آرمی ایکٹ میں کسی ہنگامی قومی مفاد کی طرح بلا
رکاوٹ،مکمل اتفاق رائے سے ترامیم کی قانون سازی کا عمل تیزی سے مکمل کیا جا
رہا ہے۔یوں 2020 کے پہلے ہفتے ہی ملک میں ایک ایسی سیاسی صورتحال پیدا ہو
گئی ہے کہ جس میں سیاسی قوتوں نے حاکمیت بالا کو تسلیم کرتے ہوئے خود کو
ایسی سیاسی جماعتوں کی قطار میں کھڑا کر دیا ہے جو منظور نظر بنتے ہوئے
''سلیکٹ '' ہو کر '' سلیکٹڈ'' بننے کے لئے یکجہتی اورمفاہمت کی ایسی نئی
داستانیں رقم کرنا چاہتی ہیں کہ لوگ '' ایک پیچ'' اور کٹھ پتلی کی اصطلاحیں
بھول جائیں ۔
کیا عوام کو ، بقول جماعت اسلامی ، ' 'کمتر درجے کی برائی ''کی سیاسی چوائس
پر ہی گزارہ کرنا ہوگا؟ کیا مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت عوامی
بلادستی کو ایک تحریک میں بدلنے کا عزم وحوصلہ رکھتے ہیں؟ مجبور عوام
سرکاری تابعداری کے فرائض کی بجا آوری تو کر سکتی ہے لیکن ارباب اختیار کے
ملک کے اندر کے اہداف اور علاقائی،عالمی سیاست سے متعلق بلند عزم کے
اخراجات کا تمام تر بوجھ عوام پر ڈال دینے کی صورتحال کو ہضم کرنا عوام کے
لئے مشکل ہو رہاہے۔
انٹر نیٹ پہ نیوز ویب سائٹس،سوشل میڈیا نہ ہوتے تو راوی ملک میں ہر طرف
سکون اور امن کی داستانیں رقم کر رہا ہوتا۔اخبارات اور ٹی وی چینلز تو حسب
ہدایت چلائے جا سکتے ہیں لیکن ویب سائٹس اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی
آواز کو کیسے دبایا جا سکتا ہے؟ عقل و شعور کی دلیل کو ہٹ دھرمی اور دھونس
سے کیسے پابند کیا جا سکتا ہے؟ فیصلوں، اقدامات، پالیسیوں پر تنقید کو کیسے
روکا جا سکتا ہے؟ انٹر نیٹ کی بدولت اب عوام تھوڑی ہی دیر میں کسی بھی
حکومتی،سرکاری فیصلوں،اقدامات پر رائے سامنے لے آتے ہیں۔ اس سے معلق ایسے
تجزئیے سامنے لے آتے ہیں کہ جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔سیاسی
جماعتوں،ان کے رہنمائوں کے فیصلوں،اقدامات ،ان کے طرز عمل کو سات پردوں سے
نکال کر بے نقاب کر دیتے ہیں۔
نہیں جناب ، ملک میں جو شطرنج کی بساط بچھائی گئی ہے، وہ پاکستان کا بھلا
نہیں کر سکتی۔ کیا آپ کو پاکستان سے پیار نہیں ہے؟ کیا آپ کو پاکستان کی
اہمیت کا احساس نہیں ہے؟ کیا آپ کو پاکستان کی قدر نہیں ہے؟ کیا آپ کو
پاکستان کی افادیت کا ادراک نہیں ہے؟ کیا آپ پاکستان کو لوٹ کا مال سمجھتے
ہیں؟ کیا پاکستان کسی کے لئے کسی کی عطا کردہ جاگیر ہے؟ کیا ہمارے لئے
پاکستان اتنا ہی کم اہمیت ہے کہ ہم اپنی جائے عافیت،اپنے گھر کو تباہ اور
برباد کرنے والے فیصلے اور اقدامات دیکھتے ہوئے بھی خاموش رہیں؟
ملکی تاریخ کی سات دہائیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ ملک میں اقتدار کی کھینچا
تانی میں ہمیشہ عوام نے ہی یہ دیکھتے ہوئے کہ '' ملک اس جھگڑے کی تاب نہیں
لا سکتا'' ،مفاہمت کی لچک دکھائی بلکہ شکست تسلیم کی ہے۔ تاہم اب حالات و
واقعات ایسے نظر آ رہے ہیں کہ ناقابل چیلنج فیصلوں،پالیسیوں سے ملک کو
حقیقی معنوں میں تباہ اور خراب سے خراب تر کرنے کے راستے پہ ڈال دیا گیا
ہے۔
اب اشاعتی ادارے بھی چاہتے ہیں کہ نیک نیتی سے مناسب الفاظ میں بے شک تنقید
کریں لیکن ا س تحریر کا متمع نظر،حاصل بحث مثبت ہونا چاہئے جس سے آگے صرف
روشن ہی روشن نظر آئے۔اگر بنیادی موضوع،پاکستان کی صورتحال کا درست ادراک
کرتے ہوئے درست فیصلے نہیں کریں گے تو خرابیاں اور اس کے ہولناک نتائج کے
خطرات قریب سے قریب تر آتے جائیں گے۔
|