیت کی حفاظت ،اسلامی مقدس مقامات کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ مودی حکومت کے
مسلم مخالف رویۂ کی بازگشت اقوام متحدہ میں بھی سنی گئی۔ یہ سب دیکھ کر
یقینی طور پر حکومت کے سارے حوصلے پست ہو گئے اور یہ خوش فہمی بھی ان کی
ختم ہوتی نظر آ رہی ہے کہ ہم جو چاہینگے ، کرینگے ۔ عوام اس قدر ڈری سہمی
اور دہشت زدہ ہے کہ وہ ہر ظلم اور نا انصافی کو خاموشی سے برداشت کرے گی۔
لیکن اس بار پانسہ الٹا پڑ گیا ۔
دراصل پلوامہ اور بالاکوٹ کے فریب سے دوبارہ بر سر اقتدار آتے ہی یہ حکومت
اپنی گزشتہ حکومت کے دوران کئے گئے تمام تر ظلم و زیادتی،تشدد و بربریت،
استحصال اور ناانصافی اور ہندو مسلمان کے درمیان تفریق اور منافرت کا ماحول
تیار کرکے ملک کی دیگر ہندو آبادی کی خاموشی کی توقع پر مودی اور شاہ نے
پارلیامنٹ سے شہریت ترمیمی بل پاس کرا لیا جو کسی بھی لحاظ سے ملک کے آئین،
جمہوریت ،جمہوری اقدار، دستور اور صدیوں پرانی شاندار ہندو مسلم اتحاد و
اتفاق کی روایت سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ تین طلاق،دفعہ 370 کا خاتمہ اور
بابری مسجد کے فیصلے پر پورے ملک کے مسلمانوں کا کوئی شدید ردّ عمل ،احتجاج
اورمظاہرہ نہ ہونے کے باعث مودی اور شاہ کی ٹیم کے مذید حوصلے بڑھے ۔اسی
بڑھتے حوصلے اور خوش فہمی میں مبتلا ہو کر ان دونوں نے ملک میں پیاز سمیت
دیگرروز مرہ کی اشیأ کی بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری،ملک کی لگاتار گرتی
معیشت، بڑھتے جرائم اورجنسی استحصال پر ہو رہے مسلسل ہنگامے کو سرد کرنے کے
لئے ایک تیر سے کئی شکارکرتے ہوئے، اپنی ناکامیوں پردہ ڈالنے اور اپنے
’ہندوتوا‘ ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی جانب مذید
ایک قدم بڑھایا۔ ہندو مسلم اتحاد کا شیرازہ بکھیرنے کے لئے مذہب کی بنیاد
پر پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں میں ہونے والی مخالفت کے باوجود شہریت
ترمیمی بل کو کسی بھی ریاست اور مرکزی وزارت قانون سے مشورہ لئے بہت عجلت
میں پاس کر ا لیا۔ مودی اور شاہ کو پوری توقع تھی کہ اس قانون کے سامنے آتے
ہی پورے ملک کے ہندو ، ملک کے تمام تر بنیادی اور اہم مسائل بھول کران
دونوں کی جئے جئے کار کرینگے۔لیکن ان دونوں کی ساری توقعات پر اس وقت پانی
پھر گیا،جب اس شہریت ترمیمی قانون کے سامنے آتے ہی پورے ملک میں اس کالے
قانون کی پوری شدت سے مخالفت شروع ہو گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ مودی اور شاہ نے ہندوستان کے عوام کے مزاج کو سمجھنے میں
بڑی بھاری بھول کی ۔ دراصل انھیں اس بات کا قطئی علم اور نہ ہی احساس ہے کہ
یہ ملک صدیوں سے سیکولر ملک رہا ہے۔ ملک میں جب بادشاہت کا دور تھا ، یعنی
مسلمانوں کی اولین حکومت محمد بن قاسم سے لے کر مغلوں کی حکومت اور پھر
کمپنی بہادر اور برٹش حکومت تک سبھوں نے کبھی بھی ا پنے مذہب کو اپنی حکومت
کی بنیاد نہیں بنایا ۔ اس لئے کہ صدیوں سے یہ تصور رہا ہے کہ جن ممالک میں
بھی مخلوط آبادی ہو، مختلف مذاہب کے ماننے والے ہوں ،وہاں اگر کامیاب
حکمرانی کرنی ہے تو حکومت کو مذہب سے نہیں جوڑا جائے ۔ بھارت کے مسلم
حکمرانوں کا تعلق اسلام مذہب سے ضرور رہا ، لیکن حکومت کی پالیسی ہمیشہ
سیکولر رہی اور صدیوں تک برسر اقتدار رہنے والے مسلم حکمرانوں نے کبھی بھی
اپنے مذہب اسلام کی ،حکومت کے زور پر تبلیغ کی کوشش نہیں کی ۔ مسلمانوں سے
حکومت چھیننے اور قبضہ جمانے والے انگریزوں نے بھی اپنے عیسائی مذہب کو اس
ملک پر مسلط کرنے کی دانستہ کوشش نہیں کی۔ ہاں چند ر گپت موریہ نے ضرور
اپنے دور حکومت میں اپنے جین مذہب کو حکومت کا مذہب قرار دیا تھا اور دوسرے
راجہ اشوک کا نام آتا ہے کہ اس نے بودھ مذہب کو حکومت کا مذہب نہ صرف تسلیم
کیا تھا، بلکہ اپنے بھائی مہندر کو پورے ملک میں حکومت کے خرچ پربودھ مذہب
کی تبلیغ کے لئے مامور کیا تھا ۔ان دو مثالوں کے علاوہ تیسری کوئی مثال اس
ملک میں ایسی نہیں ملتی ہے ۔یہی وجہ رہی ہے کہ ہمارے ملک بھارت کا صدیوں سے
