سماجی زندگی کے دو رخ

"وہ جھونپڑی جہاں عورت مُسکراتی ہے
"اس عالیشان محل سے بہتر ہے جہاں عورت روتی ہے"
شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا ہے کہ :
"وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزدروں"
اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اگر شریک حیات اچھا اور سلجھا ہواہوتو زندگی کی گاڑی میں تیزی آجاتی ہے۔ یعنی عورت کی زندگی میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے ورنہ عورت کی ساری زندگی ایک عذاب بن جاتی ہے۔ تمام عمر عورت کو ایک انجانا سا خوف رہتا ہے لیکن شوہرسے اگرذہنی ہم آہنگی ہوجائے تو یقینا زندگی آسان اور سہل ہو جاتی ہے۔
شوہر کے ایک کچے مکان یا جھونپڑی میں بھی بیٹھ کر شوہر کی محبت کے سہارے عورت دنیا کی ہر کامیابیاں حاصل کر سکتی ہے۔ہر عورت کے لئے شوہر کا رشتہ سب رشتوں پر فوقیت رکھتا ہے
کچھ عرصہ پہلے میں راولپنڈی میں ایک اہم ادارے میں موجود تھا اپنے ایک قریبی دوست جو کہ اس ادارے میں کمانڈر تھے
ان کے آفس میں بیٹھا تھا۔ادارے کا ایک اہلکار کمانڈر کے پاس آیا اور کہا : "جناب کمانڈر صاحب! مجھے فوراً چھٹی جانا ہے"
کمانڈر : " آپ کل تو گھر سے واپس آئے ہیں"
اہلکار : " بالکل صحیح کہا آپ نے، کل ہی واپس آیا ہوں"
کمانڈر : "تو پھر آج آپ دوبارہ چھٹی کیوں جانا چاہتے ہیں"؟
اہلکار : "کل جب میں جہلم سے روانہ ہوا تو میری شریکِ حیات بیمار تھیں آج سارا دن میں نے سخت بے چینی میں گذارا"
کمانڈر : "ٹھیک ہے آپ کی چھٹی منظور کرتا ہوں"
اہلکار : شکریہ جناب
کمانڈر صاحب نے اہلکار کی چھٹی منظور کی اور اہلکار نے جوش و خروش کے ساتھ شکریہ ادا کیا۔ اور چل نکلا میں اس وقت کمانڈر صاحب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا بعد میں میری اس اہلکار سے ادارے کے گیٹ پر ملاقات ہوئی ۔ میں نے اہلکار سے کہا: کہ آپ کی تنخواہ ہی اتنی کم ہے آپ غریب آدمی ہیں روز کے آنے جانے کے اخراجات کرایہ وغیرہ برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہو گا آپ ٹیلی فون پر ہی اپنی اہلیہ کی طبیعت معلوم کر لیتے۔
اہلکار: "جناب میں نے ایک ہفتے سے کھانا نہیں کھایا ہے ۔اور بے شک ہم غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ہمارے کچے مکان ہیں۔ لیکن میری اہلیہ میرے گھر میں ملکہ ہے مجھے میری بیوی اپنا شوہر و مجازی خدا سمجھتی ہے اور میری خدمت کرتی ہے تو میں بھی اس کو اپنے گھر کی خوبصورتی اور ملکہ سمجھتا ہوں" یہ کہہ کر وہ اہلکار تیزی سے سٹاپ کی طرف روانہ ہو گیا۔ میں بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ ایسے کچے مکان اور جھونپڑی اس محل سے اچھی ہیں۔ جہاں عورت کے ساتھ ظلم و تشدد کیا جاتا ہے
اب دوبارہ آتے ہیں اسی جملے پر اور تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں
"وہ جھونپڑی جہاں عورت مُسکراتی ہے
اس عالیشان محل سے بہتر ہے جہاں عورت روتی ہے"
عورت وہ ہستی ہے جو اپنے ہی گھر میں سب کے احکامات کو دل وجان سے بجا لاتی ہے اور اس کی پیشانی پر بل تک نہیں آتے وہ شوہر کے ہر دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھتی ہے وہ ان رشتوں ناتوں کو اپنی دنیا تصور کرتی ہے یہ ہی خوبیاں عاصمہ میں بھی تھیں اور اس کی شادی لاہور سے کراچی ہوئی تھی عاصمہ کے شوہر بہت بڑی کاروباری شخصیت اور لینڈ لاڈ تھے
عاصمہ بتاتی ہیں کہ "ہماری شادی کے دو مہینے بعد مجھے پتہ چلا کہ میرے شوہر کا دوسری عورت کے ساتھ افیئر چل رہا ہے مجھے بہت برا لگا اور مجھے دن ، رات ایک محل نما گھر میں رہتے ہوئے بھی کٹھن محسوس ہونے لگی۔ لیکن میں یہ شادی ختم نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس لیے میں نے کچھ مہینے اپنی شادی بچانے میں لگائے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے شوہر کو نت نئے طریقوں سے سمجھایا ۔ لیکن سمجھنے کے بجائے انہوں نے میرے اوپر ہاتھ اٹھانا شروع کر دیا۔ میرے ساتھ زد اور انا شروع کر دی اور کھلم کھلا اس عورت کو میرے سامنے ہی اپنے گھر لے آتے۔ جس عورت کے ساتھ میرے شوہر کا یارانہ تھا۔ پس میری برداشت ختم ہو رہی تھی اور بھروسے کی آخری کرن ختم ہونے کے سبب رشتہ خراب ہوتا چلا گیا۔ اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اپنے والدین کو ساری کہانی سناؤں گی اور دل کا بوجھ ہلکا کروں گی۔ کہ چند مہینے پہلے مجھے میرا گھر ایک محل لگتا تھا ۔اب میرے لیے کسی قید خانے سے کم نہیں۔ جلد ہی اس کی والدہ کراچی آن پہنچی عاصمہ کی والدہ نے اپنے داماد کو سمجھانے کی کوشش کی ۔ لیکن وہ اپنی زندگی کا رخ تبدیل نہ کرنے پر بضد تھا ۔ پس عاصمہ نے فیصلہ کیا کہ میں اب اس شخص کے ساتھ اپنے زندگی کے مزید ایام نہیں گذار سکتی اور والدہ کے ساتھ کراچی سے لاہور کے لیے روانہ ہو گئی۔

 

Bilal Bashir
About the Author: Bilal Bashir Read More Articles by Bilal Bashir: 3 Articles with 2044 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.