خوشی کا راز

ایک کتاب میں پڑھا
دوڑیے دوڑیے جان بچانے کے لیے دوڑیے
میں دوڑ پڑا
پارک میں واک کرنا شروع کیا
کرتا گیا ، کرتا گیا ۔ چلتا گیا چلتے چلتے کچھ دوست بھی بن گئے ۔
ایک بزرگ سے دوستی ہو گئ ۔ بات سے بات نکلی اور خوشی کا راز جانے تک جا پہنچی ۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ کبھی کبھی کسی ہسپتال چلے جایا کریں اور جو مدد ہو سکے کسی کی کر دیا کریں ۔
نئے تجربوں سے گزرنے کا شوق تو تھا ہی ۔

ایک دن ایک سرکاری ہسپتال پہنچ گیا ۔ اب وہاں بیٹھا رہا کہ کام کیسے شروع کروں ۔ کوئ مدد مانگ ہی نہیں رہا ۔ دوسرے دن بینچ پر بیٹھا تھا کہ ایک لڑکی کے پاؤں کے پاس ایک کاکروچ چلتا ہوا قریب سے قریب تر ہو رہا تھا وہ ایک دم میرے پاس آئ اور کہا کہ کاکروچ مار دیں ۔
میں ایک دم اٹھا اور اس پر جلدی سے چپل رکھ دی اور بڑے سستے میں ہیرو بن کر بیٹھ گیا ، حالانکہ اپنے گھر میں جھجکتا تھا اور گارڈ کو بلا کر مرواتا تھا ۔ گارڈ بھاگتا ہوا آتا اور بندوق سائڈ میں رکھ کر جھاڑو سے مار دیتا اور شکر کرتا کہ کام لیا گیا ۔
پھر میں نے بھی شکر کیا کہ کوئ کام لیا گیا۔
چلو کوئ کام تو آیا ۔
آہستہ آہستہ کام آنے لگے ، لوگ آتے اور کچھ کہہ دیتے کہ ٹیکسی کا کرایہ یا دوائ کے پیسے اور پھر خدا کا فضل ہونے لگا ۔ لوگ مجھ پر احسان کرنے لگے کہ میری طاقت کے مطابق کام کہنے لگے جو میں کر سکتا تھا اور میں خدا کے دیے سے کچھ دے کر مفت کی عزت کمانے لگا اور اس نئ راہ پر قدم جمانے لگا اور ایک کے دس کمانے لگا۔
پھر یہ سلسلہ نا جانے کب چھوٹ گیا ۔ کئ برس بعد پھر میں وہیں موجود تھا ۔ ہسپتال کی شکل بدلی ہوئی تھی ۔ مسائل وہی تھے ۔ ماحول کچھ بہتر تھا ۔ میرے پاس پنجاب سے فون آیا کسی پرانے گھریلو ملازم کے والد کا کہ میری بیٹیاں کراچی میں ہیں اور ان کا رشتہ داروں سے جھگڑا ہوا اور وہ کچھ زخمی ہو کر ہسپتال میں ہیں ، آپ کچھ کریں ۔ بات تھانے تک پہنچ گئ ہے۔
ہسپتال پہنچنے پر پتہ چلا کہ چوٹ معمولی ہے اور خطرے کی کوئ بات نہیں ۔
کزن نے موبائل دیکھ کر جھپٹ لیا ، غصہ میں گالم گلوج سے بات بڑھ کر ہاتھا پائی تک جا پہنچی ، دونوں طرف کے گھر والے بھی کود پڑے اور پرانی رنجشیں یاد آ گئیں اور خواتین بھی آ گئیں ۔

ان کو ہسپتال سے گھر چھوڑا ، دونوں خاندانوں میں صلح صفائی کروائی اور خوشگوار لا تعلقی کا مشورہ دے کر تھانہ میں ان کا خیال رکھنے کا بول کر گھر واپس آ کر خدا کے فضل کو محسوس کیا جو آج بھی موجود تھا لیکن میں اس مقام پر موجود نا تھا جہاں سے فضل اور خوشی ملتی ہے. جس کا قیمتی اشیا سے کوئ تعلق نہیں جو کسی غریب بستی میں بھی وافر ملتی ہے اور ان کے ایک کمرے کے گھر کی رونق چھوڑ کر واپس اپنی دنیا میں آگیا۔

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 261288 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.