تبدیلی سرکار کی ڈپلومیسی

 پاکستان تحریک انصا ف کی حکومت آئے ہوئے آٹھارہ مہینے مکمل ہونے کو ہیں۔ عمران خان کی سربرا ہی میں یہ حکومت سیاسی مقدمات میں گھرے اور نئی،مثبت امیدوں کی توقعات لیے ہوئے اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہوئے ۔ پہلا بڑا چیلنج وفاقی کابینہ کی تشکیل اور وزارتو ں کے قلمدان کا تھا۔الیکشن کے جلسوں اور انتخابی منشورمیں ایک آزادنہ،اور برابری کی سطح پر خارجہ پالیسی پڑوسی اور مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کا خواب دکھایا گیا تھا ۔ ابتدائی چند دنو ں میں ہی وزیراعظم عمران خا ن کو چند پڑوسی اور مسلم اور غیر مسلم ممالک کا دورہ کرنے کا موقع ملا ۔ جن میں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارت ، افغانستان ، ملائیشیا ،قطر،ایران ، اور امریکہ اور چین شامل ہیں ۔ اپنی انتخابی مہم میں وزیراعظم نے پہلے چھ ماہ کوئی بھی بیرونی دورہ نہ کرنا کا قوم سے کہا تھا ۔ لیکن حکمران جماعت کی طرف سے ان دورں کا مقصد ملک کی معاشی صورتحا ل کا بتایا گیا ۔ حکمران جماعت کو روز اول سے ہی کچھ انتظامی مشکلات کا سامنا رہا ۔ اداروں کے سربراہا ں کا تقرر ، منصفانہ احتساب اور ملکی معاشی صورتحا ل سے نمٹنا تھا ۔ سیاسی مقدمات کی بھونچال میں گھری ہوئی حکومت نے اپنے لیے اس صورتحال کو اس وقت میں مزید مشکل بنادیا جب اپوزیشن جماعتوں کے رہنماہوں پر مقدامات بنانا شروع کر دیئے ۔ مہنگائی اور ملکی کرنسی ریٹ کا عدم استحکام اس حکومت کے لیے مزید درد سر بن گیا ۔ایک پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ خارجہ پالیسی روز اول سے ہی ایک امتحا ن رہی ہے ۔ 27جنوری 2019میں چند ماہ کی مہماں حکومت کے لیے یہ اس وقت مزید مشکل ہوئی گئی جب سرحدی تناؤ کی وجہ سے بالاکوٹ کے مقام پر سرحدی خلاف ورزی کی اور مزید چوبیس گھنٹوں کے اندر اپنے جنگی طیاروں کے زریعے جب پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو افواج پاکستان نے اس کا بھر پور جواب دے کر دشمن کے جنگی طیاورں کو نقصان پہنچایا۔ اس وقت وزیراعظم پاکستان نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ــــ ــ’’ جنگ کسی بھی مسلے کا حل نہیں لیکن امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے ۔ لیکن اس کے بعد کئی مرتبہ سفارتی سطح پر دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی خود وزیراعظم نے اپنے بھارتی ہم منصب کو کئی مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن مثبت جواب نہیں ملا ۔ نومبر 2019میں پاکستانی حکومت کی طرف سے ایک مذہبی مقا م کرتارپورا کو کھول کر ایک اور سفارتی کوشش کی تھی ۔ مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے دونوں ممالک بیچ کشیدگی کی فضا ء اور بڑھ گئی ہے ۔حال ہی پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر بھارت کی طرف سے میزائل نصب کی دعوی کیا گیا ہے ۔ بہتر سال سے جاری دونوں ممالک کے بیچ کشمیر کی وجہ سے آج تک حالات بہتر نہیں ہو سکے ۔دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ اس وقت خارجہ پالیسی مستحکم نہیں ہے ۔ انڈیا اور ایران میں چاہ بہار کے راستے ایک بڑی معاشی منڈی قائم ہو رہی ہے ۔ حالانکہ پاکستان ایران گیس لائن دس سال سے تعطل کا شکار ہے ۔ گزشتہ حکومت نے بھی اس منصوبے کو ڈراپ لائن میں رکھا ۔ کشمیر کے معاملے پر بھی پاکستان کوایران کی طرف سے سفارتی سطح پر خاطر خواہ کامیابی حا صل نہیں ہوئی ۔ افغانستان اور پاکستان کو سرحدی دراندازی ،اور کشیدگی کی وجہ سے کبھی بھی دونوں ممالک کے تعلقات بے مثال نہیں رہے ۔ پاکستانی وزارت خارجہ کو ہمیشہ یہ شکایا ت رہی ہے کہ افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعما ل ہوتی رہی ہے ۔ دونوں ممالک کی طرز رہن ، ثقافت ، اور خدوخا ل تقربیا ایک جیسے ہونے کے باوجود سفارتی تعالقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے ۔ لیکن موجودہ حکومت کو دومسلم ممالک انڈونیشیا اور ترکی کی طرف سے سفارتی سطح پر خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ۔دونوں ممالک نے عالمی سطح پر اور کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کو تسلیم کیا ۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ہمسایہ ملک چین کے ساتھ میڈیا رپورٹ کے مطابق اتار چڑھاؤ آتے رہے ۔جسکی وجہ امریکہ کی سی پیک کو لے کر پاکستان پر پریشر ڈالنا بتایا گیا ۔ لیکن دونوں ممالک کی طرف سے ایسے کسی بھی دباؤ کے امکان کو رد کیا ہے ۔ امریکہ اور روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ سے ایک بے یقینی کی کیفیت میں رہے ہیں ۔ ساوتھ ایشیاء میں روس کا جھکاؤ پاکستان سے زیادہ بھارت کی طرف رہا ۔لیکن اب روس پاکستان میں آئل اور گیس، بجلی /انرجی کے پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کر رہا ہے ۔ دونوں ممالک کے سربراہان کی حالیہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں ملاقات بھی ہوئی ۔ دنیاکے سپرپاور امریکہ کے ساتھ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ ایک کشمکش میں رہی ۔ اہم موقعواں پر جب بھی پاکستان کو امریکہ کی ضرورت پڑی تو امریکہ ک طرف سے خاطر خواہ رسپانس نہیں ملا ۔ حالانکہ دہشت گردی کی جنگ کے خلاف پاکستان نے امریکہ کا ایک اتحادی کے طور پر ساتھ دیا ۔ خلیجی ریاستوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کے ساتھ ایک بردارنہ تعلقات ہمیشہ رہے ہیں لیکن دونوں ممالک کی دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ یمن میں اتحادی افواج بھجوانے کا معاملہ ہو ، قطر اور ایران کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات یا پاک ایران گیس پائپ لائن ہویا حال ہی میں منعقد ہونے والی ایشیاء سمٹ کانفرنس ہو ہمیشہ پاکستان کو سمجھوتا کرنا پڑتا ہے ۔ کشمیر کے معاملے پر سعودی حکام کی طرف سے موقف کو پاکستانی وزارت خارجہ کو مایوس کیا ہے ۔اب وقت کی ضرورت ہے کہ جب ممالک کی ڈپلومیسی ممالک کی حدوں سے نکل کر ریجن تک پھیل چکی ہے تو ہمیں بھی اپنی فارن پالیسی میں گڈ اور بیڈبک کی پالیسی کو چھوڑ دینا چاہیے ۔ سپر ممالک اس وقت دو بڑے بلاگ میں تقسیم ہو چکے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم اس ٹا ئم تک کسی بھی بلاگ کا باقاعدہ حصہ نہیں بن سکے ۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو کسی بھی دباؤ سے نکل کر اپنے معاشی مفاد کو مدنظر رکھ کر آزادانہ بنا دینا چاہیے ۔
 

Zabir Malik
About the Author: Zabir Malik Read More Articles by Zabir Malik: 8 Articles with 6403 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.