مشرق وسطیٰ کی صورت حال گزشتہ کئی دہائیوں سے بے یقینی
اور عدم استحکام کا شکار ہے ۔ عراق میں جاری کشیدگی ، یمن کی بے قابو صورت
حال ، شام میں بدامنی ، قطر اور عرب ممالک کے درمیان مخاصمت ، ایران اور
سعودی عرب کے اختلافات ، عالمی طاقتوں کی جانب سے ایران کے ساتھ ایٹمی
معاہدے کی منسوخی اور اَب چند دنوں میں عراق میں موجود امریکی سفارت خانہ
پر حملے اور امریکی ڈرون حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے
سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے متعدد ساتھیوں کی ہلاکت کے بعد حالات
کی سنگینی اور خطرے میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ ایران کی جانب سے شدید
ردعمل اُس وقت سامنے آیا جب امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ
جنرل قاسم سلیمانی کو صدارتی حکم پر ہلاک کیا گیا۔ یاد رہے کہ بغداد میں
امریکی سفارت خانے پر حملے کا الزام ٹرمپ حکومت کی جانب سے ایران پر لگایا
گیا تھا اور اُن کا کہنا تھا کہ اس حملے میں ایران کا ہاتھ ہے اور یہ کہ
اسے پوری طرح ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ امریکی سینیٹر مارکو روبیو نے اپنی
ٹویٹ میں اس واقعہ کا براہ راست ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا تھا۔ ایران کے
رہبر آیت اﷲ خامنائی ، صدر حسن روحانی ، وزیر خارجہ جواد ظریف اور سپریم
کونسل نے انتہائی سخت الفاظ میں کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت میں
ملوث ذمہ داروں سے سخت انتقام لیا جائے گا۔ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی اس
نئی لہر پر عالمی برادری کی جانب سے مذمتی بیانات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
پاکستان کی نئی حکومت جو پچھلے ایک برس سے یہ کوشش کر رہی ہے کہ وہ اپنے
ہمسایہ ملک ایران ، دوست اسلامی ملک سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان پائی
جانے والی چپقلشوں کا خاتمہ سفارت کاری کے ذریعے کرواسکے ، جس کے لئے ثالثی
کی پیش کش بھی کی۔مشرق وسطیٰ کی حالیہ صورت حال پر پاکستانی دفتر خارجہ نے
سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے علاقائی امن کو سنگین خطرات
لاحق ہوگئے ہیں۔ دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ایک اہم بیان میں کہا گیا ہے
کہ خودمختاری اور سا لمیت کا احترام اقوام متحدہ چارٹر کے بنیادی اُصول ہیں۔
یک طرفہ اقدامات اور طاقت کے استعمال سے گریز بہت اہم ہے۔ پاکستان نے تمام
فریقین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کشیدگی کو کم کرنے کے لئے تعمیری رابطے اور
سفارتی چینل استعمال کریں۔ عراق کی جانب سے امریکی ڈرون حملے میں جنرل قاسم
سلیمانی کی ہلاکت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ عراق
کی سا لمیت ، سلامتی اور خود مختاری پر حملہ ہے۔ روس اور چین نے بھی امریکہ
کے اس حملے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ دونوں عالمی طاقتوں نے جارحیت
کے استعمال کو ہر لحاظ سے ناقابل قبول اور خطرناک قرار دیتے ہوئے عالمی
معاملات اور تعلقات کے لئے خطرناک قرار دیا ہے۔ بیلا روس ، کیوبا اور بھارت
نے جنرل سلیمانی کے قتل پر تشویش کا اظہار اور خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی
کو کم کرنے پر زور دیا ہے۔ شام کی جانب سے اس حملے کو بزدلانہ کاروائی قرار
دیا گیا ، جب کہ لبنانی گروہ حزب اﷲ کے سربراہ حسن نصر اﷲ نے اپنے ایک بیان
میں کہا ہے کہ جنرل سلیمانی کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دلوانا دنیا بھر
میں پھیلے تمام جنگجوؤں کا فرض ہے۔ قطر کے وزیر خارجہ محمد بن جاسم الثانی
ایران پہنچ چکے ہیں جہاں انہوں نے اپنے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف سے
ملاقات کی، تاحال اس ملاقات میں ہونے والی بات چیت منظر عام پر نہیں
آئی۔یاد رہے کہ سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض میں منعقد ہونے والی امریکہ
عرب اسلامی کانفرنس میں ایران کو مدعو نہ کرنے پر قطر نے یہ نقطہ اعتراض
اُٹھایا تھا کہ ایران کی عدم شرکت سے سنی اور شیعہ فرقہ واریت کو تقویت ملے
گی جس پر عرب ممالک نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ اس کانفرنس میں امریکہ
اور سعودی عرب سمیت 55 اسلامی ملکوں کے سربراہوں اور مندوبین نے شرکت کی
تھی۔قطر اور ایران کے مشترکہ حدود کی حفاظت کے حوالے سے گہرے دفاعی مراسم
پائے جاتے ہیں۔ جن میں دونوں ممالک کے درمیان 2010 ء اور2015 ء کے دفاعی
معاہدے قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ تعلقات کی ایک اور وجہ دونوں ممالک کی
حدود میں واقع طبعی گیس کے کنویں ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ امیر قطر نے ایرانی
صدر روحانی کی دوسری بار منتخب ہونے پر اپنا تہنیتی پیغام بھیجاجو دیگر
خلیجی ممالک کے متفقہ منشور کے برعکس تھا۔ کیوں کہ وہ خلیجی تعاون کونسل کا
ممبر ملک ہے جو ایران کے خلاف اتحاد کا حصہ ہے۔ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت
حال پر قطر کے علاوہ دیگر ممالک سعودی عرب اور مصر کی جانب سے کوئی باضابطہ
ردعمل سامنے نہیں آیا۔ امریکی کانگریس کی سپیکر نینسی پلوسی نے کھلے الفاظ
میں ڈونلڈ ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جنرل سلیمانی
کو نشانہ بنانے سے پہلے کانگریس سے کوئی مشورہ نہیں کیا۔ اس کے علاوہ
صدارتی امیدوار برنی سینڈر ، جوبائیڈن اور الزبتھ وارن سمیت متعدد سیاست
دانوں نے عراق میں جنرل سلیمانی کی ہلاکت پر صدر ٹرمپ کے احکامات کی مذمت
کی۔ جنرل قاسم سلیمانی ایران کی طاقت ور اور مؤثر ترین شخصیت تھے اور اُن
کو مشرق وسطیٰ میں بر سر پیکار جنگجو گروہوں میں خاص مرتبہ حاصل تھا لہٰذا
ایران کی جانب سے ردعمل کی صورت میں اس کے عالمی سطح پر گہرے اثرات مرتب
ہوں گے۔ |