جموں و کشمیر کے مذہبی پیشوا،
مفکر ملت حضرت مولانا شوکت احمد شاہ صاحب کا بم دھماکے سے قتل کشمیری عوام
کو آزادی کے پنجرے میں قید کرنے کی تحریک کو تقویت پہنچانے کی خاطر کیا گیا
؟ کشمیر میں ہڑتالی احتجاج کی اپیل نے حقائق از خود صاف کردئے ہیں۔ گمراہ
کن تحریک کیلئے ہلچل مچاکر لوگوں کو ہڑتالی احتجاج کیلئے آمادہ کرکے یہ
خونی کھیل ماضی کے چالس سالوں سے کھیلا جارہا ہے۔ اب نوبت مذہبی پیشواﺅں کے
قتل تک آپہنچی ہے۔ نام نہاد تحریکِ آزادی کیلئے ایک لاکھ سے زائد بے قصور
کشمیری عوام کو خون چوسا جاچکا ہے۔ اس پر بھی ان کی پیاس نہیں بجھی ہے۔ اس
تحریک آزادی کو ہڑتالی احتجاج کے ذریعہ تقویت پہنچانے کیلئے اگلا نشانہ کون
ہوسکتا ہے۔ ان کی تازہ فہرست میں سردست کون کون ہیں۔ وہ ہی اس سے خوب اچھی
طرح واقف ہوں گے۔ کسی کے قتل پر تحریکِ آزادی کو کچلنے الزام لگا کر بچنے
کی کوشیش بڑی شاطرانہ ہے کہ اس حادثہ سے تحریک کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔
مگر پولیس و سیکورٹی فورس کو اشتعال دلاکر ان کے ذریعہ کشمیری عوام کو قتل
کرانا۔ ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اور پھر انسانی حقوق کی پامالی کو
بنیاد بنایا جاتا ہے ۔ ” گمراہ کن تحریکِ آزادی “ یہ کشمیری تحریک نہیں ۔
بلکہ ایک بیرونی تحریک ہے۔ اس تحریک کو بیرونی طاقتوں نے ابوجہل کے خاندان
کے سپرد کیا ہے۔ اس تحریک سے وہ دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اور انسانی
قتل کا الزام اپنے حریفوں کے سر ڈالتے میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ تحریک ایک
یہودی مشن ہے۔ جس کا مقصد بدامنی پھیلاکر کشمیر کو آزادی کا پنجرہ بنانا ۔
اس پنجرے میں تمام کشمیریوں کو قید کرنا ۔ اور پھر اس آزادی کے پنجرے کو
اقوام متحدہ کی چوکھٹ پر لٹکاکر بیرونی مشن ختم کردینا ہے۔۔ اس طرح کشمیری
عوام کو آزادی کے حوالہ سے غلام بنانے کی تحریک کشمیر میں ابوجہل کے خاندان
کے لوگ انجام دے رہے ہیں ۔ اس خاندان کی فطرت چودہ سوسال گزرنے کے بعد بھی
نہیں بدلی ہے۔ چاہے اس خاندان میں کوئی مولوی بھی بن جائے وہ بھی مسجد وں
میں بیٹھ کر عوام کو ورغلاتا ہے۔ اور گمراہ کن تحریک آزادی کی مہم کیلئے
آمادہ کرتا ہے ۔ کشمیر ی عوام کو آزادی کے پنجرے میں قید کرنے کیلئے ان کے
آقاﺅں نے انہیں رائے شماری کا خنجر دیا ہے۔ اس” امریکی خنجر“ کی یہ تبلیغ
مسلسل کرتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کا ایمان تو خدا پر ہوتا ۔ مگر ان کا ایمان
اقوام متحدہ پر ہے۔ ہندوستان کا ایک صوبہ ہریانہ ہے۔ وہاں کے لیڈر اپنے
بچوں کو تعلیم سے آراستہ کر کے مرکزی سرکار میں سرکاری نوکریاں دلاتے ہیں۔
ان کو دفتروں میں بیٹھاتے ہیں۔ مگر کشمیر کے جذباتی و ابوجہلی لیڈر ہڑتالی
احتجاج سے اپنے بچوں کو کشمیر سے بھگاتے ہیں۔ وہ کشمیر سے بھاگ کر دیگر
ہندوستان کی 26 ریاستوں میں رکشا چلاتے ہیں۔ ہاتھ کا ٹھیلا کھینچتے
ہیں۔اپنے سروں پر کپڑوں کے منڈل کا بوجھا ڈھوتے ہیں۔ اور پھر فٹ پاتھ پر
مزدوری کرتے ہیں۔ اگر کشمیر میں تحریک آزادی کا یہودی مشن کامیاب ہوا تو
پورا کشمیر سائیکل رکشا، ہاتھ ٹھیلوں اور سامان کے بوجھ سے بھرا ہوا ہوگا۔
اور پھر کشمیری عوام ایک زندہ لاش و بے بس قیدی کی طرح ابوجہل کے خاندان کے
