تحریر : محمد اسلم لودھی
پیپلز پارٹی کی یہ روایت رہی ہے کہ جب بھی اسے اقتدار ملتا ہے وہ قانون
سمیت راستے کی ہر رکاوٹ کو جوتے کی ٹھوکر سے دور کرنے کی جستجو کرتے ہیں
شاید اسی وجہ سے اقتدار ختم ہوتے ہی تمام سرکردہ لوگ سیدھے جیل میں پہنچ
جاتے ہیں اور آنے والے الیکشن تک وہیں رہتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی موجود ہ
حکومت کو قائم ہوئے تین سال کا عرصہ ہوچکا ہے اس دوران سوائے اپنے اقتدار
کو استحکام اور طول دینے کے قومی اداروں کے استحکام اور عوام الناس کی حالت
بہتر بنانے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں گئی بلکہ ہر دو تین مہینے بعد
پٹرول٬ بجلی٬ گیس اور دیگر ٹیکسوں کی شرحوں میں پے در پے اضافہ کر کے اتنی
مہنگائی کردی گئی ہے کہ گزشتہ پندرہ سالوں میں بھی اتنی مہنگائی نہیں ہوئی
تھی ۔ گزشتہ تین سال سے عوام کے ساتھ حکمرانوں کا جو توہین آمیز رویہ رہا
ہے اس کا اعتراف تو خود حکمرانوں بھی کرتے ہیں لیکن چیف جسٹس اور آزاد
عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف جس طرح اعلانیہ منصوبہ بندی کر کے سندھ میں ہڑتال
اور آزاد عدلیہ کے خلاف نعرہ بازی اور بیان بازی کی گئی ہے وہ عدلیہ کے
خلاف حکمرانوں کے پس پردہ عزائم کی منہ بولتی تصویر تھی ۔ وزیر اعظم لاکھ
کہتے رہیں کہ عدلیہ اور حکومت کا تصادم نہیں ہوگا لیکن گزشتہ تین سالوں سے
جس طرح حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل نہ کر کے صرف ٹرخانے اور وقت
گزارنے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔ ڈھکے چھپے لفظوں میں یہی پیغام ہے کہ
حکومت آزاد عدلیہ کے فیصلوں کو دل سے قبول نہیں کرتی ۔ چیرمین نیب کی تقرری
کو سپریم کورٹ غیر آئینی قرار دے چکی ہے لیکن حکومت ایک بار پھر جسٹس (ر)
دیدار حسین ( جو دو مرتبہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوچکے ہیں
)کو ہی چیرمین نیب بنانے کا عندیہ دے کر سپریم کورٹ پر اپنی فوقیت ظاہر
کرنا چاہتی ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ ایک مرتبہ قاضی کی عدالت میں کسی
مقدمے کے سلسلے میں پیش ہوئے قاضی وقت خلیفہ دوم کو دیکھ کر کرسی سے اٹھ
کھڑا ہوا ۔ حضرت عمر ؓ نے یہ کہتے ہوئے قاضی کو منصب سے ہٹا دیا کہ جو شخص
خلیفہ وقت کے احترام میں اپنی کرسی چھوڑ دے وہ مخلوق کے ساتھ انصاف نہیں
کرسکتا لیکن پیپلز پارٹی حکومت ہر سرکاری اور نیم سرکاری ادارے کی طرح نیب
جیسے احتساب ادارے میں بھی اپنا جیالا بٹھانے کی آرزو رکھتی ہے جو بطور خاص
پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنماﺅں کے خلاف ریفرنس واپس لے کر انہیں مسٹر کلین
ثابت کردے ۔ حکمرانوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اس وقت تک اگر پیپلز
پارٹی کی حکومت قائم ہے تو اس میں ان کی اپنی خوبی یا عوامی خدمت کا کوئی
عمل دخل نہیں ہے بلکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی قیادت میں آزاد عدلیہ
ہی اس کی محافظ ہے جو غیر آئینی اقداما ت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے
اور وہ وطن عزیز میں جمہوریت اور جمہوری قدروں کو پروان چڑھتا دیکھنا چاہتی
ہے لیکن پیپلز پارٹی کے ارباب اختیار شاید یہ تصور کرب یٹھے ہیں کہ وہ آزاد
عدلیہ کو آسانی سے دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن یہ بات کسی سے بھی مخفی نہیں کہ
چیف جسٹس جسٹس افتخار محمد چودھری اور آزاد عدلیہ کی پشت پر اٹھارہ کروڑ
عوام سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے کھڑے ہےں جو موجودہ اور کرپٹ حکمرانوں کو
کرپشن اور کالے کرتوتوں کی وجہ سے کیفر کردار تک پہنچاسکتے ہیں لیکن چیف
جسٹس سمیت عدلیہ کا تحفظ ہمیشہ کی طرح اپنے خون سے کرتے رہیں گے ۔ 12 مئی
کو چیف جسٹس کی کراچی آمد پر ایم کیو ایم کی جانب سے جس گھٹیا پن کا مظاہرہ
کیا گیا تھا سندھ میں حالیہ ہڑتال اور مظاہرے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی
دکھائی دیتے ہیں ۔ وفاقی وزیر اطلاعات کہتی ہیں کہ سپریم کورٹ سے پیپلز
پارٹی کے خلاف ہی فیصلہ آتا ہے لیکن انہوں نے کبھی اپنے دامن کو جھنجھوڑ کر
نہیں دیکھا کہ قانون اور آئین کی جو دھجیاں پیپلز پارٹی کی موجود حکومت اڑا
رہی ہے اس کا خمیاز ہ بھی تو اسی ہی بھگتنا پڑے گا کونسا سرکاری ادارہ یا
وزارت ہوگی جس میں اربوں روپے کرپشن کا سیکنڈل منظرعام پر نہ آیا ہو ۔ یہ
پیپلز پارٹی حکومت کا ہی کارنامہ ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں اقتصادی اور
معاشی اعتبار سے بدحال اور کرپشن کے اعتبار سے کرپٹ ترین ممالک میں شامل
ہوچکا ہے ۔حج سیکنڈل اس کی بہترین مثال ہے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ چیف جسٹس
اور آزاد عدلیہ کے دیگر جج صاحبان پاکستان کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ کی
حیثیت رکھتے ہیں ۔صدر مملکت فرماتے ہیں کہ خدمت کے ابھی دو سال باقی ہیں
خدا کی پناہ ان باقی دو سالوں میں عوام اور دیگر قومی اداروں کی درگت کیا
بنائی جائے گی یہ تو اللہ ہی جانتا ہے ۔لیکن عدلیہ کے خلاف پے در پے سازشیں
کرکے حکمران خود اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مار رہے ہیں ۔ |