اصحاب اہل نظر کے معیار انتخاب کو سلام

کشمیر اور کشمیریوں کو جابرانہ اور غیر انسانی طور پر تقسیم کرنے والی لائین آف کنٹرول سے ملحقہ وادی نیلم کے علاقے سرگن میں برفانی سلائیڈنگ سے درجنوں معصوم شہریوں کی قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔ اب تک نیلم ویلی کے مختلف علاقوں میں ستر سے زائد شہری گھروں پہ برفانی تودے گرنے جاں بحق اور بڑی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔ سا لہا سال کے بعد اس سال غیر معمولی طور پر برفباری سے آزاد کشمیر کے دور دراز کے علاقوں میں آبادیوں کی وسعت کی وجہ سے برفانی تباہ کاریوں کے متعدد واقعات پیش آ رہے ہیں۔

زخمیوں میں شامل ایک چھ سال کی معصوم بچی صفیہ ،جسے برفانی تودے سے بیس گھنٹے بعد زندہ نکلا گیا، زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جمعرات کو مظفر آباد کے فوجی ہسپتال میں دم توڑگئی۔ ایک دن پہلے ہی وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے مظفر آباد کے دورے کے موقع پر عیادت کے دوران اس بچی کے سر پہ ہاتھ رکھا تھا۔ہسپتال کی 'سی ٹی سکین' مشین عرصے سے خراب ہونے کے باعث پرائیویٹ طور پر ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ بچی کو دوسرے زخموں کے علاوہ 'ہیڈ انجری' بھی ہوئی تھی۔زخمیوںکو فوج کے ہیلی کاپٹر سے مظفر آباد منتقل کیا جا رہا ہے۔ اگر اس شدید زخمی ہونے والوں کو براہ راست راولپنڈی کے فوجی ہسپتال ' سی ایم ایچ' پہنچایا جائے تو مناسب بات ہو سکتی ہے اور شاید اس صورت معصوم صفیہ کی جان بچ جاتی۔

جب سے وزیر اعظم عمران خان نے سکون کے متلاشی عوام کو نوید سنائی ہے کہ سکون مرکے، قبر میں جا کرہی ملتا ہے تو عوام کا رہا سہا سکون بھی غارت ہو گیا ہے ۔ پہلے عوام جانتے بوجھتے ہوئے بھی حکومت کے'' سبز باغ'' دیکھ کر دل کو بہلا لیتے تھے۔ لیکن اب جب وزیر اعظم عمران خان نے ہی کہہ دیا ہے کہ بات سال دو سال،پانچ سال کی نہیں بلکہ سکون قبر میں جا کر ہی نصیب ہوتا ہے۔تو اب عوام کو اپنے کفن دفن کے اخراجات اور اس حوالے سے حکومت کے پاس اپنی بکنگ کرانے کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔

اب شیخ ابراہیم ذوقی کو کہاں سے لائیں کہ وہ عوام کی طر ف سے وزیر اعظم عمران خان سے عرض کرے کہ '' اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے ، مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے''۔ مرنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کہاں ہاتھ آئے گا کہ عوام اس کا اسی طرح محاسبہ کر سکیں جس طرح ہمارے ایک قومی ادارے نے سابق حکمران جنرل پرویز مشرف کا محاسبہ کیا تھا( محاسبے کی جس سزا کو بعد ازاں قومی ادارے کے ذریعے ہی ختم کر دیا گیا)

شاید کسی خیر خواہ نے وزیر اعظم عمران خان کے ذوق پرواز کو بلند کرنے کے لئے انہیں غالب کا یہ شعر یاد کرانے کی کوشش کی ہو کہ '' قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں ، موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں ' '۔یہ شعر سننا تھا کہ عوام کو جلد ہی تقدیر بدل جانے کی نوید با ر بار سنا کر خود بھی بور ہونے والے وزیر اعظم عمران خان کو جیسے عوام کو مناسب جواب دینے کا راستہ مل گیا۔ وزیر اعظم عمران خان اتنے مشکل الفاظ والا شعر کیسے یاد رکھتے،انہوں نے اس شعر کا اپنی سمجھ کے مطابق آسان ترجمہ کر دیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر کے دوران غالب کے اس شعر کی آسان تشریح کرتے ہوئے عوام کو درپیش مسائل اور مشکلات کے خاتمے کی حتمی '' ڈیڈ لائین'' دے دی۔دے کیا دی بلکہ اس کی بشارت سنا دی۔اب عوام شکرانے کے نفل بھی ادا کریں تو حق ادا نہ ہو گا کہ کن اصحاب اہل نظر کی نظروں نے پاکستان کے وزیر اعظم کے لئے عمران خان جیسی بلند عزم ، بالا پرواز اور روحانی کرامات کی حامل شخصیت کا انتخاب کیا تھا اور اس کو ہی پاکستان کی ایسی تقدیر بتا دیا کہ جس کے کامیاب یا ناکام ثابت ہونے کا خود ان کو بھی یقین نہیں ہے۔
 

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 611328 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More