خیبر پختونخواہ سے آنے والی ایک رپورٹ میں بتایاگیا
ہے کہ ’’․․․ صوبہ بھر میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے چوبیس لاکھ سے زائد
بچے سکولوں سے باہر ہیں ․․․ قبائلی علاقوں میں ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ سکول
بند پڑے ہیں ․․․ صوبے میں اساتذہ کی پانچ ہزار سے زائد اسامیاں خالی ہیں․․‘‘۔قبائلی
علاقوں میں سکول بند ہونے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے، کہ دہشت گردی کے
عفریت نے بستیاں اجاڑ دی تھیں، بچیوں کے سکول بند ہونے کی خبریں بھی تھیں،
تاہم پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ بے شمار قبائلی بھی شامل تھے، جنہوں نے
اپنی جان کے نذرانے پیش کرکے دہشت گردی کے جِن کو بوتل میں بند کیا۔ دوسرا
ایک اچھا سیاسی فیصلہ یہ بھی ہوا کہ قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں شامل
کرنے کے لئے اِن علاقوں کو صوبہ میں ضم کردیا گیا۔ اب بحالی بھی شروع ہو
جائے گی۔ مگر دوسری طرف یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ یہی وہ صوبہ ہے،
جہاں تحریک انصاف کی حکومت کا دوسرا دور جاری ہے، اسی کے لئے وزیراعظم
عمران خان بارہا دعویٰ کر چکے ہیں کہ کے پی کے میں ہزاروں بچے پرائیویٹ
سکول چھوڑ کر سرکاری سکولوں میں داخل ہور ہے ہیں، وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان کی
حالت بہتر ہو چکی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو انہیں وہی جادوئی فارمولا پاکستان
کے دوسرے صوبوں میں بھی لاگو کرنا چاہیے، تاکہ ترقی کے راستے کھلیں، مگر
ایسا نہیں ہے، اگر ہوتا تو اتنے بچے سکولوں سے باہر نہ ہوتے۔ تعلیم کو
اولین ترجیح دینے والی حکومت کے دور میں اگر چوبیس لاکھ بچہ سکولوں سے باہر
ہے، تو لمحہ فکریہ ضرور ہے۔
پنجاب سمیت دیگر دونوں صوبوں میں بھی دو کروڑ سے زائد بچے سکولوں میں تعلیم
حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ بلوچستان میں آبادی کم اور بہت دور دراز ہونے کی
وجہ سے شرح خواندگی کم ہے، طویل فاصلوں کی وجہ سے بچوں کی سکول تک رسائی
ممکن نہیں۔ سندھ کا بھی یہی عالم ہے۔ تاہم پنجاب میں دوسرے صوبوں کی نسبت
مسائل بہت کم ہیں، جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں کے علاوہ پورا صوبہ ’’ترقی
یافتہ‘‘ کی ڈگری کے حصول کے قریب ہے۔ مگر یہاں بھی حالت یہ ہے کہ دوسرے
تینوں صوبوں سے زائد بچے یہاں بھی سکولوں کے راستوں سے ناآشنا ہیں۔ جبکہ
بظاہر دعووں اور عمل میں حکومتوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ پھر بھی بچوں
کو سرکاری سکولوں تک لے آنے میں حکومتیں کیوں ناکام ہیں، اس کی بڑی وجہ وہ
تاثرہے جو والدین نے سرکاری سکولوں کے بارے میں قائم کر رکھا ہے۔ سرکاری
سکولوں کو ناکام بنانے کے پیچھے حکومت اور اساتذہ کی مشترکہ کاوشیں ہیں،
چار دہائیاں قبل سرکاری سکول تعلیم کا بہترین سرچشمہ تھے، پھر تنخواہیں
بڑھتی گئیں اور اساتذہ اپنے مشن سے قدم بقدم پیچھے سرکتے گئے، اب وہ وقت
آگیا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو سرکاری سکول کے قریب سے بھی نہیں گزرنے دیتے۔
تاہم ہائی سکولوں وغیرہ کی پوزیشن اب بھی بہتر ہے۔
اساتذہ کو درس وتدریس پر مائل و قائل کرنے کے لئے حکومتیں ایڑی چوٹی کا زور
لگا رہی ہیں، جہاں اساتذہ کی تنخواہ بہتر ہے، وہاں سکولوں میں بھی سہولتیں
پہلے کی نسبت زیادہ ہیں، پنجاب میں میاں شہباز شریف کے دور میں شعبہ تعلیم
پر کافی توجہ دی گئی، براہِ راست نئے اساتذہ بھرتی کئے گئے، حاضری کو یقینی
بنانے کے لئے سخت مانیٹرنگ سسٹم قائم کیا گیا، بہتر رزلٹ نہ دینے والے
سربراہانِ ادارہ سے پوچھ گچھ کی گئی، نئے داخلوں کی مہمات چلائی گئیں، ڈراپ
آؤٹ روکنے کے لئے کوششیں کی گئیں، مگر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ حکومتوں کی
محنتیں زیادہ ثمر بار نہیں ہوئیں۔ پنجاب میں ’’پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن ‘‘
کے نام سے ایک خود مختار ادارہ موجود ہے، جو کم فیس والے نجی تعلیمی اداروں
کے بچوں کی فیس مہیا کرتا ہے، نگرانی کا سخت نظام ہے، تیس لاکھ کے قریب بچے
پانچ سات سو روپے ماہانہ فیس پر زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں، محکمہ
تعلیم کا خاطر خواہ بوجھ انہوں نے اٹھا رکھا ہے، بہترین نتائج فراہم کر رہے
ہیں۔ مگر موجودہ حکومت فاؤنڈیشن کی سرپرستی کرنے کی بجائے اس کے لئے مشکلات
پیدا کر رہی ہے، چار سال سے فیس میں اضافہ نہیں ہوا، جبکہ اخراجات آسمان سے
باتیں کر رہے ہیں۔ فاؤنڈیشن کے سکولوں میں داخلوں کی بھی محدود اجازت دی
گئی تھی، تاکہ بچے سرکاری سکولوں کا رخ کریں، مگر یہ حربہ بھی کارگر ثابت
نہیں ہو سکا۔ جہاں فاؤنڈیشن کے سکول میں بچوں پر ایک ہزار سے کم خرچ اٹھتا
ہے وہاں سرکاری سکولوں میں یہ خرچہ دو ہزار روپے سے بھی زائد ہے۔
ٹیکنالوجی کے ترقی یافتہ دور میں کسی ملک کے کروڑوں بچوں کا سکول سے باہر
ہونا کسی کربناک المیہ سے کم نہیں، جس قوم کا مستقبل ہی تاریک ہو وہ کس
امید پر آگے بڑھے گی؟ چائلڈ لیبر کے خاتمے اور شرح خواندگی میں اضافہ کے
دعوے بے عملی اور نااہلی جیسی گرد کے نیچے دب کر اپنا وجود کھو بیٹھتے ہیں۔
مفت اور لازمی تعلیم حکومت پر فرض ہے، جس کے لئے اسے نہایت سنجیدگی اور درد
مندی کے ساتھ کام کرنا چاہیے، نہ کہ اس اہم ترین کام کو بھی غلام گردشوں کے
چکر میں ڈال کر آنیاں جانیاں دکھاتے رہیں، اور قوم ناخواندگی کے تاریک گڑھے
میں گر کر خود کو زندہ در گور کرتی رہے۔
|