سامنے سر جھکائے کھڑے ہوں گے۔ اس طرح کشمیری عوام کی نام نہاد آزادی کا
مفہوم مکمل ہوگا۔ کشمیر میں جگہ جگہ قتل کے حادثہ سے صرف بدامنی ، انتشار،
خون ریزی ، افراتفری، قتل و غارتگری کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اس تحریک آزادی
کے حوالہ سے کشمیری عوام کو قیدی و غلام بنانے کی ناپاک تحریک کو زندہ رکھا
جاتا ہے۔
بہرحال اب کشمیر میں ایک مذہبی رہمنا حضرت مولانا شوکت احمد شاہ کا درد ناک
قتل کے موقعہ پر ہڑتالی احتجاج کی کال دے کر پُر امن ماحول کو پُر تشدد
بنانے کی ناپاک کوشیش تیار کی گئی ہے۔ دنیا کے پُرسکوں ماحول کو بدامنی میں
تبدیل کرنے کیلئے کبھی پارسل بم پھینکے جاتے ہیں۔ تو کبھی مصنوعی تجارتی
بیماریاں برڈ فلو، سوائن فلو کو لاکر دنیا کو دھشت زدہ کیا جاتا ہے۔ تو
کبھی القاعدہ ،طالبان ، لشکرطیبہ و اسلامی شکل کی تحریکوں سے مذہب اسلام کو
دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کی مہم سے بدامنی میں اضافہ کیا جاتا ہے۔دھشت
کی تبلیغ کیلئے الجریزہ کے چینل امریکہ و برطانیہ میں انگریزی زبان میں
کھولے جاتے ہیں۔الجزیرہ کا عربی چینل دھشت گردو ں سے کیسٹس وقتاً فوقتاً
وصول کر کے ان کو ٹیلی کاسٹ کر کے اسلام دشمنوں کا ساتھ دیتا ہے۔ تو کبھی
دنیا کے عوام کو گمراہیت کی دلد ل میں دھکیل نے کیلئے وکی لیکس کی لال کتاب
کا اجراء کیا جاتا ہے۔ اب ایک نئی تازہ تحریک مسلم عوام و مسلم حکمرانوں کو
پریشان کرنے کیلئے ایجاد کی گئی ہے۔ پُرتشدد کرایہ کا عوامی احتجاج ۔ کہ
کسی بھی ملک کے حکمران کو 48گھنٹے میں اس نئی تحریک سے بے دخل کردیا جاتا
ہے۔ یہ سب چیزیں دنیا کے خوشگوار ماحول میں بد امنی پیدا کرنے کیلئے وجود
میں لائی جاتی ہیں۔ اور اس طرح دنیا کے امن کو تباہ و برباد کیا جاتا ہے۔
کشمیر میں پُر امن ماحول کو بگاڑنے کیلئے مولانا شوکت احمد شاہ کا بم
دھماکہ سے قتل کردیا گیا ہے۔ہڑتالی احتجاج کی کال دیکر حالات کو پُر خطر
بنانے کی نئی کوشش کی جارہی ہے۔ جبکہ مرحوم کو ایصال ثواب کیلئے کشمیر کی
تمام مسجدوں میں قرآن خوانی کے انتظامات کئے جاتے۔ اور ایک ہفتہ تک یہ
سلسلہ بطور عقیدت ہونا چاہئے تھا۔ مگر جذباتی لوگوں کو تو سیاست کرنی ہے۔
ان کی وفات کا سیاسی استعمال کرنا ہے۔ تو بھلا اس طرف وہ کیوں مائل ہوں گے۔
اور مرحوم کا قتل تو ہوا ہی ہے۔ تحریک آزادی کے یہودی مشن کو تقویت پہنچانے
کیلئے ؟
بہرکیف کشمیری عوام کو اپنے محسن مرحوم سے عقید ت کیلئے ان کی وفات کے بعد
ہڑتالی احتجاجی سے دور رہنا چاہئے ۔اور مرحوم سے اظہار عقید ت کیلئے ایصال
ثواب کا سلسلہ شروع کردینا چائے۔فی الوقت ابوجہل کے خاندان کے لوگ کشمیر
امن کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ ان کو پہنچاننا ۔ اس خطہ میں امن کیلئے ضروری
ہے۔ کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں سے ایک گزارش ہے۔ کہ وہ مرحوم شوکت احمد
شاہ کو ایصال ثواب پہنچانے کا عمل شروع کریں۔ ان کے نام پر کسی کو بھی
سیاست نہ کرنے دیں۔ مرحوم نے دین کی خدمت کیلئے گراں قدر کارنامہ انجام دیا
ہے۔ ان کی یاد میں ایک اردو یونیورسٹی دہلی میں قائم کر کے ان کی یاد کو
سری نگر سے دہلی تک تروتازہ کیا جائے۔ اور ان کا دفینہ بھی دہلی میں کر کے
ان کی روح کو تسکین پہنچائی جائے۔ |