ہندوستان کے نئے آرمی چیف جنرل منوج مکندنرون نے دہلی
میں اپنی پہلی میڈیا کانفرنس میں کہا بھارتی پارلیمان پورے کشمیر کو
اپناحصہ قرار دیتی ہے۔ اور جب انہیں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو واپس
لینے کا حکم ملے گا تو فوج اس ضمن میں کاروائی کرے گی۔ آزاد جموں و کشمیر
میں کاروائی کی اس دھمکی کو پاکستانی فوج نے محض شعلہ بیانی قرار
دیا۔پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف
غفور نے رد عمل میں سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر کہا ''بھارت فوج کے
سربراہ کا لائن آف کنٹرول کے اس پار کاروائی کرنے کا بیان محض اندرونی
بحران سے نکلنے کیلئے معمول کی بیان بازی ہے۔ بھارتی چیف اپنی عوام کو خوش
کرنے کیلئے بیان بازی کر رہے ہیں۔ ان کی ہر زہ سرائی کا مقصد عوام کی توجہ
بھارت میں جاری المیے سے ہٹانا ہے ''۔ جس طرح کی بیان بازی انڈین میڈیا
کرتا رہا ہے ،اور اپنی عوام کو جنگی جنون میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ جیسے پاک
بھارت جنگ کا آغاز ہو چکا ہے ۔ بھارتی جنگی جہاز پاکستان کی طرف اُڑان بھر
چکے ہیں ۔ اس طرح کےڈرامے اُن کا میڈیا پیش کر چکا ہے ۔ سابق آرمی چیف بپن
راوت جنکی کی مدت ملازمت 31دسمبر 2019کو ختم ہوئی وہ بھی اس طرح کی بیان
بازی کرتے رہے ہیں۔ ان کو جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا
''بھارتی آرمی چیف اپنے سیاسی آقاؤں کی انتخابی مہم کو فروغ دینے کیلئے
مسلسل بیانات کے ذریعے جنگ کو ہوا دیتے رہے ہیں''۔بھارت میں انتخابات بھی
مکمل ہوئے اور آرمی چیف بھی تبدیل ہو گیا مگر فوجی سربراہ کی جانب سے وہی
پرانا راگ الا پا جا رہا ہے۔ انتخابات سے قبل بھارت میں پاکستان دشمنی کا
ماحول بنانا بی جی پی کی سیاسی حکمت عملی تھی مگر نریندرا مودی نے کامیابی
کے بعد پاک بھارت کشیدگی کو کم کرنے کی بجائے بڑھاوا دیا۔ دوسری طرف
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان پر امید تھے کہ نریندرا مودی کی جیت کی
صورت میں تعلقات معمول پر آ جائیں گے۔ وزیر اعظم کا یہ بیان ریکارڈ پر
موجود ہے۔ یہ پاکستان کی سیاسی قیادت کی خوش فہمی تھی یا امن کی
خواہش۔نریندرا مودی کے بھارت کی سرجیکل سٹرائیک کے افسانے، اشتعال انگیز
کاروائیاں اور مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے جیسی پالیسیوں سے حالات کو
مزید خراب کیا گیا۔ اندرونی طور پر مودی سرکار نے سیکولر ازم کی پالیسی ترک
کر کے ہندو بالا دستی کے فروغ کے لیے اقدامات اٹھائے۔ ان حالات میں بھارت
کی سیاسی اور عسکری قیادت کی بیان بازی غیر متوقع نہیں۔ایسی سیاسی قیادت کی
موجودگی میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی حالات میں بہتری خواہش کی
تکمیل ممکن نہیں۔اس سے قبل سابق چیف جنرل پبن راوت نے بھی ایک ایسا ہی بیان
دیا تھا انہوں نے کہا تھا'' اگر حکومت نے حکم دیا تو بھارتی فوج سرحد پار
کر کے پاکستان میں آپریشن کرنے سے نہیں ہچکچائے گی''۔میجر جنرل آصف غفور کی