سیکولر مزاج رہا ہے ۔ ہمارے ملک کو جب انگریزوں کی غلامی سے آزادی ملی ، تب
بھی آئین سازوں نے اس ملک کو حکومت کے لئے کسی بھی مذہب نہیں جوڑا ، بلکہ
آئین میں لفظ سیکولر یا سیکولرازم کی شمولیت کو بھی ضروری نہیں سمجھا گیا
اور آئین کے شق 15.1 میں بہت ہی واضح طور پر یہ لکھا گیا کہ ’’''The state
shall not discriminate against any citizen on grounds only of religion,
race, cast, sex, place of birth or any of them " ـ ۔ یعنی آئین کے اس رو
سے ملک کے اندر مذہب ، ذات، صنف(سیکس)، جائے پیدائش کی بنیاد پر کسی بھی
طرح کی تفریق نہیں کی جائے گی ۔ لیکن افسوس کہ مودی حکومت نے ملک کے آئین ،
دستور اور جمہوری اقدار کو پوری طرح در کنار کرتے ہوئے اقتدار کے نشہ میں
چور ہو کر ہر وہ کام کیا جو جمہوری قدروں اورانسانی حقوق کے منافی
ہیں۔حالانکہ خود مودی نے اپنے پہلے جشن جمہوریہ کے موقع پر سابق امریکی صدر
براک اوباما کی موجودگی میں ملک کے عوام کو یہ یقین دلایا تھا کہ فرقہ
پرستی کے عفریت کو دس سال تک قید میں رکھا جائے گا ۔ لیکن اقتدار کا نشہ سر
چڑھ کر بولنے لگا اور حکومت کے خلاف اعتراض کرنے یا ملک کے بنیادی مسائل کو
یکسر نظر انداز کئے جانے پر سوال اٹھانے والے کو سیدھے غدّار وطن قرار دیا
جانے لگا۔ ایسے لوگوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کر خاموش رہنے پر مجبور
کیاگیا۔عام لوگوں کے ساتھ ساتھ جب کبھی دابھولکر، پنسارے ، کلبرگی اور گوری
لنکیش جیسی اہم شخصیات نے ان سے باز پرس کرنا چاہا تو انھیں موت کے گھاٹ
اتار دیا گیا ۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نافذ کر ملک کی معیشت کو الگ تباہ و
برباد کر دیا گیا۔ ایسے ناگفتہ حالات میں لوگوں کے اندر غم و غصہ شدّت
اختیار کرتا جا رہا تھا ۔ بولنے، لکھنے ، کھانے پینے ، شادی بیاہ، پرب
تہوار، آپسی عشق و محبت،یکجہتی ، رواداری سب پر پہرے بٹھائے جانے لگے۔ لیکن
اس وقت پانی سر سے اُپر جانے لگا اور قوت برداشت جواب دے گئی جب ملک کے
عوام کی خوف و دہشت بھری خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے آئین کو مذہب
کی بنیاد پر بدلنے اور جمہوری اقدار کو ختم کرنے کی عملی کوشش ،شہریت
ترمیمی قانون کی شکل میں سامنے آئی ۔ اس کے سامنے آتے ہی وقت لوگوں کی قوت
برداشت جواب دے گئی اور ملک کے سیکولر مزاج رکھنے والے لاکھوں کروڑوں لوگ
ظلم و تشدد کی پرواہ کئے بغیر اپنے ملک اور آئین کی حفاظت کے لئے احتجاج
اور مظاہرے کے لئے سڑکوں پر اتر آئے۔ ملک کے طول و عرض میں طلبأ طالبات،
کسان ، مزدور، تاجر، بوڑھے، جوان ، مرد وعورتیں سراپا احتجاج بن کر حکومت
کے تشدد اور بربریت کے شکار ہو رہے ہیں ،لیکن اپنے مؤقف پر چٹّان کی طرح
قائم ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ مودی اور شاہ کا تاریخ کا کوئی
مطالعہ ہے اور نہ ہی ان کی پارٹی کا ملک کی آزادی میں کوئی مثبت رول رہا ہے
۔ اس وجہ کر انھیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں رہا کہ ہندوستان کے عوام سب
کچھ برداشت کر سکتے ہیں ۔لیکن اپنے ملک کی سا لمیت اور آئین کے خلاف کوئی
بھی عمل برداشت نہیں کر سکتے ہیں ۔ چونکہ ہندوستان کے خمیر میں کثرت میں
وحدت کی صدیوں پرانی شاندارروایت رچی بسی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کے
جو ہنگامی حالات ہیں، وہ بے حد تشویشناک ہونے کے ساتھ ساتھ مودی اور شاہ کے
لئے سبق اور عبرت حاصل کرنے والا ہے کہ اپنے مفادات اور سیاسی مقاصد کے لئے
صدیوں پرانی ہندو ، مسلم ، سکھ، عیسائی کے اتحاد و اتفاق کو توڑنے کی کوشش
کو اس ملک کے لوگ کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کرینگے۔ اس لئے بہتر ہے کہ’
مردم شماری‘ کی آڑ میں ’ مسلم شماری‘ اور صدیوں پرانے ہندو ، مسلم اتحاد و
اتفاق کو توڑنے کی کوششوں سے وہ باز آئیں اور سیکولرازم پر یقین رکھنے
والوں کے تعاون سے بد حالی کی جانب تیزی سے بڑھتے ملک کی ترقی اور خاشحالی
اور خیر سگالی پر توجہ مرکوز کریں ۔ |