جانب سے اس وقت بھی جواب آیا تھا کہ بھارت ہمارا عزم آزمانا چاہتا ہے تو
آزما لے اس کا نتیجہ وہ خود دیکھے گا۔ ان کا کہنا تھا بھارت کو جو چیز روکے
ہوئے ہے وہ ہماری قابل بھروسہ جوہری صلاحیت ہے۔ انہوں نے بھارتی آرمی چیف
کے بارے کہا ایک فور سٹار جنرل کی طرف سے اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ بیان
بازی کسی پروفیشنل سولجر کو زیب نہیں دیتی، اس طرح کے بے سروپا بیانات نہ
قابل افسوس بلکہ زہنی دیوالیہ پن کو ظاہر کرتے ہیں۔بھارت چین کے ساتھ بھی
ٹکراؤ کے راستے پر رہا اور پاکستان کے ساتھ بھی جنگیں لڑنے کے بعد بھارت
خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم نہ کر سکا۔اس کی واحد وجہ پاکستان کی
پروفیشنل آرمی ہے۔ سفارتی سطح پر بھارت نے پاکستان کے خلاف مسلسل پراپیگنڈہ
کیا اور وہ آج بھی عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ پاکستان
کی فوج کی صلاحیت اور مہارت کا مظاہرہ تو عالمی دنیا نے بھارتی طیاروں کے
گرائے جانے اور ابھی نندن کی گرفتاری اور رہائی کی صورت میں دیکھ لیا۔
پاکستانی فوج جنگ کیلئے ہمہ وقت تیار ہے لیکن پاکستان کی پالیسی ہے کہ امن
کو راستہ دیا جائے۔ بھارتی رویہ منفی اور متکبرانہ ہے۔ پاکستان نے گزشتہ دو
دہائیوں میں امن قائم کیا اور امن کی قیمت پاکستان جانتا ہے۔دوسری طرف تیزی
سے تباہی کی طرف بڑھتا ہوا بھارت بیان بازی کے ذریعے کشیدگی کو ہوا دینا
چاہتا ہے۔ بھارت اندرونی طور پر کمزور ہو چکا ہے۔جنگ تعداد سے نہیں صلاحیت
سے جیتی جاتی ہے۔ اور فوج تنہا نہیں لڑتی میدان جنگ میں کامیابی اسی فوج کی
ہوتی ہے جس کے پیچھے عوام ہو۔ اور ساتھ ساتھ شہادت کا اور ایمان کا وہ جذبہ
ہوتا ہے جس سے جنگ کو جیتا جاتا ہے ۔ اللہ پاک کا لاکھ شکر ہے کہ شہادت اور
ایمانی جذبہ ہماری فوج کا طرہ امتیاز ہے ۔ پاکستان میں ہر جگہ سیاسی اختلاف
ہو سکتا ہے مگر دفاع وطن کیلئے قوم پاک فوج پر مکمل بھروسہ کرتی ہے اور ہر
پاکستانی فوج کے ساتھ ہے۔پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے، جوہری صلاحیت کے ساتھ
پروفیشنل فوج ہی پاکستان کی سلامتی کی ضمانت ہے۔پاکستانی سیاسی قیادت کی
امن کی خواہش ہماری کمزوری نہیں خارجہ پالیسی ہے جو خطے کیلئے بہتر ہے۔
جنگیں کسی بھی مسئلے کا حل نہیں کیونکہ جنگ خود ایک مسئلہ ہے۔ بھارت کی
سیاسی قیادت خوابوں کی دنیا سے نکل کر اگر حقیقت کی دنیا میں فیصلہ سازی
کرے تو کوئی وجہ نہیں تمام حل طلب مسائل کا خاتمہ ممکن ہے۔ بھارتی فوجی
سربراہ سرحد پار کرنے کی فضول بیان بازی کی بجائے اپنی سیاسی قیادت اور
عوام کا مفاد مد نظر رکھیں تو کوئی وجہ نہیں سرحد پار کرنا مقصد ہی نہ ہوگا،
بلکہ ایک ہی مقصد ہو گا سرحد کو کھولنا۔اگر امن کو موقع دیا جائے پاکستان
بھی ترقی کرے گا اور بھارت بھی بلکہ خطہ بھی ترقی کرے گا۔ کسی کی امن کی
خواہش کو کمزوری نہیں سمجھنا چاہئے۔ بھارتی فوج مقبوصہ کشمیر میں مکمل طور
پر ناکام ہوچکی ہے۔ ایل او سی کو عبور کرنا بھارتی فوج کے لیے آسان نہیں۔
یہ بیان بازی مخص گیڈر بھبکی ہے جس کا مقصد بھارتی عوام کو مسحور کرنا ہے۔
|